Skip to content

From Books

(قرآن شریف)

سورة ھود 25- 48 :11

اور ہم نے نوح ؑ کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا ( تو اُنہوں نے اُن سے کہا) کہ میں تم کو کھول کھول کر ڈر سُنانے ( اور پیغام پہنچانے ) آیا ہوں ۔

کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مجھے تمہاری نسبت عذاب الیم کا خوف ہے۔

تو اُن کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ ہم تم کو اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیرو وہی لوگ ہوئے ہیں جو ہم میں ادنیٰ درجے کے ہیں۔ اور وہ بھی رائے ظاہر سے(نہ غور و تعمق سے) اور ہم تم میں اپنے اوپر کسی طرح کی فضیلت نہیں دیکھتے بلکہ تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اے قوم ! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل (روشن) رکھتا ہوں اور اُس نے مجھے اپنے ہاں سے رحمت بخشی ہو جس کی حقیقت تم سے پوشیدہ رکھی گئی ہے تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں اور تم ہو کہ اس سے نا خوش ہو رہے ہو۔

اور اے قوم! میں اس ( نصیحت) کے بدلے تم سے مال وزر کا خواہاں نہیں ہوں میرا صلہ تو خدا کے ذمے ہے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں میں اُن کو نکالنے والا بھی نہیں ہوں۔ وہ تواپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہو ں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو۔

اوربرادانِ ملت! اگر میں ان کو نکال دوں تو (عذاب) خدا سے (بچانے کے لیے) کون میری مدد کرسکتا ہے۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟۔

میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ ان لوگوں کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہو ں کہ خدا ان کو بھلائی ( یعنی اعمال کی جزائے نیک ) نہیں دیگا۔ جو اُن کے دلوں میں ہے اُسے خدا خوب جانتاہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو بے انصافوں میں ہوں۔

اُنہوں نے کہا کہ نوحؑ تم نے ہم سے جھگڑاتو کیا اور جھگڑا بھی بہت کیا لیکن اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو وہ ہم پر نازل کرو۔

نوحؑ نے کہا کہ اس کو تو اللہ ہی چاہے گا نازل کرے گا۔ اور تم (اسکو کسی طرح) ہرا نہیں سکتے۔

اور اگر میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہاری خیر خواہی کروں اور اللہ یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے تو میری خیر خواہی تم کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتی ۔ وہی تمہارا پروردگار ہے اور تمہیں اُسی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر ) نے قرآن اپنے دل سے بنا لیا ہے کہہ دو کہ اگر میں نے دل سے بنالیا ہے تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر اور جو گنا ہ تم کرتے ہو اُس سے میں بری الذمہ ہوں ۔

اور نوح ؑ کی طرف سے وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان ( لاچکے) ان کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لا ئے گاتو جو کام یہ کررہے ہیں اُن کی وجہ سے غم نہ کھاﺅ۔

اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے روبرو بناﺅ ۔ اور جو لوگ ظالم ہیں ان کے بارے میں ہم سے کچھ نہ کہنا کیونکہ وہ غرق کردئیے جائیں گے۔

تو نوح ؑ نے کشتی بنانی شروع کر دی اور جب ان کی قوم کے سردار اُن کے پاس سے گزرتے تو اُن سے تمسخر کرتے۔ وہ کہتے کہ اگر تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو جس طرح تم ہم سے تمسخر کرتے ہو اسی طرح ( ایک وقت) ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے۔

اور تم کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اُسے رُسوا کرے گا اور کس پر ہمیشہ کا عذاب نازل ہوتا ہے؟۔

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور جوش مارنے لگا۔ تو ہم نے (نوح کو) حکم دیا کہ ہر قسم ( کے جانداروں) میں سے جوڑا جوڑا (یعنی ) دو (دو جانور ۔ ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ) لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہو چکا ہے (کہ ہلاک ہو جائیگا) اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو اور جو ایمان لایا ہو اُس کو کشتی میں سوار کرلو اور ان کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے ۔

(نوح نے) کہا کہ خدا کا نام لیکر (کہ اسی کے ہاتھ میں اس کا) چلنا اور ٹھہرنا (ہے) اس میں سوار ہو جاﺅ بیشک میرا پروردِگار بخشنے والا مہربان ہے۔

اور وہ ان کو لیکر (طوفان کی) لہروں میں چلنے لگی ( لہریں کیا تھیں) گویا پہاڑ (تھے) اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو کہ (کشتی سے) الگ تھا پکارا کہ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جاﺅ اور کافروں میں شامل نہ ہو ۔

اُس نے کہا میں ( ابھی ) پہاڑ سے جالگوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لیگا ۔ اُنہوں نے کہا کہ آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانیوالا نہیں (اور نہ کوئی بچ سکتا ہے) مگر جس پر خدا رحم کرے۔ اتنے میں دونوں کے درمیان لہر آحائل ہوئی اور وہ ڈوب کر رہ گیا۔

اور حکم دیا گیا ۔ اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان تھم جا۔ تو پانی خشک ہوگیا اور کام تمام کردیا گیا اور کشتی کوہ جُودی پر جا ٹھہری۔ اور کہہ دیا گیا کہ بے انصاف لوگوں پر لعنت ۔

اور نوح ؑ نے اپنے پروردِگار کو پکارا اور کہا کہ پروردِگار میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ( تو اس کو بھی نجات دے) تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر حاکم ہے۔

خدا نے فرمایا کہ نوح ؑ وہ تیرے گھر والوں میں نہیں ہے۔ وہ تو ناشائستہ افعال ہے تو جس چیز کی تم کو حقیقت معلوم نہیں اس کے بارے میں مجھ سے سوال ہی نہ کرو۔ اور میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ نادان نہ بنو۔

نوح ؑ نے کہا پروردِگار میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔ کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کروں جس کی مجھے حقیقت معلوم نہیں بخشے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں تباہ ہو جاﺅں گا۔

حکم ہو ا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ(جو) تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر (نازل کی گئی ہیں ) اُتر آﺅ۔ اور کچھ اور جماعتیں ہونگی جن کو ہم (دنیا کے فوائد سے) مخطوظ کریں گے پھر ان کو ہماری طرف سے عذاب الیم پہنچے گا۔

(تورات کی پہلی کتاب)

 پیدایش11-22: 6

پر زمین خدا کے آگے ناراست ہوگئی اور وہ ظُلم سے بھری تھی۔

اور خدا نے زمین پر نظر کی اور دیکھا کہ وہ ناراست ہوگئی ہے کیونکہ ہر بشر نے زمین پر اپنا طریقہ بگاڑ لیا تھا۔

اور خدا نے نوح سے کہا کی تمام بشر کا خاتمہ میرے سامنے آپہنچا ہے کیونکہ اُن کے سبب سے زمین ظُلم سے بھر گئی ۔ سو دیکھ میں زمین سمیت اُن کو ہلاک کروں گا۔

تو گوپھر کی لکڑی کی ایک کشتی اپنے لئے بنا۔ اُس کی کشتی میں کوٹھریاں تیار کرنا اور اُس کے اندر اور باہر رال لگانا۔

اور ایسا کرنا کہ کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ ۔ اُس کی چوڑائی پچاس ہاتھ اور اُس کی اونچائی تیس ہاتھ ہو۔

اور اُس کشتی میں ایک روشن دان بنانا اور اُوپر سے ہاتھ بھر چھوڑ کر اُسے ختم کر دینا اور اُس کشتی کا دروازہ اُس کے پہلو میں رکھنا اور اُس میں تین درجے بنانا۔ نچلا۔ دوسرا اور تیسرا۔

اور دیکھ میں خود زمین پر پانی کا طوفان لانے والا ہوں تاکہ ہر بشر کو جس میں زندگی کا دم ہے دنیا سے ہلاک کر ڈالوں اور سب جو زمین پر ہیں مر جائیں گے۔

پر تیرے ساتھ میں اپنا عہد قائم کروں گا اور تو کشتی میں جانا۔ تو اور تیرے ساتھ تیرے بیٹے اور تیری بیوی اور تیرے بیٹوں کی بیویاں ۔

اور جانوروں کی ہر قسم میں سے دو دو اپنے ساتھ کشتی میں لے لینا کہ وہ تیرے سا تھ تےرے جیتے بچیں ۔ وہ نر و مادہ ہوں ۔ اور پرندوں کی ہر قسم میں سے اور چرندوں کی ہر قسم میں سے اور زمین پر رینگنے والوں کی ہر قسم میں سے دو دو تیرے پاس آئیں تاکہ وہ جیتے بچیں ۔

اور تو ہر طرح کی کھانے کی چیز لے اپنے پاس جمع کر لینا کیونکہ یہی تےرے اور اُن کے کھانے کو ہوگا۔ اور نوح نے یوں ہی کیا۔ جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کیا۔

پیدایش 1-5:7

اور خداوند نے نوح سے کہا کہ تو اپنے پورے خاندان کے ساتھ کشتی میں آ کیونکہ میں نے تجھی کو اپنے سامنے اس زمانہ میں راست باز دیکھا ہے۔

کل پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور اُن کی مادہ اور اُن میں سے جو پاک نہیں ہیں دو دو نر اور اُن کی مادہ اپنے ساتھ لے لینا۔

اور ہوا کے پرندوں میں سے بھی سات سات نر اور مادہ لینا تاکہ زمین پر اُن کی نسل باقی رہے۔

کیونکہ سات دن کے بعد میں زمین پر چالیس دن اور چالیس رات پانی برساوں گا اور ہر جان دار شے کو جسے میں نے بنایا زمین پر سے مٹاڈالوں گا۔اور نوح نے وہ سب جیسا خداوند نے اُسے حکم دیا تھا کیا۔

پیدایش 17-23:7

اور چالیس دن تک زمین پر طوفان رہا اور پانی بڑھا اور اُس نے کشتی کو اُوپر اُٹھادیا۔ سو کشتی زمین پر سے اُٹھ گئی۔

اور پانی زمین پر چڑھتا ہی گیا اور بہت بڑھااور کشتی پانی کے اُوپر تیرتی رہی۔

اور پانی زمین پر بہت ہی زےادہ چڑھا اور سب اُونچے پہاڑ جو دنیا میں ہیں چھپ گئے۔

پانی اُن سے پندرہ ہاتھ اور اُوپر چڑھا اور پہاڑ ڈوب گئے۔

اور سب جانور جو زمین پر چلتے تھے پرندے اور چوپائے اور جنگلی جانور اور زمین پر کے سب رینگنے والے جاندار اور سب آدمی ہرگئے۔

خشکی کے سب جاندار جن کے نتھنوں میں زندگی کا دم تھا مرگئے۔

بلکہ ہر جاندار شے جو رُوی زمین پر تھی مَر مِٹی۔ کیا انسان حیوان۔ کیا رینگنے والے جاندار کیا ہوا کا پرندہ یہ سب کے سب زمین پر سے مر مٹے۔ فقط ایک نوح باقی بچایا وہ جواُس کے ساتھ کشتی میں تھے۔

اور پانی زمین پر ایک سو پچاس دن تک چڑھتا رہا۔

پیدایش 3-5:8

اور پانی زمین پر سے گٹھتے گٹھتے ایک سو پچاس دن لے بعد کم ہوا۔

اور ساتویں مہینے کی سترھویں تاریخ کو کشتی اراراط کے پہاڑوں پر ٹک گئی۔

اور پانی دسویں مہینے تک برابر گھٹتا رہا اور دسویں مہینے کی پہلی تاریخ کو پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آئیں۔

پیدایش 18-21:8

تب نوح اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں اور اپنے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ باہر نکلا۔

اور سب جانورسب رینگنے والے جان دار۔ سب پرندے اور سب جو زمین پر چلتے ہیں اپنی اپنی جنس کے ساتھ کشتی سے نکل گئے۔

تب نوح نے خداوند کے لئے ایک مذبح بنایا اور سب پاک چوپایوں اور پاک پرندوں میں سے تھوڑے سے لے کر اُس مذبح پر سوختنی قربانیاں چڑھائیں ۔

اور خداوند نے اُن کی راحت انگیز خوشبو لی اور خداوند نے اپنے دل میں کہا کہ انسان کے سبب سے میں پھر کبھی زمین پر لعنت نہیں بھیجوں گا کیونکہ انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے اور نہ پھر سب جان داروں کو جیسا اب کیا ہے ماروں گا۔

 

سورة الاعراف7 :19-26

اور (ہم نے )آدم ؑ ( سے کہا کہ ) تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو اور جہاں سے چاہو (اور جو چا ہو ) نوش جان کرو اس درخت کے پاس نہ جانا ۔ ورنہ گنہگار جاﺅ گے۔19

تو شیطان دونوں کو بہکانے لگا تاکہ اُن کے ستر کی چیزیں جو اُن سے پوشیدہ تھیں کھول دے اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت صرف اس لئے منع کیا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاﺅ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو۔ 20

اور اُن سے قسم کھاکر کہا کہ میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں۔ 21

غرض (مردُود نے ) دھوکا دے کر اُنکو (معصیت کی طرف) کھینچ ہی لیا جب اُنہوں نے اس درخت (کے پھل) کو کھالیا تو اُنکے ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے (درختوں کے ) پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے (اور ستر چھپانے ) لگے تب اُن کے پروردگا ر نے اُن کو پکارا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور بتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔ 22

دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردِگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کےا اور اگر تُو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ 23

(خدانے ) فرمایا (تم سب بہشت سے )اُتر جاﺅ (اب سے) تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لئے ایک وقت (خاص) تک زمین پر ٹھکانا (زندگی کا) سامان (کردیا گیا)ہے۔ 24

(یعنی ) فرمایا کہ اُسی میں تمہارا جینا ہوگا اور اسی میں مرنا اور اسی میں سے (قیامت کو زندہ کرکے) نکالے جاﺅ گے۔ 25

اے بنی آدم ؑ ہم نے تم پر پوشاک اُتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت دے اور (جو) پرہیزگار ی کا لباس (ہے) وہ سب اچھاہے یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں۔ 26

سورة طٰہٰ 20 :121-123

تو دونوں نے اس درخت کا پھل کھالیا تو اُن پر اُن کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں اور وہ اپنے (بدنوں ) پر بہشت کے پتے چپکانے لگے اور آدم نے اپنے پروردِگا ر کے حکم کے خلاف کیا تو (وہ اپنے مطلوب سے) بے راہ ہوگئے۔ 121

پھر اُن کے پروردِگار نے ان کو نوازا تو ا تو اُن پر مہربانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی۔ 122

فرمایا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اُترجاﺅ ۔ تم میں بعض بعض کے دشمن (ہونگے) پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا نہ تکلیف میں پڑے گا۔ 123

پیدائش 2 :15-17

اور خداوند خدا نے آدم کو لیکر باغ عدن میں رکھا کہ اُسکی باغبانی اور نگہبانی کرے۔15

اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے ۔16

لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جِس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔ 17

پیدائش3 :1-23

اور سانپ کُل دشتی جانورں سے جِنکو خُداوند نے بنایا تھا چالاک تھا اور اُس نے عَورت سے کہا کیا واقعی خُدا نے کہا ہے کہ باغ کے کِسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ ۔1

عَورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں ۔2

پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُسکے پھل کی بابت خُدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جاوگے ۔3

تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مروگے ۔ 4

بلکہ خُدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاو گے تمہاری آنکھیں کُھل جائینگی اور تم خُدا کی مانِند نیک و بد کے ناننے والے بن جاوگے ۔ 5

عورت نے جو دِیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لیے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اُسکے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اُس نے کھاےا ۔6

تب دونوں کی آنکھیں کُھل گئیں اور اُنکو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لئے لُنگیاں بنائےں۔7

اور اُنہوں نے خداوند کی آواز جو ٹھنڈ ے وقت میں باغ میں پھرتا تھا سُنی اور آدم اور اُس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درخت میں چھپایا۔ 8

تب خداوند خدا نے آدم کو پُکارا اور اُس سے کہاں کہ تُو کہاں ہے؟ ۔ 9

اُس نے کہاں میں نے باغ میں تیری آواز سُنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا تھا اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا۔ 10

اُس نے کہا تجھے کس نے بتایا کہ تو ننگا ہے؟ کیا تو نے اُس درخت کا پھل کھایا جِسکی بابت میں نے تجھکو حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا؟۔ 11

آدم نے کہا کہ جس عورت کو تُو نے میرے ساتھ کیا ہے اُس نے مجھے اُس درخت کا پھل دیا اور مےں نے کھاےا۔ 12

تب خداوند خدا نے اُس عورت سے کہا کہ تُو نے یہ کیا کِیا؟ عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھکو بہکایا تو میں نے کھایا۔ 13

اور خداوند خدا نے سانپ سے کہا اِسلئے کہ تُو نے یہ کیا تُو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعُون ٹھہرا ۔ تُو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھر خاک چاٹےگا۔14

اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا۔ وہ تیرے سر کو کُچلےگا اور تُو اُسکی ایڑی پر کاٹےگا۔ 15

پھر اُس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاونگا ۔ تُو درد کے ساتھ بچے جنیگی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی اور وہ تجھ پر حکومت کریگا۔ 16

اور آدم سے اُس نے کہا چونکہ تو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اُس درخت کو پھل کھایا جِسکی بابت میں نے تجھے حُکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا اِسلئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی ۔ مشقت کے ساتھ تُو اپنی عُمر بھر اُسکی پیداوار کھائےگا۔17

اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اُونٹکٹارے اُگائے گی اور تُو کھیت کی سبزی کھائےگا۔18

تُو اپنے منُہ کو پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تُو پھر لَوٹ نہ جائے اسلئے کہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لَوٹ جائےگا۔19

اور آدم نے اپنی بیوی کا نام حوا رکھا اِسلئے کہ وہ سب زندوں کی ماں ہے۔ 20

اور خداوند خدا نے آدم اور اُسکی بیوی کے واسطے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُنکو پہنائے۔21

اور خداوند خدا نے کہا دیکھو اِنسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا ۔ اب کہیں اَیسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کُچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے۔ 22

اِسلئے خداوند خدا نے اُسکو باغ عدن سے باہر کردیا تاکہ وہ اُس زمین کی جس میں سے وہ لیا گیا تھا کھیتی کرے۔23

چنانچہ اُس نے آدم کو نکال دیا اور باغ عدن کے مشرق کی طرف کروبیوں کو اور چوگرد گھومنے والی شعلہ زن تلوار کو رکھا کہ وہ زندگی کے درخت کی راہ کی حفاظت کریں۔ 24

Al Araf 7:19-26

ويا ادم اسكن انت وزوجك الجنة فكلا من حيث شئتما ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

فوسوس لهما الشيطان ليبدي لهما ما ووري عنهما من سواتهما وقال ما نهاكما ربكما عن هذه الشجرة الا ان تكونا ملكين او تكونا من الخالدين

وقاسمهما اني لكما لمن الناصحين

فدلاهما بغرور فلما ذاقا الشجرة بدت لهما سواتهما وطفقا يخصفان عليهما من ورق الجنة وناداهما ربهما الم انهكما عن تلكما الشجرة واقل لكما ان الشيطان لكما عدو مبين

قالا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا وترحمنا لنكونن من الخاسرين

قال اهبطوا بعضكم لبعض عدو ولكم في الارض مستقر ومتاع الى حين

قال فيها تحيون وفيها تموتون ومنها تخرجون

يا بني ادم قد انزلنا عليكم لباسا يواري سواتكم وريشا ولباس التقوى ذلك خير ذلك من ايات الله لعلهم يذكرون

 

Taha 20:121-123

فاكلا منها فبدت لهما سواتهما وطفقا يخصفان عليهما من ورق الجنة وعصى ادم ربه فغوى

ثم اجتباه ربه فتاب عليه وهدى

قال اهبطا منها جميعا بعضكم لبعض عدو فاما ياتينكم مني هدى فمن اتبع هداي فلا يضل ولا يشقى

 

 

2:15-17گنا ہ کا آغا ز 

 خداوند خدا نے اس آدم کو عدن با غ میں کھیتی باڑی کر نے کے لئے اور اس کی دیکھ بھا ل کے لئے لے گیا اور اس کو عدن باغ ہی میں ٹھہرا یا۔ 16 خداوند خدا نے آدم سے کہا ، “تو باغ کے کسی بھی درخت کا میوہ کھا سکتا ہے۔

3گنا ہ کا آغا ز
خداوند خدانے جن تمام حیوانا ت کو پیدا کیا اور ان میں سے سانپ ہی چا لاک اور عیار رینگنے وا لا ہے۔ سانپ نے اس عورت سے پو چھا ، “کیا یہ صحیح ہے کہ خدا نے تجھے باغ کے کسی بھی درخت کا میوہ کھا نے سے منع کیا ہے ؟”

عورت نے کہا ، نہیں “ہم لوگ باغ کے کسی بھی درخت سے پھل کھا سکتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا درخت ہے جس کا پھل ہم لوگوں کو نہیں کھانا چا ہئے۔ خدا نے ہم سے کہا ہے ، “باغ کے بیچ وا لے درخت کا پھل تمہیں نہیں کھا نا چا ہئے ! تمہیں ا س د رخت کو چھو نا بھی نہیں چا ہئے ورنہ تم مر جا ؤ گے۔

اِس بات پر سانپ نے عورت سے کہا ، “تم نہیں مرو گی۔ خدا جانتا ہے کہ اگر تم اُس درخت کا پھل کھا ؤ گی تو تم میں خدا کی طرح اچھے اور بُرے کی تمیز کا شعور پیدا ہو جا ئے گا۔”

عورت کو وہ درخت بڑا ہی خوشنُما معلوم ہوا۔ اور اس نے دیکھا کہ اس درخت کا پھل کھا نے کے لئے بہت ہی مو زوں و مُناسب ہے۔اس نے سوچا کہ اگر وہ اس درخت کا پھل کھا تی ہے تو وہ عقلمند ہو جا ئیگی۔ اس لئے اس نے اس درخت کے پھل کو تو ڑ کر کھا یا۔ اور اس کا تھو ڑا حصّہ اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے بھی اسے کھا یا۔

ان کی آنکھیں کھل گئیں ان لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ برہنہ تھے۔ انہوں نے کچھ انجیر کے پتے لئے اسے ایک دوسرے سے جو ڑ کر اپنے اپنے جسموں کو ڈھک لئے۔

اس دن شام کو ٹھنڈی ہوا ئیں چل رہی تھیں، خداوند خدا باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ جب آدم ا ور اس کی عورت نے اس کی چہل قدمی کی آوا ز سُنی تو باغ کے درختوں کی آڑ میں چھپ گئے۔ خداوند خدا نے پکا ر کر آدم سے پو چھا ، “تو کہا ں ہے ؟”

10 اس بات پر آدم نے جواب دیا ، “باغ میں تیری چہل قدمی کی آواز تو میں نے سُنی۔ لیکن چونکہ میں برہنہ تھا اس لئے ما رے خوف کے چھُپ گیا۔”

11 خداوند خدا نے آدم سے کہا ، “تجھ سے یہ کس نے کہا کہ تو ننگا ہے ؟ اور کیا تو نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھا یا جس درخت کا پھل کھا نے سے میں نے منع کیا تھا ؟۔”

12 اس پر آدم نے جواب دیا ، “تو نے میرے لئے جس عورت کو بنا یا اسی عورت نے اس درخت کا پھل مجھے دیا اس وجہ سے میں نے اس پھل کو کھا یا۔

13 تب خداوند خدا نے عورت سے پو چھا ، “تو نے کیا کیا ؟“ اس عورت نے جواب دیا ، “سانپ نے مجھ سے مکرو فریب کیا اور میں نے وہ پھل کھا لیا۔

14 اس وقت خداوند خدا نے سانپ سے کہا ،

“تو نے یہ بہت ہی بُرا کام کیا ہے۔
اس لئے تیرے وا سطے بڑی خرابی ہو گی۔
دیگر حیوانا ت کے مقابلے
تیری حالت گھٹیا اور کمتر ہو گی۔
تجھے اپنے ہی پیٹ کے بل رینگتے ہو ئے
زندگی بھر مٹی ہی کھا نی ہو گی۔
15 میں تجھے اور اس عورت کو
ایک دوسرے کا دُشمن بنا ؤں گا
تیرے بچے اور اس کے بچے
آپس میں دُشمن بنیں گے۔
اس کا بیٹا تیرے سر کو کچلے گا ،
اور تو اس کے پیر میں کا ٹے گا۔”

16 تب خداوند خدا نے عورت سے کہا ،

“جب تو حاملہ ہو گی
تو بہت تکلیف اٹھا ئے گی۔
اور تجھے وضع حمل کے وقت
دردِزہ ہو گا۔
اور تو مرد سے بہت محبت کرے گی۔
لیکن وہ تجھ پر حکمرانی کرے گا۔”

17 تب خداوند خدا نے آدم سے کہا ،

“میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اُس ممنوعہ درخت کا پھل نہ کھا نا۔
لیکن تو نے اپنی بیوی کی بات سُن کر اس درخت کے پھل کو کھا یا۔
تیری وجہ سے میں زمین پر لعنت کرتا ہو ں۔
زمین سے اناج اُگا نے کے لئے تجھے زندگی بھر محنت و مشقت سے کام کرنا ہو گا۔
18 اور زمین تیرے لئے کانٹے اور گھاس پھوس اُگا ئے گی۔
اور کھیت میں اُگنے وا لی اسی گھا س پھوس کو تو کھا ئے گا۔
19 اور تو غذا کے لئے اس وقت تک تکلیف اٹھا کر محنت کرے گا
جب تک تیرے چہرے سے پسینہ نہ بہے۔
اور تو مرتے دم تک تکلیف اٹھا کر کام کرتا رہے گا۔
اس کے بعد تو مٹی بن جا ئے گا۔
اس لئے کہ میں نے تیری تخلیق میں مٹی ہی کا استعمال کیا ہے۔
اور کہا کہ جب تو مرے گا تو مٹی ہی بنے گا۔”

20 آدم نے اپنی بیوی کا نام حوّا [a] رکھا۔ آدم کا اس کا نام حوّا رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں پیدا ہو نے وا لے ہر ایک کے لئے وہی ماں ہے۔

21 خداوند خدا نے حیوان کے چمڑے سے پو شاک بنا کر آدم کو اور اس کی بیوی کو پہنا یا۔

22 خداوند خدا نے کہا ، “وہ ہم جیسا ہو گیا ہے وہ اچھا ئی اور بُرا ئی کے بارے میں جانتا ہے۔ اب ہو سکتا ہے کہ وہ اس درخت حیات کا پھل کھا لے۔ اگر وہ اس درخت کا پھل کھا لیتا ہے تو ہمیشہ جیتا رہے گا۔”

23 اس لئے خداوند خدا نے آدم کو عدن کے باغ سے نکال دیا اور اسے اس زمین پر جس سے کہ اسے بنا یا گیا تھا کھیتی باڑی کر نے کے لئے مجبور کیا گیا۔

2:15-17گنا ہ کا آغا ز 

 خداوند خدا نے اس آدم کو عدن با غ میں کھیتی باڑی کر نے کے لئے اور اس کی دیکھ بھا ل کے لئے لے گیا اور اس کو عدن باغ ہی میں ٹھہرا یا۔ 16 خداوند خدا نے آدم سے کہا ، “تو باغ کے کسی بھی درخت کا میوہ کھا سکتا ہے۔

3گنا ہ کا آغا ز

خداوند خدانے جن تمام حیوانا ت کو پیدا کیا اور ان میں سے سانپ ہی چا لاک اور عیار رینگنے وا لا ہے۔ سانپ نے اس عورت سے پو چھا ، “کیا یہ صحیح ہے کہ خدا نے تجھے باغ کے کسی بھی درخت کا میوہ کھا نے سے منع کیا ہے ؟”

عورت نے کہا ، نہیں “ہم لوگ باغ کے کسی بھی درخت سے پھل کھا سکتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا درخت ہے جس کا پھل ہم لوگوں کو نہیں کھانا چا ہئے۔ خدا نے ہم سے کہا ہے ، “باغ کے بیچ وا لے درخت کا پھل تمہیں نہیں کھا نا چا ہئے ! تمہیں ا س د رخت کو چھو نا بھی نہیں چا ہئے ورنہ تم مر جا ؤ گے۔

اِس بات پر سانپ نے عورت سے کہا ، “تم نہیں مرو گی۔ خدا جانتا ہے کہ اگر تم اُس درخت کا پھل کھا ؤ گی تو تم میں خدا کی طرح اچھے اور بُرے کی تمیز کا شعور پیدا ہو جا ئے گا۔”

عورت کو وہ درخت بڑا ہی خوشنُما معلوم ہوا۔ اور اس نے دیکھا کہ اس درخت کا پھل کھا نے کے لئے بہت ہی مو زوں و مُناسب ہے۔اس نے سوچا کہ اگر وہ اس درخت کا پھل کھا تی ہے تو وہ عقلمند ہو جا ئیگی۔ اس لئے اس نے اس درخت کے پھل کو تو ڑ کر کھا یا۔ اور اس کا تھو ڑا حصّہ اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے بھی اسے کھا یا۔

ان کی آنکھیں کھل گئیں ان لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ برہنہ تھے۔ انہوں نے کچھ انجیر کے پتے لئے اسے ایک دوسرے سے جو ڑ کر اپنے اپنے جسموں کو ڈھک لئے۔

اس دن شام کو ٹھنڈی ہوا ئیں چل رہی تھیں، خداوند خدا باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ جب آدم ا ور اس کی عورت نے اس کی چہل قدمی کی آوا ز سُنی تو باغ کے درختوں کی آڑ میں چھپ گئے۔ خداوند خدا نے پکا ر کر آدم سے پو چھا ، “تو کہا ں ہے ؟”

10 اس بات پر آدم نے جواب دیا ، “باغ میں تیری چہل قدمی کی آواز تو میں نے سُنی۔ لیکن چونکہ میں برہنہ تھا اس لئے ما رے خوف کے چھُپ گیا۔”

11 خداوند خدا نے آدم سے کہا ، “تجھ سے یہ کس نے کہا کہ تو ننگا ہے ؟ اور کیا تو نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھا یا جس درخت کا پھل کھا نے سے میں نے منع کیا تھا ؟۔”

12 اس پر آدم نے جواب دیا ، “تو نے میرے لئے جس عورت کو بنا یا اسی عورت نے اس درخت کا پھل مجھے دیا اس وجہ سے میں نے اس پھل کو کھا یا۔

13 تب خداوند خدا نے عورت سے پو چھا ، “تو نے کیا کیا ؟“ اس عورت نے جواب دیا ، “سانپ نے مجھ سے مکرو فریب کیا اور میں نے وہ پھل کھا لیا۔

14 اس وقت خداوند خدا نے سانپ سے کہا ،

“تو نے یہ بہت ہی بُرا کام کیا ہے۔
    اس لئے تیرے وا سطے بڑی خرابی ہو گی۔
دیگر حیوانا ت کے مقابلے
    تیری حالت گھٹیا اور کمتر ہو گی۔
تجھے اپنے ہی پیٹ کے بل رینگتے ہو ئے
    زندگی بھر مٹی ہی کھا نی ہو گی۔
15 میں تجھے اور اس عورت کو
    ایک دوسرے کا دُشمن بنا ؤں گا
تیرے بچے اور اس کے بچے
    آپس میں دُشمن بنیں گے۔
اس کا بیٹا تیرے سر کو کچلے گا ،
    اور تو اس کے پیر میں کا ٹے گا۔”

16 تب خداوند خدا نے عورت سے کہا ،

“جب تو حاملہ ہو گی
    تو بہت تکلیف اٹھا ئے گی۔
اور تجھے وضع حمل کے وقت
    دردِزہ ہو گا۔
اور تو مرد سے بہت محبت کرے گی۔
    لیکن وہ تجھ پر حکمرانی کرے گا۔”

17 تب خداوند خدا نے آدم سے کہا ،

“میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اُس ممنوعہ درخت کا پھل نہ کھا نا۔
    لیکن تو نے اپنی بیوی کی بات سُن کر اس درخت کے پھل کو کھا یا۔
تیری وجہ سے میں زمین پر لعنت کرتا ہو ں۔
    زمین سے اناج اُگا نے کے لئے تجھے زندگی بھر محنت و مشقت سے کام کرنا ہو گا۔
18 اور زمین تیرے لئے کانٹے اور گھاس پھوس اُگا ئے گی۔
    اور کھیت میں اُگنے وا لی اسی گھا س پھوس کو تو کھا ئے گا۔
19 اور تو غذا کے لئے اس وقت تک تکلیف اٹھا کر محنت کرے گا
    جب تک تیرے چہرے سے پسینہ نہ بہے۔
اور تو مرتے دم تک تکلیف اٹھا کر کام کرتا رہے گا۔
    اس کے بعد تو مٹی بن جا ئے گا۔
اس لئے کہ میں نے تیری تخلیق میں مٹی ہی کا استعمال کیا ہے۔
    اور کہا کہ جب تو مرے گا تو مٹی ہی بنے گا۔”

20 آدم نے اپنی بیوی کا نام حوّا [a] رکھا۔ آدم کا اس کا نام حوّا رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں پیدا ہو نے وا لے ہر ایک کے لئے وہی ماں ہے۔

21 خداوند خدا نے حیوان کے چمڑے سے پو شاک بنا کر آدم کو اور اس کی بیوی کو پہنا یا۔

22 خداوند خدا نے کہا ، “وہ ہم جیسا ہو گیا ہے وہ اچھا ئی اور بُرا ئی کے بارے میں جانتا ہے۔ اب ہو سکتا ہے کہ وہ اس درخت حیات کا پھل کھا لے۔ اگر وہ اس درخت کا پھل کھا لیتا ہے تو ہمیشہ جیتا رہے گا۔”

23 اس لئے خداوند خدا نے آدم کو عدن کے باغ سے نکال دیا اور اسے اس زمین پر جس سے کہ اسے بنا یا گیا تھا کھیتی باڑی کر نے کے لئے مجبور کیا گیا۔