لفظ ‘شہید” ان دنوں بہت استعمال کیا جاتا ہے۔ میں نے سُنا ہے کہ یہ اُن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو کسی جنگ میں مارے جائے۔ یا پھر کیسی دو فرقوں کے درمیان کچھ تنازعہ ہو اور اس وجہ سے اُن کے درمیان جھگڑا ہوجائے۔ اگر کوئی اس لڑائی میں مر جائے تو اُس کو شہید کہتے ہیں۔ (اور شاید دوسری طرف کافر ہی کیوں نہ ہو)
لیکن کیا یہ درست ہے؟ انجیل شریف میں بیان آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ المسیح کی خدمت کے دوران حضرت یحییٰ ؑ کو شیہد کردیا گیا تھا۔ لفظ شیہد کو سمجھنے کے لیے حضرت یحیٰؑ کا واقع ایک اچھی مثال ہے۔ یہاں پر اس واقع کو انجیل شریف میں سے بیان کیا گیا ہے۔
‘اُس وقت چَوتھائی مُلک کے حاکِم ہیرود یس نے یِسُو ع کی شُہرت سُنی۔ اور اپنے خادِموں سے کہا کہ یہ یُو حنّا بپتِسمہ دینے والا ہے ۔ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اِس لِئے اُس سے یہ مُعجِزے ظاہِر ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہیرودیس نے اپنے بھائی فِلِپُّس کی بِیوی ہیرودِ یاس کے سبب سے یُوحنّا کو پکڑ کر باندھا اور قَیدخانہ میں ڈال دِیا تھا۔ کیونکہ یُوحنّا نے اُس سے کہا تھا کہ اِس کارکھنا تُجھے روا نہیں۔ اور وہ ہر چند اُسے قتل کرنا چاہتا تھا مگر عام لوگوں سے ڈرتا تھا کیونکہ وہ اُسے نبی جانتے تھے۔ لیکن جب ہیرود یس کی سالگِرہ ہُوئی تو ہیرودِ یاس کی بیٹی نے محفِل میں ناچ کر ہیرود یس کو خُوش کِیا۔ اِس پر اُس نے قَسم کھا کر اُس سے وعدہ کِیا کہ جو کُچھ تُو مانگے گی تُجھے دُوں گا۔ اُس نے اپنی ماں کے سِکھانے سے کہا مُجھے یُو حنّا بپتِسمہ دینے والے کا سر تھال میں یہِیں منگوا دے۔ بادشاہ غمگِین ہُؤا مگر اپنی قَسموں اورمِہمانوں کے سبب سے اُس نے حُکم دِیا کہ دے دِیا جائے۔ اور آدمی بھیج کر قَیدخانہ میں یُوحنّا کا سر کٹوا دِیا۔ اور اُس کاسر تھال میں لایا گیا اور لڑکی کو دِیا گیا اور وہ اُسے اپنی ماں کے پاس لے گئی۔ اور اُس کے شاگِردوں نے آ کر لاش اُٹھا لی اور اُسے دفن کر دِیا اور جا کر یِسُو ع کو خبر دی۔ ‘ متّی 14: 1-12
ہم نے سب سے پہلے دیکھا کہ کیوں حضرت یحییٰ ؑ کو گرفتار کیا گیا۔ کہ وہاں کے مقامی بادشاہ نے اپنے بھائی کی بیوی کو لے لیا اور اپنی بیوی بنالیا تھا۔ جو کہ حضرت موسیٰؑ کی شریعت کےمنافی تھا۔ حضرت یحییٰ ؑ نے لوگوں کے سامنے بادشاہ کو اس بات پر ملامت کی اور کہا کہ یہ درست نہیں ہے۔ لیکن بدعنوان بادشاہ نے نبی کی بات کو سننے کی بجائے۔ اُس نے نبی کو گرفتار کر لیا تھا۔ اُس بادشاہ کی بیوی، جو اب ایک طاقتور بادشاہ کی بیوی تھی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ اس نبی کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردے۔ اس کے لیے اُس نے اپنی جوان بیٹی کو بادشاہ کی ایک محفل میں ناچنے کے لیے تیار کیا۔ اُس کی بیٹی نے بادشاہ اور اُس کے مہمانوں کے سامنے ناچ کر بادشاہ کو خوش کیا۔ بادشاہ نے اُس لڑکی سے کہا مانگ جو آج تو مانگے گی وہ تم کو دیا جائے گا۔ اُس لڑکی کی ماں نے اُس کہا کہ حضرت یحییٰ ؑ کا سر تھال میں مانگ۔ لہذا حضرت یحییٰ ؑ جیل میں تھے۔ کیونکہ اُنہوں نے سچ بولا تھا۔ آپ کا سر قلم کرنا بہت ہی آسان تھا اور لا کر اُس لڑکی کو دے دیا اور وہ اُس کو اپنی ماں کے پاس لے گئی۔ یہ ایک صرف بادشاہ کو خوش کرنےکی وجہ سے کیا گیا کیونکہ بادشاہ لڑکی کے جنسی ناچ سے خوش ہوا تھا۔ جو اُس نے اُس کے مہمانوں کے سامنے کیا تھا۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ حضرت یحییٰ ؑ کسی سے لڑ نہیں رہ تھا۔ اور نہ ہی آپؑ بادشاہ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ آپ ؑ تو صرف جو سچ ہے اُس کو بیان کررہے تھے۔ آپؑ ایک بدعنوان بادشاہ کو انتباہ کرنے سے خوفزدہ نہ تھے۔ اگرچہ آپؑ کے پاس اس طاقتور بادشاہ کا سامنا کرنے کے لیے فوج نہ تھی۔ اُنہوں سچ بولا کیونکہ وہ حقیقی طور پر حضرت موسیٰ ؑ کی شریعت سے محبت رکھتے تھے۔ یہ ایک اچھی مثال ہے جس سے ہم اس بات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ کہ ہمیں کس طرح سے لڑنا ہے(سچ بولنے کے لیے) اور ہمیں کس بات کے لیے لڑنا (انبیاء اکرام کے سچ کے لیے) ہے۔ حضرت یحییٰ ؑ نے بادشاہ کو قتل نہ کرنا چاہا اور نہ ہی آپؑ نے کوئی انقلاب اور جنگ کو شروع کیا۔
حضرت یحییٰ ؑ کی شہادت کا نتیجہ
آپؑ کا نقطہ نظر نہایت موثر تھا۔ بادشاہ حضرت یحییٰ ؑ کی شہادت سے اس قدر باطنی طور پر پریشان تھا۔ وہ حضرت عیسیٰ المسیح کے معجزات اور تعلیم سے حیران ہوکر یہ سمجھا کہ شاید حضرت یحییٰ ؑ حضرت عیسیٰ المسیح کی شکل میں دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں۔
حضرت عیسیٰ المسیح نے حضرت یحییٰ ؑ کے بارے میں یوں فرمایا
‘جب وہ روانہ ہو لِئے تو یِسُو ع نے یُوحنّا کی بابت لوگوں سے کہنا شُرُوع کِیا کہ تُم بیابان میں کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا ہوا سے ہِلتے ہُوئے سرکنڈے کو؟۔ تو پِھر کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا مہِین کپڑے پہنے ہُوئے شخص کو؟ دیکھو جو مہِین کپڑے پہنتے ہیں وہ بادشاہوں کے گھروں میں ہوتے ہیں۔ تو پِھر کیوں گئے تھے؟ کیا ایک نبی دیکھنے کو؟ ہاں مَیں تُم سے کہتا ہُوں بلکہ نبی سے بڑے کو۔ یہ وُہی ہے جِس کی بابت لِکھا ہے کہ دیکھ میں اپنا پَیغمبر تیرے آگے بھیجتاہوں جو تیری راہ تیرے آگے تیّار کرے گا۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو عَورتوں سے پَیدا ہُوئے ہیں اُن میں یُوحنّا بپتِسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہُؤا لیکن جو آسمان کی بادشاہی میں چھوٹا ہے وہ اُس سے بڑا ہے۔ اور یُوحنّا بپتِسمہ دینے والے کے دِنوں سے اب تک آسمان کی بادشاہی پر زور ہوتا رہا ہے اور زورآور اُسے چِھین لیتے ہیں۔ کیونکہ سب نبِیوں اور تَورَیت نے یُوحنّا تک نبُوّت کی۔ اور چاہو تو مانو۔ ایلیّا ہ جو آنے والا تھا یِہی ہے۔ جِس کے سُننے کے کان ہوں وہ سُن لے۔ ‘ متّی 11:7-15
یہاں حضرت عیسیٰ المسیح نے اس بات کی تصدیق کی کہ حضرت یحییٰ ؑ آنے والے کی راہ "تیار” کرنے والا تھا۔ اور وہ انبیاء اکرام میں سے عظیم نبی تھا۔ حضرت یحییٰ ؑ آج آسمان کی بادشاہی میں موجود ہےلیکن بادشاہ ہرودیس جیسا طاقتور بادشاہ آسمان کی بادشاہی سے خارج ہے۔ کیونکہ اُس نے انبیاءاکرام کی تعلیم کو رد کردیا تھا۔
حضرت یحییٰؑ کے دور میں سنگین تشدد کرنے والے لوگ پائے جاتے تھے۔ جو دوسرے لوگوں کے سرقلم کرنے میں فخر سمجھتے تھے۔ آج بھی اس قسم کے سنگین تشدد کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اس قسم کے تشدد کرے والے لوگ اچانک آسمان کی بادشاہی پر چھاپا مارتے ہیں۔ لیکن وہ اس بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے اُسی راہ کو اختیار کرنے کے ضرورت ہوگی۔ جس کو حضرت یحییٰؑ نے اختیا ر کیا تھا۔ اُنہوں نے امن کو قائم کیا اور سچائی کی تبلیغ کی۔ اگر ہم اس مثال کی پیروی کریں گے تو ہم عقلمند ہونگے۔ ہمیں اُن لوگوں کی مثال کی پیروی نہیں کرنی جوآج دوسرے لوگوں کے سر قلم کردینا چاہتے ہیں۔