Skip to content

ایک خاص دن : ال حمزہ اور ال مسیح

سورہ ال – حمزہ (سورہ 104 بہتان باندھنے والا) انصاف کے دن کی بابت ہمکو اس طرح سے خبردار کرتا ہے :

 ہر طعنہ دینے  والے چغلخور کی خرابی ہے جو مال کو جمع کرتا ہے  اور گن گن کر رکھتا ہے  وہ سمجھتا ہے کہ اسکا مال اسے ہمیشہ زندہ باقی رکھےگا – ہرگز نہیں – وہ تو ضرور حطمہ میں ڈالا جاےگا اور تمکو کیا معلوم کہ حطمہ کیا ہے ؟ وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو ( تلوے سے لگی تو دل تک چڑھ جاۓگی )-    

104:1-6 ال –حمزہ

سورہ ال حمزہ کہتا ہے کہ الله کی جانب سے غضب کی آگ ہمارا انتظار کر رہا ہے – خاص طور سے اگر ہم نے لالچ کیا ہو اور دوسروں کی بابت بری بات کی ہو –مگر ان کے لئے جو لگاتار ان سب کے لئے خیراتی ہے جو اس سے مدد مانگتے ہیں ، انکے لئے جنہوں نے کبھی امیر آدمی کی دولت کا لالچ نہ کیا ہو ، وہ جو دوسروں کی بابت کبھی بھی بری باتیں نا کی ہو ، وہ جو پیسے کے معاملے میں کبھی بحث نہ کیا ہو – شاید ایسے لوگوں کے لئے امید ہے کہ انکی جان کا کچھ نقصان نہیں  ہوگا اور اس دن وہ خدا کے غضب کے گھیرے میں نہیں ہونگے –

مگر ہم باقیوں کا کیا ہوگا ؟                                                                                                                        

نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح خاص طور سے انکے لئے آ ے جو آنے والے اس خدا کے غضب سے خوفزدہ ہیں جو انپر ایک نا ایک دن نازل ہوکر رہیگا جس طرح انہوں نے انجیل شریف میں کہا ہے –

(13)اور آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سِوا اُس کے جو آسمان سے اُترا یعنی اِبنِ آدم جو آسمان میں ہے۔
(14)اور جِس طرح مُوسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرُور ہے کہ اِبنِ آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے۔
(15)تاکہ جو کوئی اِیمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زِندگی پائے۔
(16)کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی مُحبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے۔
(17)کیونکہ خُدا نے بیٹے کو دُنیا میں اِس لِئے نہیں بھیجا کہ دُنیا پر سزا کا حُکم کرے بلکہ اِس لِئے کہ دُنیا اُس کے وسِیلہ سے نجات پائے۔
(18)جو اُس پر اِیمان لاتا ہے اُس پر سزا کا حُکم نہیں ہوتا ۔ جو اُس پر اِیمان نہیں لاتا اُس پر سزا کا حُکم ہو چُکا ۔ اِس لِئے کہ وہ خُدا کے اِکلَوتے بیٹے کے نام پر اِیمان نہیں لایا۔
(19)اور سزا کے حُکم کا سبب یہ ہے کہ نُور دُنیا میں آیا ہے اور آدمِیوں نے تارِیکی کو نُور سے زِیادہ پسند کِیا ۔ اِس لِئے کہ اُن کے کام بُرے تھے۔
(20)کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نُور سے دُشمنی رکھتا ہے اور نُور کے پاس نہیں آتا ۔ اَیسا نہ ہو کہ اُس کے کاموں پر ملامت کی جائے۔
(21)مگر جو سچّائی پر عمل کرتا ہے وہ نُور کے پاس آتا ہے تاکہ اُس کے کام ظاہِر ہوں کہ وہ خُدا میں کِئے گئے ہیں۔

3:13-21یوحننا

نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح نے اپنے بڑے اختیار کا دعوی کیا – یھاں تک کہ انہوں نے کہا کہ وہ آسمان سے اترے ہیں- ایک سامری عورت کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے کچھ اور باتیں سمجھائیں جسکی تفصیل یھاں پر ہے – 

(10)یِسُو ع نے جواب میں اُس سے کہا اگر تُو خُدا کی بخشِش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ وہ کَون ہے جو تُجھ سے کہتا ہے مُجھے پانی پِلا تو تُو اُس سے مانگتی اوروہ تُجھے زِندگی کا پانی دیتا۔
(11)عَورت نے اُس سے کہا اَے خُداوند تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کُچھ ہے نہیں اور کُنواں گہرا ہے ۔ پِھر وہ زِندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا؟۔
(12)کیا تُو ہمارے باپ یعقُوب سے بڑا ہے جِس نے ہم کو یہ کُنواں دِیا اور خُود اُس نے اور اُس کے بیٹوں نے اور اُس کے مویشی نے اُس میں سے پِیا؟۔
(13)یِسُو ع نے جواب میں اُس سے کہا جو کوئی اِس پانی میں سے پِیتا ہے وہ پِھر پیاسا ہو گا۔
(14)مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پِئے گا جو مَیں اُسے دُوں گا وہ ابد تک پِیاسا نہ ہو گا بلکہ جو پانی مَیں اُسے دُوں گاوہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زِندگی کے لِئے جاری رہے گا۔

4:10-14 یوحننا

ان دعووں کے لئے ان کا اختیار تورات کے نبی حضرت موسیٰ کے زریعے ثابت ہوا کہ کسطرح انہوں نے کاینات کی چھ دنوں کی تخلیق سے انکے اختیارات کی بابت نبوت کی – پھر زبور اور آنے والے نبیوں نے اسکے آنے کی بابت تفصیل سے نبوت کی جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انکا آسمان سے آنا الله کے ایک منصوبے کے تحت تھا – مگر نبی کے کہنے کا کیا مطلب تھا کہ "اونچے پر چڑھایا جانا ضروری ہے ” تاکہ جو اسپر ایمان لاے ہمیشہ کی زندگی اسکی ہو جاۓ – اسکو یہاں پر سمجھایا گیا ہے –  

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے