سورہ ال – حج (سورہ 22 –جاترا (زیارت)) ہم سے کہتا ہے کہ فرق فرق رسم و رواج فرق فرق اوقات پر دے گئے تھے –مگر یہ ایک خاص گوشت کی قربانی نہیں ہے – بلکہ جو ہمارے باطن وہی سب سے خاص ہے –
اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اللہ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیں، سو تمہارا معبود ایک (ہی) معبود ہے پس تم اسی کے فرمانبردار بن جاؤ، اور (اے حبیب!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیںo
ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، اس طرح (اللہ نے) انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح) اللہ کی تکبیر کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیںo
22:34,37سورہ ال –حج
حاجی ہونے کے ناتے پانی رسم و رواج کا ایک اہم حصّہ ہے –اسی لئے حاجی لوگ آ ب زمزم کے کو ییں سے ضرور پیتے ہیں – مگر سورہ ال ملک (سورہ – 67 فرما روائی ) ہم سے ہم سے ایک خاص سوال پوچھتا ہے –
فرما دیجئے: اگر تمہارا پانی زمین میں بہت نیچے اتر جائے (یعنی خشک ہو جائے) تو کون ہے جو تمہیں (زمین پر) بہتا ہوا پانی لا دےo
سورہ ال ملک 67:30
نبی حضرت عیسی ال مسیح نے حج کے دوران ایک عا لم شر ع سے پوچھا جو حضرت موسیٰ کی شریعت کا پابند تھا –اسکو ہم حج کے آئینہ کےزریعے ایک جھلک دیکھیںگے –
حج ہر سال ادا کیا جاتا ہے۔ مسلمان ہر سال مکہ شریف میں حج کی عبادات اور رسمات ادا کرنے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کو 3500 سو سال پہلے شریعت ملی اور اس میں یہودیوں کوحکم کیا گیا تھا کہ وہ ہر سال یروشلیم (بیت المقدس) جاکر حج کا فریضہ ادا کریں۔ اس حج کو "عید خیام یا خیموں کی عید” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس حج کے ادا کرنے کا حکم حضرت موسیٰ کی شریعت سے ملتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے حج کی تعلیم اور آج کے حج میں بہت ساری مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، دونوں سال کے ایک خاص ہفتے میں منائے جاتے ہیں۔ دونوں میں قربانی کی جاتی ہے، دونوں میں خاص پانی (آب زم زم) سے غسل کیا جاتا ہے، دونوں میں گھر سے باہر جھوپنٹریوں میں سوتے ہیں، دونوں میں سات بار ایک پاک مقام کے گرد چکر لگایا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں عید خیام یہودیوں کے لیے حج تھا۔ لیکن جب بیت المقدس کو 70 عیسوی میں رومی فوج نے شہید کردیا تھا۔ اس لیے اب بیت المقدس موجود نہ ہونے کی وجہ سے حج تھوڑا مختلف طریقے سے ادا کیا جاتا ہے۔
انجیل شریف میں درج ہے کہ حضرت عیسیٰ المسیح نے کس طرح "عید خیام” کے وقت حج کو ادا کیا۔ اس حوالہ میں وضاحت کے ساتھ اس واقع کو درج کیا گیا ہے۔
حضرت عیسیٰ المسیح عید خیام پر بیت المقدس جاتے ہیں یوحنا باب 7
‘اِن باتوں کے بعد یِسُو ع گلِیل میں پِھرتا رہا کیونکہ یہُودیہ میں پِھرنا نہ چاہتا تھا ۔ اِس لِئے کہ یہُودی اُس کے قتل کی کوشِش میں تھے۔ اور یہُودِیوں کی عِیدِ خیام نزدِیک تھی۔ پس اُس کے بھائِیوں نے اُس سے کہا یہاں سے روانہ ہو کر یہُودیہ کو چلا جا تاکہ جو کام تُو کرتا ہے اُنہیں تیرے شاگِرد بھی دیکھیں۔ کیونکہ اَیسا کوئی نہیں جو مشہُور ہونا چاہے اور چُھپ کر کام کرے ۔ اگر تُو یہ کام کرتا ہے تو اپنے آپ کو دُنیا پر ظاہِر کر۔ کیونکہ اُس کے بھائی بھی اُس پر اِیمان نہ لائے تھے۔ ‘ یُوحنّا 7: 1-5
حضرت عیسیٰ المسیح کے بھائی اُن سے طنز و مذاق سے پیش آتے ہیں۔ کیونکہ وہ اُن پر ایمان نہیں لائے تھے۔ لیکن بعد میں اُن کی زندگیوں میں ایک ایسی تبدیلی آئی اور وہ حضرت عیسیٰ المسیح کے پیروکار ہوگے۔ اُن کے نام یہ ہیں۔ حضرت یقعوب اور حضرت یہودہ اِنہوں نے بعد میں خطوط لکھے جو انجیل شریف کا حصہ ہیں۔
‘پس یِسُو ع نے اُن سے کہا کہ میرا تو ابھی وقت نہیں آیا مگر تُمہارے لِئے سب وقت ہیں۔ دُنیا تُم سے عداوت نہیں رکھ سکتی لیکن مُجھ سے رکھتی ہے کیونکہ مَیں اُس پر گواہی دیتا ہُوں کہ اُس کے کام بُرے ہیں۔ تُم عِید میں جاؤ ۔ مَیں ابھی اِس عِید میں نہیں جاتا کیونکہ ابھی تک میرا وقت پُورا نہیں ہُؤا۔ یہ باتیں اُن سے کہہ کر وہ گلِیل ہی میں رہا۔ یُوحنّا 7:6-9
یِسُوع عِید ِ خیام کے موقع پر
‘لیکن جب اُس کے بھائی عِید میں چلے گئے اُس وقت وہ بھی گیا ۔ ظاہِرا ً نہیں بلکہ گویا پوشِیدہ۔ پس یہُودی اُسے عِید میں یہ کہہ کر ڈُھونڈنے لگے کہ وہ کہاں ہے؟۔ اور لوگوں میں اُس کی بابت چُپکے چُپکے بُہت سی گُفتگُوہُوئی ۔ بعض کہتے تھے وہ نیک ہے اور بعض کہتے تھے نہیں بلکہ وہ لوگوں کو گُمراہ کرتا ہے۔ تَو بھی یہُودِیوں کے ڈر سے کوئی شخص اُس کی بابت صاف صاف نہ کہتا تھا۔ اور جب عِید کے آدھے دِن گُزر گئے تو یِسُو ع ہَیکل میں جا کر تعلِیم دینے لگا۔ پس یہُودِیوں نے تعجُّب کر کے کہا کہ اِس کو بغَیر پڑھے کیوں کر عِلم آ گیا؟۔ یِسُوع نے جواب میں اُن سے کہا کہ میری تعلِیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔ اگر کوئی اُس کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اِس تعلِیم کی بابت جان جائے گا کہ خُدا کی طرف سے ہے یا مَیں اپنی طرف سے کہتا ہُوں۔ جو اپنی طرف سے کُچھ کہتا ہے وہ اپنی عِزّت چاہتا ہے لیکن جو اپنے بھیجنے والے کی عِزّت چاہتا ہے وہ سچّا ہے اور اُس میں ناراستی نہیں۔ کیا مُوسیٰ نے تُمہیں شرِیعت نہیں دی؟ تَو بھی تُم میں سے شرِیعت پر کوئی عمل نہیں کرتا ۔ تُم کیوں میرے قتل کی کوشِش میں ہو؟۔ لوگوں نے جواب دِیا تُجھ میں تو بدرُوح ہے ۔ کَون تیرے قتل کی کوشِش میں ہے؟۔ یِسُو ع نے جواب میں اُن سے کہا مَیں نے ایک کام کِیا اور تُم سب تعجُّب کرتے ہو۔ اِس سبب سے مُوسیٰ نے تُمہیں خَتنہ کا حُکم دِیا ہے(حالانکہ وہ مُوسیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ باپ دادا سے چلا آیا ہے)اور تُم سَبت کے دِن آدمی کا خَتنہ کرتے ہو۔ جب سَبت کو آدمی کا خَتنہ کِیا جاتا تاکہ مُوسیٰ کی شرِیعت کا حُکم نہ ٹُوٹے تو کیا مُجھ سے اِس لِئے ناراض ہو کہ مَیں نے سَبت کے دِن ایک آدمی کو بِالکُل تندرُست کر دِیا؟۔ ظاہِر کے مَوافِق فَیصلہ نہ کرو بلکہ اِنصاف سے فَیصلہ کرو۔ ‘ یُوحنّا 7:10-24
کیا وہ مسِیح مَوعُود ہے؟
‘تب بعض یروشلِیمی کہنے لگے کیا یہ وُہی نہیں جِس کے قتل کی کوشِش ہو رہی ہے؟۔ لیکن دیکھو یہ صاف صاف کہتا ہے اور وہ اِس سے کُچھ نہیں کہتے ۔ کیا ہو سکتا ہے کہ سرداروں نے سچ جان لِیا کہ مسِیح یِہی ہے؟۔ اِس کو تو ہم جانتے ہیں کہ کہاں کا ہے مگر مسِیح جب آئے گا تو کوئی نہ جانے گا کہ وہ کہاں کا ہے۔ ‘ یُوحنّا 7:25-27
اُس وقت یہودیوں کے درمیان یہ بحث تھی۔ کیا حضرت عیسیٰ ہی مسیح ہیں یا نہیں۔ یہودی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مسیح جس جگہ سے آئے گا اُس کو وہ نہیں جانتے ہونگے۔ چونکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت عیسیٰ المیسح کہا سے آرہے ہیں۔ اس لیے اُنہوں نے یہ سوچا کہ وہ مسیح نہیں ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ اُنہوں نے یہ عقیدہ کہا سے گڑلیا کہ جہاں سے مسیح آئے گے۔ اُس جگہ کا اُنہوں معلوم نہیں ہوگا۔ کیا اُنہوں نے اس کو تورات شریف یا پھر انبیاءاکرام کے صحیفوں میں سے جانتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی بات تورات شریف میں لکھی ہوئی ہی نہ تھی۔ !!انبیاء اکرام نے اپنے صحیفوں میں بڑھے واضح انداز میں فرما دیا تھا کہ حضرت مسیح کہاں سے آئے گے۔ حضرت میکاہ نے 700 ق م میں زبور شریف میں یہ بیان کرددیا تھا۔ کہ
‘لیکن اَے بَیت لحم اِفراتاہ اگرچہ تُو یہُودا ہ کے ہزاروں میں شامِل ہونے کے لِئے چھوٹا ہے تَو بھی تُجھ میں سے ایک شخص نِکلے گا اور میرے حضُور اِسرا ئیل کا حاکِم ہو گا اور اُس کا مصدر زمانۂِ سابِق ہاں قدِیمُ الایّام سے ہے۔ ‘ مِیکاہ 5:2
اس نبوت (اس مضمون کے بارے میں مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں) میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حاکم (مسیح) بیت لحم میں سے آئے گا۔ ہم نے حضرت عیسیٰ المیسح کی پیدائش کے واقع میں سے جانتے ہیں کہ آپ بیت لحم میں پیدا ہوئے۔ جس طرح 700 سو پہلے نبی نے نبوت کردی تھی۔ جس طرح کی دلیل لوگ دے رہے تھے۔ یہ ایک سادہ سی مذہبی روایت تھی جس کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔ کہ جہاں سے حضرت عیسیٰ المیسح آئے گے۔ اُس جگہ کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوگا۔ اُنہوں نے اس بات میں غلطی کی اور اس بات کو نہ جانا جس کے بارے میں انبیاء اکرام نے الکتاب میں پہلے سے لکھ دیا تھا۔ لیکن اُنہوں نے گلی کوچے کی روایت جو عام لوگوں میں پائی جاتی تھی۔ اُس پر یقین کیا۔ یہ خیال اُنہوں نے عام مذہبی راہنماوں سے حاصل کیا تھا جس کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔ ہمیں اس کے بارے میں احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم اس طرح کی غلطی نہ کرلیں۔
حوالہ جاری ہے ۔ ۔ ۔
‘پس یِسُوع نے ہَیکل میں تعلِیم دیتے وقت پُکار کر کہا کہ تُم مُجھے بھی جانتے ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ مَیں کہاں کا ہُوں اور مَیں آپ سے نہیں آیا مگر جِس نے مُجھے بھیجا ہے وہ سچّا ہے ۔ اُس کو تُم نہیں جانتے۔ مَیں اُسے جانتا ہُوں اِس لِئے کہ مَیں اُس کی طرف سے ہُوں اور اُسی نے مُجھے بھیجا ہے۔ پس وہ اُسے پکڑنے کی کوشِش کرنے لگے لیکن اِس لِئے کہ اُس کاوقت ابھی نہ آیا تھا کِسی نے اُس پر ہاتھ نہ ڈالا۔ مگر بِھیڑ میں سے بُہتیرے اُس پر اِیمان لائے اور کہنے لگے کہ مسِیح جب آئے گا تو کیا اِن سے زِیادہ مُعجِزے دِکھائے گا جو اِس نے دِکھائے؟۔ فرِیسِیوں نے لوگوں کو سُنا کہ اُس کی بابت چُپکے چُپکے یہ گُفتگُو کرتے ہیں ۔ پس سردار کاہِنوں اور فرِیسِیوں نے اُسے پکڑنے کو پیادے بھیجے۔ یِسُو ع نے کہا مَیں اَور تھوڑے دِنوں تک تُمہارے پاس ہُوں ۔ پِھر اپنے بھیجنے والے کے پاس چلا جاؤں گا۔ تُم مُجھے ڈُھونڈو گے مگر نہ پاؤ گے اور جہاں مَیں ہُوں تُم نہیں آ سکتے۔ یہُودِیوں نے آپس میں کہا یہ کہاں جائے گا کہ ہم اِسے نہ پائیں گے؟ کیا اُن کے پاس جائے گا جو یُونانِیوں میں جابجا رہتے ہیں اور یُونانِیوں کو تعلِیم دے گا؟۔ یہ کیا بات ہے جو اُس نے کہی کہ تُم مُجھے ڈُھونڈو گے مگر نہ پاؤ گے اور جہاں مَیں ہُوں تُم نہیں آ سکتے؟۔ پِھر عِید کے آخِری دِن جو خاص دِن ہے یِسُو ع کھڑا ہُؤا اور پُکار کر کہا اگر کوئی پِیاسا ہو تو میرے پاس آ کر پِئے۔ جو مُجھ پر اِیمان لائے گا اُس کے اندر سے جَیساکہ کِتابِ مُقدّس میں آیا ہے زِندگی کے پانی کی ندِیاں جاری ہوں گی۔ اُس نے یہ بات اُس رُوح کی بابت کہی جِسے وہ پانے کو تھے جو اُس پر اِیمان لائے کیونکہ رُوح اب تک نازِل نہ ہُؤا تھا اِس لِئے کہ یِسُو ع ابھی اپنے جلال کو نہ پُہنچا تھا۔ ‘ یُوحنّا 7: 28-39
حج والے دن یہودی یروشلیم کے جنوبی سمت میں سے ایک خاص چشمے سے پانی بھرتے اور شہر میں پانی دروازے میں سے داخل ہوکر پانی کو بیت المقدس میں قربان گاہ کے پاس لے جاتے۔ اس دوران جب وہ پانی کی اس مذہبی رسم کو ادا کررہے تھے۔ تو حضرت عیسیٰ المسیح نے بلند آواز میں یہ تعلیم دینا شروع کی کہ وہ "زندگی کا پانی” ہیں۔ حضرت عیسیٰ المسیح جب یہ بیان کررہے تھے تو دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے۔ تمہارے دلوں میں گناہ سے رہائی پانے کی جو پیاس ہے۔ جس کے بارے میں انبیاءاکرام نے لکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس روح کا بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ جو کوئی حضرت عیسیٰ المیسح پر ایمان لائے گا۔ وہ اُس کی پیاس کو بجائیں گے اور ساتھ میں وہ شخص گناہ کی غلامی سے نجات پائے گا۔
‘پس بِھیڑ میں سے بعض نے یہ باتیں سُن کر کہا بیشک یِہی وہ نبی ہے۔ اَوروں نے کہا یہ مسِیح ہے اور بعض نے کہا کیوں؟ کیا مسِیح گلِیل سے آئے گا؟۔ کیا کِتابِ مُقدّس میں یہ نہیں آیا کہ مسِیح داؤُد کی نسل اور بَیت لحم کے گاؤں سے آئے گا جہاں کا داؤُد تھا؟۔ پس لوگوں میں اُس کے سبب سے اِختلاف ہُؤا۔ اور اُن میں سے بعض اُس کو پکڑنا چاہتے تھے مگر کِسی نے اُس پر ہاتھ نہ ڈالا۔ ‘ یُوحنّا 7: 40-44
اُن وقتوں میں جس طرح آج کل ہے، کہ لوگ حضرت عیسیٰ المیسح کے بارے میں مختلف خیالات رکھتے تھے۔ جس طرح ہم نے اُوپر پڑھا ہے کہ نبی ؑ نے پہلے سے حضرت عیسیٰ المسیح کی پیدائش کے بارے میں نبوت کردی تھی۔ کہ آپ کی پیدائش بیت لحم میں ہوگی۔ لیکن کیا یہ سوال کیا جارہا تھا کہ مسیح گلیل سے نہیں آیا؟ حضرت یسعیاہ نے 700 سال ق م یہ نبوت کردی تھی۔ کہ
‘لیکن اندوہگِین کی تِیرگی جاتی رہے گی ۔ اُس نے قدِیم زمانہ میں زبُولُو ن اور نفتا لی کے عِلاقوں کو ذلِیل کِیا پر آخِری زمانہ میں قَوموں کے گلِیل میں دریا کی سِمت یَرد ن کے پار بزُرگی دے گا۔ جو لوگ تارِیکی میں چلتے تھے اُنہوں نے بڑی روشنی دیکھی ۔ جو مَوت کے سایہ کے مُلک میں رہتے تھے اُن پرنُور چمکا۔ ‘ یسعیاہ 9:1-2
چنانچہ انبیاءاکرام نے پہلے سے نبوت کردی تھی۔ کہ مسیح اپنی تعلیم کا آغاز گلیل سے شروع کریں گے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں پر سے حضرت عیسیٰ المسیح نے اپنی تعلیم کا اغاز کیا اور آپ کے زیادہ تر معجزۃ اس شہر میں ہوتے تھے۔ پھر بھی لوگ غلط فہمی کا شکار تھے۔ کیونکہ اُنہوں نے انبیاءاکرام کے صحفیوں کا احتیاط کے ساتھ مطالعہ نہیں کیا تھا۔ اور اس کی بجائے وہ اس بات کا یقین کر رہے تھے۔ جو اُنہوں نے اپنے عام مولوی صاحب سے سیکھا تھا۔
مُقتدِر و مُعتبریہُودیوں میں بے اِعتقادی
‘پس پیادے سردار کاہِنوں اور فرِیسِیوں کے پاس آئے اور اُنہوں نے اُن سے کہا تُم اُسے کیوں نہ لائے؟۔ پِیادوں نے جواب دِیا کہ اِنسان نے کبھی اَیسا کلام نہیں کِیا۔ فرِیسِیوں نے اُنہیں جواب دِیا کیا تُم بھی گُمراہ ہو گئے؟۔ بھلا سرداروں یا فرِیسِیوں میں سے بھی کوئی اُس پر اِیمان لایا؟۔ مگر یہ عام لوگ جو شرِیعت سے واقِف نہیں لَعنتی ہیں۔ نِیکُد ِیمُس نے جو پہلے اُس کے پاس آیا تھا اور اُنہی میں سے تھا اُن سے کہا۔ کیا ہماری شرِیعت کِسی شخص کو مُجرِم ٹھہراتی ہے جب تک پہلے اُس کی سُن کر جان نہ لے کہ وہ کیا کرتا ہے؟۔ اُنہوں نے اُس کے جواب میں کہا کیا تُو بھی گلِیل کا ہے؟ تلاش کر اور دیکھ کہ گلِیل میں سے کوئی نبی برپا نہیں ہونے کا۔ ‘ یُوحنّا 7: 45-52
یہاں ہر ہم دیکھ سکتے ہیں۔ کہ شریعت کے قانون کے ماہر بالکل غلط نکلے۔ جب کہ حضرت یسعیاہ نے اس بات کی نبوت کر دی تھی کی روشنی کی کرن گلیل کے شہر میں سے آئے گی۔
اس مضمون میں سے ہم دو سبق سیکھ سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہمیں اپنی مذہبی سرگرمیوں کو بڑی حوصلہ افزائی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے کہ لیکن اس کے ساتھ ہمیں اس کے بارے میں علم بھی ہونا چاہئے۔ جیسا کہ ہم حج کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔ اُس میں جاننے کی ضرورت ہے کیا سچ ہے اور کیا سچ نہیں۔
‘کیونکہ مَیں اُن کا گواہ ہُوں کہ وہ خُدا کے بارے میں غَیرت تو رکھتے ہیں مگر سَمجھ کے ساتھ نہیں۔ ‘ رُومِیوں 10:2
ہمیں اس بات کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم انبیاءاکرام نے کیا لکھا ہے تاکہ ہم بہتر طور پر معلومات رکھ سکیں۔
دوسرا، ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ المیسح یہاں پر ایک پیش کش کرتے ہیں۔ اُنہوں نے حج پر فرمایا۔
‘پِھر عِید کے آخِری دِن جو خاص دِن ہے یِسُو ع کھڑا ہُؤا اور پُکار کر کہا اگر کوئی پِیاسا ہو تو میرے پاس آ کر پِئے۔ جو مُجھ پر اِیمان لائے گا اُس کے اندر سے جَیساکہ کِتابِ مُقدّس میں آیا ہے زِندگی کے پانی کی ندِیاں جاری ہوں گی۔ ‘ یُوحنّا 7:37-38
آپ نے یہ پیش کش ہرکسی کو پیش کی (یہ صرف یہودیوں، مسیحیوں یا مسلمانوں وغیرہ کے لیے نہیں) بلکہ یہ سب لوگوں کے لیے تھی۔ جو کوئی پیاسا ہے۔ کیا آپ پیاسے ہیں؟ (یہاں پر دیکھیں نبیؑ کا اس سے کیا مراد تھا)۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ زم زم کے چشمہ سے پانی پیا جائے۔ اس کے ساتھ کیوں نہ ہم حضرت المسیح سے پانی پیں جو ہماریے باطن کی پیاس کو ختم کردے گا؟