سورہ ال – بیّنه (سورہ 98 – صاف ثبوت) ایک اچھے آدمی کے لئے ضرورتوں کا بیان کرتا ہے – وہ کہتا ہے :
(تب اور انھیں تو بس یہ حکم دیا گیا تھا نرا خرا اسی کا اعتقاد رکھ) کہ باطل سے کترا کے خدا کی عبادت کرے اور پابندی سے نماز پڑھے اور زکا ت ادا کرتا رہے اور یہی سچا دین ہے –
98:5سورہ ال –بیّنه
اسی طرح سورہ ال عصر – (سورہ 103 – ڈھالنے والا دن ہمکو الله کے سامنے کن نقصان دہ عادتوں سے باز رہنا پڑیگا –
بیشک انسان گھاٹے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لاۓ اور اچھے کام کرتے رہے اور آپس میں حق کا حکم مانتے رہے اور صبر کی وصیت کرتے رہے –
103:2-3سورہ ال عصر
نبی حضرت ایوب ایک ایسے انسان تھے جس طرح سورہ ال – بیّنه اور سورہ ال – عصر میں بیان کیا گیا ہے – نبی حضرت ایوب زیادہ مشہور نہیں تھے – ان کا نام قرآ ن شریف میں صرف چار مرتبہ آیا ہوا ہے –
اے رسول تو اسی طرح (بھی)ہم نے تمھارے پاس (‘وحی’) بھیجی جس طرح نوح اور اس کے بعد والے پیگمبر بھیجی تھی اور جس طرح ابراہیم اور اسماعیل اور اصحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب و عیسیٰ و ایوب و یونس و ہارون و سلیمان کے پاس وحی بھیجی تھی ویسے ہی ہم نے داؤد کو زبور عطا کی –
4:163سورہ ان – نساء
اور یہ ہماری دولتیں ہے جو ہم نے ابراہیم کو اپنی قوم پر (سمجھائی بجھائی) (غالب آنے کے لئے عطا کی تھی) ہم جسکے مرتبے چاہتے ہیں بلند کرتے ہیں – بیشک تمہارا پروردگار حکمت والا با خبر ہے –
6:84سورہ ال – انعام
(کہ بھاگ نہ جایں جب انہوں نے اپنے(کا قصّہ یاد کرو)ایوب (اے رسول)اور (پروردگار سے دعاکی کہ خدا)بیماری تو میرے پیچھے (بند لگ گیئ ہے اور تو تو سب پر رحم کرنے والوں سے بڑھکر ہے) مجھ پر ترس کھا –
21:83سورہ ال – انبیاء
اور بندے ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے (خاص) ہمارے (اے رسول) پروردگار سے فریاد کرو کہ مجھکو شیطان نے بہت اذیت اور تکلیف پہنچا رکھی ہے –
38:41سورہ صا د
نبی حضرت ایوب کا نام دیگر نبیوں جیسے حضرت ابراہیم ، حضرت عیسیٰ ال مسیح اور نبی حضرت داؤد کیفہرست میں ظاہر ہوتا ہے جنہوں نے زبور شریف کو لکھا – وہ نبی حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے زمانے میں رہتے تھے – بائبل ان کے بارے میں اس طرح بیان کرتی ہے –
(1)عُو ض کی سرزمِین میں ایُّوب نام ایک شخص تھا ۔ وہ شخص کامِل اور راستباز تھا اور خُدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا تھا۔
1-1 5ایوب
(2)اُس کے ہاں سات بیٹے اور تِین بیٹِیاں پَیدا ہُوئِیں۔
(3)اُس کے پاس سات ہزار بھیڑیں اور تِین ہزار اُونٹ اورپانچ سَو جوڑی بَیل اور پانچ سَو گدھیاں اور بُہت سے نَوکرچاکر تھے اَیسا کہ اہلِ مشرِق میں وہ سب سے بڑا آدمی تھا۔
(4)اُس کے بیٹے ایک دُوسرے کے گھر جایا کرتے تھے اور ہرایک اپنے دِن پر ضِیافت کرتا تھا اور اپنے ساتھ کھانے پِینے کو اپنی تِینوں بہنوں کو بُلوا بھیجتے تھے۔
(5)اور جب اُن کی ضِیافت کے دِن پُورے ہو جاتے تو ایُّوب اُنہیں بُلوا کر پاک کرتا اور صُبح کو سویرے اُٹھ کر اُن سبھوں کے شُمار کے مُوافِق سوختنی قُربانیاں چڑھاتا تھاکیونکہ ایُّوب کہتا تھا کہ شاید میرے بیٹوں نے کُچھ خطا کی ہو اور اپنے دِل میں خُدا کی تکفِیر کی ہو ۔ ایُّوب ہمیشہ اَیسا ہی کِیا کرتا تھا-5
نبی حضرت ایوب میں وہ ساری خوبیاں موجود تھیں جو سورہ ال – بیینہ اور سورہ ال – عصر دعوی کرتا ہے – مگر شیطان خداوند کے سامنے حاضر ہوا – ایوب کی کتاب خداوند اور شیطان کے بیچ جو گفتگو ہی اسکا بیان کرتی ہے –
(6)اور ایک دِن خُدا کے بیٹے آئے کہ خُداوند کے حضُورحاضِر ہوں اور اُن کے درمِیان شَیطان بھی آیا۔
1:6-12 ایوب
(7)اور خُداوند نے شَیطان سے پُوچھا کہ تُو کہاں سے آتاہے؟ شَیطان نے خُداوند کو جواب دِیا کہ زمِین پر اِدھراُدھر گُھومتا پِھرتا اور اُس میں سَیر کرتا ہُؤا آیا ہُوں۔
(8)خُداوند نے شَیطان سے کہا کیا تُو نے میرے بندہ ایُّوب کے حال پر بھی کُچھ غَور کِیا؟ کیونکہ زمِین پر اُس کی طرح کامِل اور راستباز آدمی جو خُدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا ہو کوئی نہیں۔
(9)شَیطان نے خُداوند کو جواب دِیا کیا ایُّوب یُوں ہی خُدا سے ڈرتا ہے؟۔
(10)کیا تُو نے اُس کے اور اُس کے گھر کے گِرد اور جو کُچھ اُس کا ہے اُس سب کے گِرد چاروں طرف باڑ نہیں بنائی ہے؟تُو نے اُس کے ہاتھ کے کام میں برکت بخشی ہے اور اُس کے گلّے مُلک میں بڑھ گئے ہیں۔
(11)پر تُو ذرا اپنا ہاتھ بڑھا کر جو کُچھ اُس کا ہے اُسے چُھو ہی دے تو کیا وہ تیرے مُنہ پر تیری تکفِیر نہ کرے گا؟۔
(12)خُداوند نے شَیطان سے کہا دیکھ اُس کا سب کُچھ تیرے اِختیار میں ہے ۔ صِرف اُس کو ہاتھ نہ لگانا ۔ تب شَیطان خُداوند کے سامنے سے چلا گیا
تو پھر شیطان نے اس طرح سے نبی حضرت ایوب پر ایک آفت پر دوسری آفت لیکر آیا –
(13)اور ایک دِن جب اُس کے بیٹے اور بیٹِیاں اپنے بڑے بھائی کے گھر میں کھانا کھا رہے اور مَے نوشی کر رہے تھے۔
1:13-22 ایوب
(14)تو ایک قاصِد نے ایُّوب کے پاس آ کر کہا کہ بَیل ہل میں جُتے تھے اور گدھے اُن کے پاس چَر رہے تھے۔
(15)کہ سبا کے لوگ اُن پر ٹُوٹ پڑے اور اُنہیں لے گئے اور نَوکروں کو تہِ تیغ کِیا اور فقط مَیں ہی اکیلا بچ نِکلا کہ تُجھے خبر دُوں۔
(16)وہ ابھی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ ایک اَور بھی آ کر کہنے لگا کہ خُدا کی آگ آسمان سے نازِل ہُوئی اور بھیڑوں اور نَوکروں کو جلا کر بھسم کر دِیا اور فقط مَیں ہی اکیلا بچ نِکلا کہ تُجھے خبر دُوں۔
(17)وہ ابھی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ ایک اَور بھی آ کر کہنے لگا کہ کسدی تِین غول ہو کر اُونٹوں پر آ گِرے اوراُنہیں لے گئے اور نَوکروں کو تہِ تیغ کِیا اور فقط مَیں ہی اکیلا بچ نِکلا کہ تُجھے خبر دُوں۔
(18)وہ ابھی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ ایک اَور بھی آ کر کہنے لگا کہ تیرے بیٹے بیٹِیاں اپنے بڑے بھائی کے گھر میں کھانا کھا رہے اور مَے نوشی کر رہے تھے۔
(19)اور دیکھ! بیابان سے ایک بڑی آندھی چلی اور اُس گھرکے چاروں کونوں پر اَیسے زور سے ٹکرائی کہ وہ اُن جوانوں پر گِر پڑا اور وہ مَر گئے اور فقط مَیں ہی اکیلا بچ نِکلاکہ تُجھے خبر دُوں۔
(20)تب ایُّوب نے اُٹھ کر اپنا پَیراہن چاک کِیا اور سرمُنڈایا اور زمِین پر گِر کر سِجدہ کِیا۔
(21)اور کہا ننگا مَیں اپنی ماں کے پیٹ سے نِکلا اور ننگاہی واپس جاؤُں گا ۔ خُداوند نے دِیا اور خُداوند نے لے لِیا ۔ خُداوند کا نام مُبارک ہو۔
(22)اِن سب باتوں میں ایُّوب نے نہ تو گُناہ کِیا اور نہ خُدا پر بیجا کام کا عَیب لگایا۔
شیطان ابھی بھی اس جستجو میں تھا کی وہ خداوند کو آمادہ کرے ایوب کو لعنت بھیجے – سو حضرت ایوب کے لئے دوسرا امتحاں تھا –
(1)پِھر ایک دِن خُدا کے بیٹے آئے کہ خُداوند کے حضُور حاضِر ہوں اور شَیطان بھی اُن کے درمِیان آیا کہ خُداوندکے آگے حاضِر ہو۔
2:1-10 ایوب
(2)اور خُداوند نے شَیطان سے پُوچھا کہ تُو کہاں سے آتاہے؟ شَیطان نے خُداوند کو جواب دِیا کہ زمِین پر اِدھراُدھر گُھومتا پِھرتا اور اُس میں سَیر کرتا ہُؤا آیاہُوں۔
(3)خُداوند نے شَیطان سے کہا کیا تُو نے میرے بندہ ایُّوب کے حال پر بھی کُچھ غَور کیا؟ کیونکہ زمِین پر اُس کی طرح کامِل اور راستباز آدمی جو خُدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا ہو کوئی نہیں اور گو تُو نے مُجھ کو اُبھاراکہ بے سبب اُسے ہلاک کرُوں تَو بھی وہ اپنی راستی پرقائِم ہے۔
(4)شَیطان نے خُداوند کو جواب دِیا کہ کھال کے بدلے کھال بلکہ اِنسان اپنا سارا مال اپنی جان کے لِئے دے ڈالے گا۔
(5)اب فقط اپنا ہاتھ بڑھا کر اُس کی ہڈّی اور اُس کے گوشت کو چُھو دے تو وہ تیرے مُنہ پر تیری تکفِیر کرے گا۔
(6)خُداوند نے شَیطان سے کہا کہ دیکھ وہ تیرے اِختیارمیں ہے ۔ فقط اُس کی جان محفُوظ رہے۔
(7)تب شَیطان خُداوند کے سامنے سے چلا گیا اور ایُّوب کو تلوے سے چاند تک درد ناک پھوڑوں سے دُکھ دِیا۔
(8)اور وہ اپنے کو کُھجانے کے لِئے ایک ٹِھیکرا لے کر راکھ پر بَیٹھ گیا۔
(9)تب اُس کی بِیوی اُس سے کہنے لگی کہ کیا تُو اب بھی اپنی راستی پرقائِم رہے گا؟ خُدا کی تکفِیر کر اورمَر جا۔
(10)پر اُس نے اُس سے کہا کہ تُو نادان عَورتوں کی سی باتیں کرتی ہے ۔ کیا ہم خُدا کے ہاتھ سے سُکھ پائیں اوردُکھ نہ پائیں؟ اِن سب باتوں میں ایُّوب نے اپنے لبوں سے خطا نہ کی۔
اسلئے سورہ ال – انبیاء حضرت ایوب کو مصیبت میں پکارتے ہوئے بیان کرتا ہے – اور سورہ صا د سمجھاتا ہے کہ شریر (شیطان) نے انکو ایضا پہنچایا –
انکے دکھ تکلیف میں ساتھ دینے کے لئے انکے تین دوست تھے جنہوں نے انکی ملاقات کی کہ انھیں ایسے وقت میں تسلّی دے سکے –
(11)جب ایُّوب کے تِین دوستوں تیمانی الِیفز اور سُوخی بِلدد اور نعماتی ضُوفر نے اُس ساری آفت کا حال جواُس پر آئی تھی سُنا تو وہ اپنی اپنی جگہ سے چلے اوراُنہوں نے آپس میں عہد کِیا کہ جا کر اُس کے ساتھ روئیں اور اُسے تسلّی دیں۔
2:11-13 ایوب
(12)اور جب اُنہوں نے دُور سے نِگاہ کی اور اُسے نہ پہچاناتو وہ چِلاّ چِلاّ کر رونے لگے اور ہر ایک نے اپنا پَیراہن چاک کِیا اور اپنے سر کے اُوپر آسمان کی طرف دُھول اُڑائی۔
(13)اور وہ سات دِن اور سات رات اُس کے ساتھ زمِین پر بَیٹھے رہے اور کِسی نے اُس سے ایک بات نہ کہی کیونکہ اُنہوں نے دیکھا کہ اُس کا غم بُہت بڑا ہے۔
ایوب کی کتاب خداوند اور شیطان کے بیچ ہوئی بات چیت کا بیان کرتی ہے کہ اس طرح کی بدنصیبی کا واقعہ حضرت ایوب کے ساتھ کیوں گزرا – ان کی بات چیت کی ایک ابواب میں جاکر ایک سرسری تصویر پیش کرتی ہے –مختصر طور سے ،انکے دوست لوگ انسے کہتے ہیں کہ اسطرح کی بدقسمت مصیبتیں برے لوگوں پر ہی آتے ہیں –اسکا مطلب یہ ہوا کہ شاید حضرت ایوب نے پوشیدہ طور سے گناہ کیا ہو – اگر وہ ان گناہوں کا اقرار کرتے تو شاید انکو انکے گناہوں کی معافی حاصل ہو سکتی تھی – مگر حضرت ایوب لگاتار انھیں جواب دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح کی ختاکاری کرنے سے بے-جرم ہیں – وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکتے تھے کہ کیوں بد قسمتی نے انکو چاروں طرف گھیر لیا تھا –
ہم انکی لمبی بات چیت کے ہر ایک حصے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے ، مگر انکے سوالات کے بیچ حضرت ایوب وہی بیان کرتے ہیں جنکو وہ یقینی طور سے جانتے ہیں –
(25)لیکن مَیں جانتا ہُوں کہ میرا مخلصی دینے والا زِندہ ہے۔ اور آخِرکار وہ زمِین پر کھڑا ہو گا۔
19:25-27ایوب
(26)اور اپنی کھال کے اِس طرح برباد ہو جانے کے بعد بھی مَیں اپنے اِس جِسم میں سے خُدا کو دیکُھوں گا۔
(27)جِسے مَیں خُود دیکُھوں گا اور میری ہی آنکھیں دیکھیں گی نہ کہ بیگانہ کی۔ میرے گُردے میرے اندر فنا ہو گئے ہیں۔
حا لانکہ حضرت ایوب نہیں سمجھ سکتے تھے کہ کیوں اس طرح کا المیہ (شدید واقعہ) انپر آ گزرا مگر وہ اتنا ضرور جانتے تھے کہ ایک ‘چھڑانے والا’ تھا جو زمیں پر آنے والا تھا – وہ چھڑانے والا ایسا شخص ہوگا انکی گناہوں کی پوری قیمت چکایگا – چھڑانے والے کو حضرت ایوب ‘میرا چھڑانے والا کہتے ہیں – سو وہ جانتے تھے کہ انکا چھڑانے والا انکے لئے آرہے تھے – انھیں یہ یقین تھا کہ اسطرح سے انکے کھال کے برباد ہوجانے پر بھی (مرنے کے بعد) وہ خدا کو اسی کھال کے ساتھ دیکھیںگے –
مطلب یہ کہ حضرت ایوب قیامت کے دن کی راہ دیکھ رہے تھے – بلکہ انھیں یہ بھی یقین تھا کہ قیمت کے دن پوشیدہ طور سے وہ خدا کا منہ دیکھیںگے – کیونکہ انکا چھڑانے والا اج بھی زندہ ہے اور اسنے انکو چھڑایا ہے –
سورہ ال – معارج (سورہ 70 – آنے والی سیڑھیوں کا راستہ) یہ سورہ بھی قیامت کے دن ایک چھڑانے والے کی بات کرتا ہے – مگر سورہ ال – معارج ایک بیوقوف آدمی کا ذکر کرتا ہے جو مضطربانہ طور سے اس دن کسی بھی چھٹکارا دینے والے کی راہ دیکھتا ہے –
کوئی کسی دوست کو نہ پوچھے گا – گنہگار تو آرزو کریگا کہ کاش اس دن کے عذاب کے بدلے اسکے بیٹوں اور اسکی بیوی اور اسکے بھائی اور اسکے کنبے کو جسمیں وہ رہتا تھا اور جتنے آدمی زمیں پر ہیں سب کو لے لے اور اسکو چھٹکارا دے دے –
70:11-14 سورہ ال معارج
سورہ ال معارج میں یہ بے وقوف آدمی بغیر کامیابی سے کسی کی بھی راہ دیکھتا ہے کہ اسکو چھڑائے – وہ ایک ایسے چھڑانے والے کی راہ دیکھ رہا ہے جو اسکو ‘اس دن کے خمیازے سے’ اسکو چھڑائے – (انصاف کے دن کے خمیازے سے) – اسکے بچے ، بیوی ، بھائی ، بہن ، اور زمیں پر جو بھی اسکے خاندان کے ہینن میں سے کوئی بھی اسکو چھڑا نہیں سکتے کیونکہ ان سبکو اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑیگی ، انکے لئے اپنے خود کا خمیازہ بھرنا پڑیگا –انکے خود کے لئے کسی چھڑانے والے کی سخت ضرورت ہے –
حضرت ایوب ایک راستباز شخص تھے – اسکے باوجود بھی وہ جانتے تھے کہ انھیں ایک چھڑانے والے کی ضرورت ہے –انکے تمام دکھ مصیبت ہونے کے باوجود بھی انھیں یقین تھا کہ انکے پاس ایک چھڑانے والا تھا – جبکہ تورات شریف نے اعلان کر دیا تھا کہ کسی بھی گناہ کا خمیازہ (مزدوری) موت ہے – چھڑانے والے کو اسکی اپنی زندگی کا خمیازہ دینا پڑیگا – حضرت ایوب جانتے تھے کہ انکا چھڑانے والا انکے لئے زمانے کے آخر میں زمین پر کھڑا ہوگا – حضرت ایوب کا چھڑانے والا کون تھا ؟ وہ ایک ہی شخص ہو سکتا ہے جو کبھی مرا تھا مگر موت سے زندہ ہوا تاکہ زمانے کے کے آخر میں پھر سے کھڑا ہو سکے – وہ ہیں حضرت عیسیٰ ال مسیح – وہی ایک ہیں جو ممکن طور سے خمیازے کی قیمت (موت) کو ادا کر سکتے تھے – مگر وہ زمانے کے آخر میں زمیں پر کھڑے ہونگے –
اگر حضرت ایوب جیسے راستباز شخص کے خود کے لئے ایک چھڑانے والے کی سخت ضرورت تھی تو آپ کے اور میرے لئے ایک چھڑانے والے کی کیسی سخت ضرورت ہونی چاہئے تاکہ ہمارے گناہوں کا خمیازہ ادا کر سکے ؟ وہ شخص جو اچھی خوبیاں رکھنے والا ہو، جسے سورہ ال بیّنه اور سورہ ال عصر نبیوں کی فہرست میں شامل کرے ایک چھڑانے والے کی ضرورت تھی تو ہماری کیا اوقات کہ ہمیں ضرورت نا پڑے ؟ سورہ ال معارج میں ذکر کئے ہوئے بیوقوف شخص کی طرح نہ ہوں جو آخری دن تک انتظار کرتا ہے کہ مضطربانہ طور سے ایسے شخص کو پاۓ جو اسکے گناہوں کا خمیازہ ادا کر سکے – آج اور ابھی سمجھ لیں کہ کسطرح سے نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح آپ کو چھڑا سکتے ہیں جس طرح نبی حضرت ایوب نے پہلے سے ہی دیکھ لیا تھا –
کتاب کے آخر میں نبی حضرت ایوب کا آمنا سامنا یہاں خداوند کے ساتھ ہوتا ہے اور اسکی خوش نصیبی یھاں بحال ہوتی ہے –