Skip to content

یہ میں ہوں — کینڈا کے خوبصورت مشک می

میں آپ کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں کہ کسطرح انجیل کی خوش خبری میرے لئے با معنی ثابت ہوئی –مین  سوچتا ہوں کہ انٹرنیٹ کے اس اطلاع کی جگہ میں تحریروں کو بہتر طریقے سے سمجھنے کا موقع عطا کریگا –

(بنیادی معلومات —– میں کینڈا میں رہتا ہوں – میں شادی شدہ ہوں اور ہمارا ایک بیٹا ہے –میں نے کینڈا کے ٹورانٹو یونیورسٹی  میں تعلیم پائی – اس یونیورسٹی  کا نام نیو برنس وک اینڈ اکاڈ یا یو نیور سٹی ہے – میرے پاس یونیورسٹی سے حاصل شدہ انجینیرنگ کے تجربے کی ڈگریاں اور اس پیشے سے متعلق دیگر ڈگریاں بھی موجود ہیں جو وسیع طور سے کمپیوٹر اور سافٹ ویر ریاضیاتی ماڈلنگ سے تعلّق رکھتا ہے -)

ایک حق یافتہ جوانی میں مضطرب پایا جانا                         

میری پرورش ایک اعلی متوسط طبقے کے پیشہ ور خاندان میں ہوئی – میں پیدائشی سویڈن کا ہوں جب میں جوان تھا تبھی میرے خاندان نےکینڈا کے لئے تبدیل وطن کرلیا تھا اور پھر غیر ملکوں کا دورہ کرتے  ہوئے بڑا ہوا – جنمیں الجیریا ، جرمنی اور کیمرون شامل ہیں – اور آخرکار یونیورسٹی کی تعلیم پانے کی غرض سے واپس کینڈا آنا پڑا –دیگر لوگوں کی طرح ہی میں بھی  ایک تجربے کی زندگی جینا چاہتا تھا – (ابھی بھی چاہتا ہوں) —-ایسی زندگی جو دوسروں کیلئے قناعت کے ساتھ ہو ، اطمینان کا باعث ہو ، با مقصد اور با معنی ہو – اسکے ساتھ ہی دوسرے لوگوں سے جڑا ہوا خاص طور سے میرے خاندان اور دیگر دوستوں کے ساتھ –

ان مختلف معاشرہ میں  رہتے ہوئے جو مختلف مذھب سے تعلّق رکھتے ہیں –اس کے علاوہ جو دنیاوی لوگ ہیں — اور اس لئے کہ میں مطالعہ کا آرزومند ہوں – جو آخرکار حقیقت ہے میں فرق فرق نظرئے ظاہر کرتا تھا – یہی باتیں تھیں جو مجھکو بھر پور زندگی کی طرف لے گیئیں – جو میں نے مشاہدہ کیا وہ یہ تھا کہ حالانکہ میں ( اور دیگر مغربی لوگوں میں سے اکثر لوگ) بے نظیر دولت ، تکنیکی علم اور ان نشانوں کے حصول کے لئے چناؤ کی آزادی ، بظاھر مہمل بات جو انھیں نظر آتی تھیں وہ بہت مثتثنیٰ تھے-میں نے غور کیا کی خاندانی رشتے پہلے کی پیڑھی کے بہ نسبت بہت زیادہ قابل استعمال اور عارضی ہیں – میں نے سن رکھا تھا کہ اگر ہم اس سے زیادہ حاصل کر سکتے تھے تو اونچائی  پر پہنچ جاتے –مگر کتنا زیادہ ؟ اور کس چیز میں زیادہ ؟ کیا مالی حالات کی طرف ؟ کیا سائنس کے علم میں ؟ کیا تکنیکی علم کی طرف ؟ کیا عیش و عشرت کی طرف ؟ کیا رتبہ میں ؟

ایک جوان شخص ہونے کے ناتے ان سوالات نے دھنلے خیالات والے میرے مضطرب ہونے کو بڑھاوا دیا – جبکہ میرے والد صاحب الجیریا میں ایک مشورہ دینے والے جلاوطن انجینئر تھے – میں دیگر امیر طبقوں کے حق یافتہ اور تعلیم یافتہ مغربی جوانوں کے تعلقات میں رہا کرتا تھا – مگر وہاں میری زندگی کچھ نکلنے کے راستوں کے ساتھ بہت سیدھی سادھی نظر آتی تھی جس سے کہ تھوڑا بہت ہمارا دل بھل جاتا تھا – تو پھر میں اور میرے دوست ایسے دنوں کی خواہش رکھتے تھے جن میں ہم اپنے ملک کو واپس لوٹ جایں ، آزادی کے ساتھ  ٹی وی ، اچھے کھانوں ، اچھے موقعوں اور آزاد بھری مغربی زندگی کا لطف اٹھائیں —- تبھی ہم آسودہ ہو سکتے تھے – تاہم جب میں کناڈا اور یوروپ کا دورہ کرتا تھا تب بھی کچھ دنوں بعد وہی مضطرب میری زندگی میں واپس آجا تا تھا اور میری حالت پہلے سے زیادہ خراب ہو جاتی تھی – میں نے یہ بھی غور کیا کہ جن لوگوں کے درمیان میں رہتا تھا وہ پورے وقت میرے ساتھ رہتے تھے – جو کچھ انکے پاس تھا (وہ کسی بھی معیار سے زیادہ تھا)اور ہمیشہ ہی زیادہ کی ضرورت ہوتی تھی –

مجھے جو ایک حقیقی آسودہ زندگی کی تلاش تھی میں نے سوچا کہ میں اسے پا لونگا جب میرے پاس ایک مشہور خوبصورت دوست تھی – اور تھوڑی دیر کے لئے ایسا لگتا تھا کہ کوئی چیز میرے اندر ہے – مگرکچھ مہینوں بعد وہی مضطرب واپس لوٹ رہا تھا – میں نے سوچا تھا کہ کسی اچھے سکول میں داخلہ لینے سے مین اسے پا لو نگا — پھر میرا دھیان گاڑی کی لائیسنس پر گیا کہ اگر یہ ملجاہے تو میری یہ جستسجو ختم ہو جائیگی – مگر میں ناکام رہا – اب میں تھوڑا بڑا ہوگیا – میں نے لوگوں کو نوکری پیشے سے علاہدہ ہونے کی بات سنی (ریٹائرمنٹ) جس سے آسودہ ہونے کا ٹکٹ ملجاتا ہے –  کیا ایسا ہے ؟ کیا ہم اپنی زندگیوں کو ایک کے بعد دوسری چیز کا تعا قب کرنے میں گزارتے ہیں جو ہمارے اطراف کسی کونے میں ہے اور وہ ہمیں دیا جاتا ہے –اور پھر ہماری زندگیاں یونہی ختم جاتی ہیں ! یہ بات بے نتیجہ اور بے حد فضول نظر آتا ہے !

ان حالات  کے د وران میں الله (خدا) پر ایمان لے آیا – میرے مغربی ہونے کے ساتھ ساتھ میرے آس پاس دنیاوی لوگ اور یہاں تک کہ ملحد بھی پاۓ جاتے تھے (یعنی وہ جنکو خدا پر یقین نہیں ہوتا ہے) – بہت زیادہ یقین کے ساتھ ایسا نظر آتا تھا کہ یہ پوری دنیا اور جو کچھ اس میں  پایا جاتا ہے موقع سے ظہور میں آیا ہے – مگر اس مذہب کے ایمان کے باوجود بھی جیسے جیسے میں اپنے مضطرب سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہا تھا مجھے اندرونی ھل چل کا تجربہ ہوتا چلا گیا – جسطرح میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ کرنے ، بولنے یا چیزوں کی بابت سوچنا یہ باتیں مجھے شرمندگی سے بھر کر اپنے آپ میں ختم ہو جاتی تھی – وہ ایسا تھا جیسے میری ایک پوشیدہ زندگی جس کی بابت دوسرے لوگ نہیں جانتے تھے – مگر یہ زندگی حسد سے بھری ہوئی تھی – ( میں وہ چاہتا تھا جو دوسروں کے پاس تھا) ، غیر وفاداری (میں وقت کے ہوتے سچائی کو چھپاتا تھا) لڑای جھگڑا کرتا (میں آسانی سے کسی بھی بحث میں جو میرے خاندان میں ہوتی تھی شامل ہو جاتا تھا) – جنسی بد اخلاقی اکثر جو میں ٹی وی میں دیکھتا تھا —- اس سے پہلے میں یہ چیز انٹرنیٹ میں دیکھتا تھا — (یا پڑھنے کے زریعے یا دماغ میں تصوّر کرنے کے زریعے) – اور خود غرضی – میں جانتا تھا کہ حالانکہ دیگر بہت سے لوگ زندگی کے میرے اس حصّے کو نہیں دیکھتے تھے مگر الله دیکھتا تھا – یہ بات مجھے غیر مطمئن کر دیتی تھی – د ر اصل کیئ  ایک صورت حال ایسے تھے جو میرےلئے آسان تھا کہ میں اللہ کے وجود پر ایمان نہ رکھوں – کیونکہ بعد میں اس شرمساری کےگناہ کو اس کے سامنے اعتراف کرنے کے لئے نظر انداز کر سکوں – زبور شریف میں حضرت داود کے الفاظ کی طرح میں بھی سوال کر رہا تھا کہ "جوان اپنی روش کو کسطرح پاک رکھے ” ؟ (زبور 9 :9 11) – جتنا زیادہ میں مذہبی بننے کی کوشش کر رہا تھا ، پابندیاں جیسے دعا کرنا ، خود انکاری یا مذھبی میٹنگوں میں جانا – یہ ساری باتیں حقیقت میں اس کشمکش کو دور نہیں کرتے تھے –

حضرت سلیمان کی حکمت                             

اس دوران اس مضطرب کے سبب سے جو میں نے اپنے میں اور اپنے آس پاس دیکھا اور پایا وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد کے بیٹے حضرت سلیمان جوقدیم اسرئیل کا بادشاہ تھا اور اپنی حکمت کے لئے مشہور تھا اس کی تحریروں نے میرے اندر ایک گہرا اثر چھوڑا اور اس نے کئی ایک کتابیں لکھیں ، جنہیںزبور شریف کا ایک حصّہ بھی مانا جاتا ہے جہاں اسنے اسی مضطرب کا بیان کیا جن کا میں تجربہ کر رہا تھا –اس نے لکھا :

                                                                                                          یں نے اپنے دل سے کہا آ میں تجھ کو خُوشی میں آزماوں گا۔ سو عشرت کر لے۔ لو یہ بھی بُطلان ہے۔
میں نے ہنسی کو دیوانہ کہا اور شادمانی کے بارے میں کہا اس سے کیا حاصل؟۔
میں نے دل میں سوچا کہ جسم کو مے نوشی سے کیوں کر تازہ کُروں اور اپنے دل کو حکمت کی طرف مائل رکھوں اور کیوں کر حماقت کو پکڑے رہُوں جب تک معلوم کُروں کہ بنی آدم کی بہُبودی کس بات میں ہے کہ وہ آسمان کے نیچے عُمر بھر یہی کیا کریں۔
میں نے بڑے بڑے کام کئے ۔ میں نے اپنے لئے عمارتیں بنائیں اور میں نے اپنے لے تاکستان لگائے۔
میں نے اپنے لے باغیچے اور باغ تیار کئے اور اُن میں ہر قسم کے میوہ دار درخت لگائے۔
میں نے اپنے لے تالاب بناے کہ اُن میں سے باغ کے درختوں کا ذخیرہ سینچوں۔
میں نے غلامُوں اوت لُونڈیوں کو خریدا اور نوکر چا کر میرے گھر میں پیدا ہُوئے اور جتنے مجھ سے پہلے یُروشلیم میں تھے اُن سے کہیں زیادہ گائے بُیل اور بھیڑیوں کا مالک تھا۔
میں نے سونااور چاندی اور بادشاہوں اور صوبوں کا خاص خزانہ اپنے لے جمع کیا۔ میں نے گانے والوں اور گانے والیوں کو رکھا اور بنی آدم کے اسباب عیش یعنی لونڈیوں کو اپنے لے کثرت سے فراہم کیا۔
سو میں بزرگ ہُوا اور اُن سبھوں سے جو مجھ سے پہلے یروشلیم میں تھے زیادہ بڑھ گیا۔ میری حکمت بھی مجھ سے قائم رہی۔
10 اور سب کچھ جو میری آنکھیں چاہتی تھیں میں نے اُن سے باز نہ رکھا ۔ میں نے اپنے دل کو کسی طرح کی خُوشی سے نہ روکا کیونکہ میرا دل میری ساری محنت سے شادمان ہوا اور میری ساری محنت سے میرا بخرہ یہی تھا۔

2:1-10 واعظ

دھن دولت ، شھرت ،علم ، تجویزیں ، تدبیریں ، بیویاں ، عیش و عشرت ، بادشاہی ، رتبہ وغیرہ حضرت سلیمان کے پاس یہ سب کچھ موجود تھا — اس کے زمانے کے لوگوں میں یا اج کے ہمارے زمانے میں اسکے جیسا کوئی اور شخص نہیں تھا –ایسے میں آپ ذرا سوچیں کیا وہ سب لوگوں سے زیادہ آسودہ رہا ہوگا ؟ مگر اس نے اپنی تحریر کو ان الفاظ سے انجام کو پہنچایا :

                                                                                  11 پھر میں نے ان سب کاموں پر جو میرے ہاتھوں نے کئے تھے اور اُس مشقت پر جو میں نے کام کرنے میں کھینچی تھی نظر کی اور دیکھا کہ سب بُطلان اور ہوا کی چران ہے اور دُنیا میں کُچھ فائدہ نہیں ۔
12 اور میں حکمت اور دیوانگی اور حماقت کے دیکھنے پر متوجہ ہوا۔ کیونکہ وہ شخص جو بادشاہ کے بعد آئے گا کیا کرے گا؟ وہی جو چلا آتا ہے۔
13 اور میں نے دیکھا کہ جیسی روشنی کو تاریکی پر فضیلت ہے ویسی ہی حکمت حماقت سے افضل ہے ۔
14 دانشور اپنی آنکھیں اپنے سر میں رکھتا ہے پر احمق اندھیرے میں چلتا ہے۔ تو بھی میں جان گیا کہ ایک ہی حادثہ اُن سب پر گُزرتا ہے۔
15 تب میں نے دل میں کہا جیسا احمق پر حادثہ ہوتا ہے ویسا ہی مجھ پر بھی ہو گا۔ پھر میں کیوں زیادہ دانشور ہُوا؟ سو میں نے دل میں کہا کہ یہ بھی بُطلان ہے۔
16 کیونکہ نہ دانشوار اور نہ احمق کی یادگار ابد تک رہے گی۔ اس لے کہ آنے والے دنوں میں سب کچھ فراموش ہو چُلے گا اور دانشور کیوں کر احمق کی طرح مرتا ہے!۔
17 پس میں زندگی سے بیزار ہُوا کیونکہ جو کام دُنیا میں کیا جاتا ہے مُجھے بُہت بُرا معلوم ہُوا کیونکہ سب بُطلان اور ہوا کی چران ہے۔
18 بلکہ میں اپنی ساری محنت سے جو دُنیا میں کی تھی بیزار ہُوا کیونکہ ضُرور ہے کہ میں اُسے اُس آدمی کے لے جو میرے بعد آئے گا چھوڑ جاوں ۔
19 اور کون جانتا ہے کہ وہ دانشور ہو گا یا احمق؟ بہر حال وہ میری ساری محنت کے کام پر جو میں نے کیا اور جس میں میں نے دُنیا میں اپنی حکمت ظاہر کی ضابط ہو گا۔ یہ بھی بُطلان ہے۔
20 تب میں نے پھر ا کہ اپنے دل کو اُس سارے کام سے جو میں نے دُنیا میں کیا تھا نا اُمید کُروں ۔
21 کیونکہ ایسا شخص بھی ہے جس کےکام حکمت اور دانائی اور کامیابی کے ساتھ ہیں لیکن وہ اُن کو دوسرے آدمی کے لے جس نے اُن میں کچھ محنت نہیں کی اُس کی میراث کے لے چھوڑ جائے گا۔ یہ بھی بُطلان اور بلای عظیم ہے۔
22 کیونکہ آدمی کو اُس کی ساری مشقت اور جانفشانی سے جو اُس نے دُنیا میں کی کیا حاصل ہے؟۔
23 کیونکہ اُس کے لے عُمر بھر غم ہے اور اُس کی محنت ماتم ہے بلکہ اُس کا دل رات کو بھی آرام نہیں پاتا۔ یہ بھی بُطلان ہے۔

2:11-23واعظ

موت ، مذہب ،اور بے انصافی —- زندگی کی ثابت قدمی "سورج کے نیچے

ان تمام معاملات کے ساتھ ساتھ میں زندگی کے ایک دوسرے پہلو سے پریشان ہو رہا تھا یہ با ت حضرت سلیمان کو بھی پریشان کر رہی تھی – 19 کیونکہ جو کچھ بنی آدم پر گُزرتا ہے۔ ایک ہی حادثہ دونوں پر گُزرتا ہے جس طرح یہ مرتا ہے اُسی طرح وہ مرتا ہے۔ ہاں سب میں ایک ہی سانس ہے اور انسان کو حیوان پر کچھ فوقیت نہیں کیونکہ سب بُطلان ہے۔
20 سب کے سب ایک ہی جگہ جاتے ہیں۔ سب کے سب خاک سے ہیں اور سب کے سب پھر خاک سے جاملتے ہیں۔
21 کون جانتا ہے کہ انسان کی رُوح اُوپر چڑھتی اور حیوان کی روح زمین کی طرف نیچے کو جاتی ہے؟۔

3:19-21واعظ

                                                                                      سب کُچھ سب پر یکساں گُزرتا ہے۔ صادق اور شریر پر۔ نیکوکار اور پاک اور ناپاک پر ۔ اُس پر جو قُربانی گُزرانتا ہے اور اُس پر جو قربانی نہیں گُزرانتا ایک ہی حادثہ واقع ہوتا ہے۔ جیسا نیکوکار ہے ویسا ہی گُہنگار ہے ۔جیسا وہ جو قسم کھاتا ہے ویسا ہی وہ جو قسم سے ڈرتا ہے۔
سب چیزوں میں جو دُنیا میں ہوتی ہیں ایک زبوُنی یہ ہے کہ ایک ہی حادثہ سب گُزرتا ہے۔ وہاں بنی آدم کا دل بھی شرارت سے بھرا ہے اور جب تک وہ جیتے ہیں حماقت اُن کے دل میں رہتی ہے اور اس کے بعد مُردوں میں شامل ہوتے ہیں۔
چونکہ جو زندوں کے ساتھ ہے اُس کے لے اُمید ہے اس لے زندہ کُتا مُردہ شیر سے بہتر ہے۔
کیونکہ زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے پر مُردے کُچھ نہیں جانتے اور اُن کے لے اور کُچھ اجر نہیں کیونکہ اُن کی یاد جاتی رہی ہے۔

9:2-5واعظ

میں ایک مذہبی خاندان میں پلا بڑھا تھا اور الجیریا میں رہتا تھا – الجیریا جو کہ خود ہی ایک مذہبی ملک ہے – تو کیا مذہب ہی میرے مسلے کا حل ہو سکتا تھا ؟ مگرمیں نے یہ پایا کہ مذہب اکثر ہی بیرونی یا اوپری چیز ہے جسکو باہری رسم پرستی کے لئے برتاؤ کیا جاتا ہے – مگر یہ ہمارے دلوں کو نہیں چھوتا – مذہبی پابندیاں جیسے دعا ئیں ، چرچ جانا (یا مسجد میں جانا) کیا یہ باتیں خدا کے ساتھ قابل ہونے کے لئے کمایا جانا کافی ہے ؟ مذہبی طور سے نیک چلن کی زندگی جینا انسان کو بہت زیادہ تھکا دیتا ہے –کیا کسی کے پاس ایسی طاقت ہے کہ لگاتار گناہ سے باز رہے ؟اس کے باوجود بھی کتنا کچھ مجھے گناہ سے باز رہنا ضروری ہو گیا تھا –مذہبی پابندیاں تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں –

اور حقیقت میں خدا ہی ان سب کا زممہ دار ہے تو وہ اس طرح کا کام کیوں کر رہا ہے ؟ میں نے خود سے پوچھا –کچھ باتوں کو ہم اپنے آس پاس آسانی سے دیکھ سکتے ہیں جیسے بے انصافی ، بگاڑ ظلم و ستم وغیرہ یہ دنیا میں ابھی بھی ہورہے ہیں –آپ دیکھیں کہ یہ واقعیات موجودہ دور کے نہیں بلکہ آج سے 3000 سال پہلے بھی حضرت سلیمان کے زمانے میں موجود تھیں – اس نےکہا :

                                                                              16 پھر میں نے دُنیا میں دیکھا کہ عدالت گاہ میں ظُلم ہے اور صداقت کے مکان میں شرارت ہےب میں نے ہر کر اُس تمام ظُلم پر جو دُنیا میں ہوتا ہے نظر کی اور مُظلوموں کے آنسووں کو دیکھا اور اُن کو تسلی دہنے والا کوئی نہ تھا اور اُن پر ظلم کرنے والے زبردست تھے پر اُن کو تسلی دینے والا کوئی نہ تھا۔

پس میں نے مُردوں کو جو آگے مر چُکے تھے ان زندوں سے جو اب جیتے ہیں زیادہ مُبارک جانا۔

بلکہ دونوں سے نیک بخت وہ ہے جو اب تک ہُوا ہی نہیں۔ جا نے وہ بُرائی جو دُنیا میں ہوتی ہے نہیں دیکھی۔۔3:16,4:1-3(واعظ)

جو حضرت سلیمان کے زمانے میں صاف تھا وہی ہمارے زمانے میں بھی صاف ہے ؛ یعنی زندگی سورج کے نیچے ظلم و ستم ،بے انصافی اور برائی کے زریعے علامت دی جاتی ہے – ایسا کیوں ہے ؟ کیا اس کا کوئی حل ہے ؟ اور پھر زندگی یونہی موت بن کر ختم ہو جاتی ہے – موت سب چیزوں کا خاتمہ ہے – اور مطلق طور سے ہماری زندگیوں پر بادشاہی کرتا ہے – جسطرح حضرت سلیمان نے لکھا :موت دنیا کے تمام لوگوں کی قسمت ہے – چاہے وہ نیک شخص ہو یا برا شخص ، مذہب پرست ہو غیر مذہب پرست سب کے لئے موت ایک حقیقت ہے – مگر ایک بات ہے جو موت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے وہ ہے ابدیت کا سوال – مرنے کے بعد کیا میں مقام جنّت میں داخل ہونگا یا (بہت زیادہ خطرے کی دہشت کے ساتھ ) ابدی عدالت کے لئے — جہنّم میں جاؤنگا ؟

غیر وقت کی تصنیف میں تلاش کرنا                      

یہ زندگی میں ہمیشہ رہنے والی آسودگی کو حاصل کرنے کے معاملے ہیں – مذہبی پابندیوں کے ساتھ  بوجھ ، ظلم و ستم ، بگاڑ اور بے انصافی نے تمام انسانی تاریخ کو وبا کے شکنجے میں کس رکھا ہے –اس کے ساتھ ہی موت کا اتمام اور موت کے بعد کیا ہونے والا ہے اس کا خوف و تصوّر میرے اندر بے چینی کا عالم پیدا کر رہا تھا – میرے سینئر ہائی اسکول کے سال میں ہمارے کلاس کو گھر کا کام سونپا گیا تھا جس میں 100 کتابیں جن میں (نظمیں  ، گا نے ، اور چھوٹی کہانیاں) پائی جائیں انھیں لیکر کلاس ٹیچر کے سپرد کرنا تھا –اس کام کو ہم نے پسند بھی کیا تھا – یہ سب سے زیادہ انعامی مشق تھا جسے میں نے کبھی سکول میں انجام دیا تھا – بہت ساری میری جمع کی ہوئی کتابیں اوپر دئے ہوئے مضامین  سے تعلّق رکھتے تھے – اسکے علاوہ خدا نے مجھے ہونے دیا کہ دیگر کئ لوگوں سے ملاقات کروں اور انکی سنوں جنہوں نے میری ہی طرح مسلہ جات کے ساتھ کشمکش کئے تھے ان سے ملاقات کے ساتھ ہی میں نے سب طرح کے کیلنڈر ، تعلیمی گوشہ گمنامی ، زندگی کے طور طریقے ،فلسفے ، ان مضامین پر دیگر تصنیفین جمع کئے –

میں نے ان کتابوں کے ساتھ انجیل شریف میں پاۓ جانے والی حضرت عیسی (یسوع) کی کہی ہوئی باتوں کو بھی جوڑ دیا –سو دنیاوی کتابوں کے ساتھ ساتھ میرے پاس حضرت عیسی کی تعلیمات کی کتابیں بھی موجود تھیں – جیسے یوحننا کی کتاب کا یہ حوالہ —- "میں اس لئے آیا کہ وہ زندگی پا ئیں اور کثرت کی زندگی پائیں

یوحننا 10:10

ان سب کے بعد مجھ پر ایک نی صبح نمودارہوئی – ایک نئے سویرے کا آغاز ہوا –شاید یہ نیا سویرا ان تمام معا ملات کا(سوالات) کے لئے جواب تھا جو میرے ساتھ سلیمان اور دیگر مصننفین پوچھ رہے تھے – بھر حال انجیل شریف (جو یھاں تک کہ  مذہبی دنیا میں کم  یا زیادہ بے معنی رہا ہو) جس کے لفظی معنی ‘خوش خبری ‘ ہے تو کیا انجیل شریف حقیقت میں خوشخبری تھا ؟ کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا تھا ؟ کیا وہ بگڑا ہوا تھا ؟ دوسرے معنوں میں کیا اس میں بگاڑ پایا گیا تھا ؟ یہ سارے سوالات میرے اندر پیدا ہونے لگے تھے –

ایک نا بھولنے والی ملاقات                                            

اس سال کے بعد میرے کچھ دوست اور میں سوئٹزرلینڈ میں سکنگ کے لئے سیر  سپاٹے میں گئے ہوئے تھے – ( سکنگ ان کھیلوں میں سے ایک ہے جو پلاسٹک کے آٹھ فٹ لمبے اور چار انچ موٹے تختے کے سہارے برفیلی  پھاڑ یا میدان میں پھسلا جاتا ہے) سکنگ کے ایک بڑ ے کھیل کو کھیلنے کے بعد جوانی کی طاقت کا جوش بھرتے ہوئے ہم شام کے وقت کلب میں جاتے تھے – ان بزموں میں ہم ناچتے ، گاتے ، رنگ رلیاں مناتے ،جوان لڑکیوں سے ملتے اور دیر رات تک ہنسی مذاق کرتےتھے –

سوئٹزر لینڈ میں سکنگ کھیل کے تفریح گاہ اونچی اونچی برفیلی پہاڑوں میں ہوتا ہے مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ دیر رات میں ایک ناچ رنگ کے حال سے باہر نکلتے وقت سوچ رہا تھا کہ اپنے کمرے میں جاکر سو جاؤں – مگر میں وہاں جانے سے رک گیا آسمان کی طرف دیکھکر ستاروں کی طرف تاکنے لگ گیا – اسلئے کہ وہ رات بہت کالی تھی –ستارے صاف نظر آ رہے تھے – (میں ایک پہاڑی کی اونچائی  پر تھا جہاں انسانوں کی بنائی ہوئی تھوڑی روشنی کی آلودگی تھی) آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے تمام ستاروں کے جا ہ  و جلال اور شان و شوکت کو دیکھ سکتا تھا –دیکھتے دیکھتے میری سانس پھولنے لگی اور جو میں کر سکتا تھا وہ یہ تھا کہ وہاں کھڑے ہوکر ان ستاروں کی عظمت کو احترام کے ساتھ تکتا رہوں –اس وقت زبور شریف کی ایک آیت میرے دماغ میں آئ جہاں لکھا ہے "آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے ” 

سمان خُدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُس کی دستکاری دکھاتی ہے۔

19:1 زبور

بہت زیادہ کالی رات میں جاہ و جلال سے بھر پور ستاروں کی دنیا تاکتے ہوئے میں ایک چھوٹے پیمانے پر الله کے جلال اور اسکی قدرت کو دیکھ سکتا تھا اور میں اس رات کے خاموشی کے لمحے میں جانتا تھا کہ میرے پاس ایک چناؤ یا ایک انتخاب ہے – میں خود کو اس کے سپرد کر سکتا تھا یا پھر اپنی انھیں برے راستے پر چلنا جاری رکھ سکتا تھا جسمیں تھوڑی بہت خدا پرستی تھی مگر اسکی قوّت کا زندگی بھر انکار کرنا تھا – یہ سوچ کر میں اپنے گھٹنوں پر گر پڑا اور اس کالی رات کی خاموشی میں سجدے میں سر جھکا دیا  -اور اس اثر کی سپردگی کی یاد میں نے الله سے اس طرح دعا کی ،”تو ہی میرا خداوند ہے – میں اپنی زندگی تیرے سپرد کرتا ہوں – بہت سی باتیں ہیں جو میں نہیں سمجھتا ہوں – تو مجھے اپنی سیدھی سچی راہ میں میری رہنمائی کر "- میں سجدے میں سر رکھے ہوے اور اسی سپردگی کی حالت میں میں نے اپنی زندگی کے تمام گناہوں کا اعتر اف کیا اور معافی اور رہنمائی کے لئے درخواست کی –اس دوران میرے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا –صرف میں تھا اور الله تھا جس کے پیچھے ستاروں دنیا تھی –اس وقت رات کے دو بجے تھے اور یہ واقعیہ سویتزرلینڈ کے ایک تفریح گاہ کے باہر ہوئی یہ ایک ایسی ملاقات تھی جس کو میں اپنی زندگی بھر نہیں بھول نہیں سکتا –یہاں تک کہ بھولنے کی کوشش میں وہ الفاظ مختصر طور پر دوبارہ یاد آ جاتے –

میرے اپنے سفر کے دوران وہ ایک ضروری قد م تھا – میں اللہ کی مرضی میں ہوکرجب میں اس مقام پر تھا اور مجھے کچھ جواب چاہئے تھے میں نے خود کو اس کے سپرد کیا – کچھ وقفے کے بعد جوابات آ نے شروع  ہو گئے تھے – جب میں نے تلاشا اور جو کچھ میں نےسیکھا تھا اس کے مطابق میں نے خود کو الله کے ہاتھ سپرد کیا –اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ ویب سائٹ یعنی انٹرنیٹ کے اس جگہ پر موجود ہے جنہیں میں نے اس رات کے بعد سے سیکھنا شرو ع کیا تھا – یہ ایک بہت ہی حقیقی بات ہے کہ جب کوئی اسطرح کا سفر شرو ع کرتا ہے تو وہ پوری طرح سے کہیں بھی نہیں پہنچتا ، مگر میں نے جو بات سیکھی اور تجربہ کیا کہ انجیل شریف ان معاملا ت کا جواب دیتی ہے جسے میں نے اپنی زندگی میں پوچھا تھا – اسکا خاص مقصد یہ ہے کہ یہ ان باتوں سے مخاطب کراۓ —- ایک بھر پور زندگی کا ، موت کا ، ابدیت کا ،آزادی کا اور عملی طور سے متعلق ہونے کا جیسے خاندانی رشتوں میں ہماری محبّت ، ندامت ، گناہ سے پچھتاوا ، خوف اور معافی وغیرہ – انجیل شریف کا دعوی یہ ہے کہ یہ ایک بنیاد ہے جس پر ہم اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کر سکتے ہیں – یہ ممکن ہے کہ کوئی کوئی شخص ان جوابات کو پسند نہیں کرتا جو انجیل دیتی ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں پوری طرح سے سمجھ جاۓ – مگر جب تک یہ پیغام الله کی جانب سے عیسی ال مسیح کی شخصیت پر نہیں آیا ہو اس کی اطلاع کئے بغیر رکے رہنا سراسر بے وقوفی ہے – اگر آپ انجیل پر غور کرنے کے لئے وقت لیتے ہیں تو آپ اسی بات کو پاسکتے ہیں –