Skip to content

حضرت عیسیٰ المسیح ایک چونکا دینے والے دشمن کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہیں

سورہ ات- توبہ (سورہ 9 – گناہ کا اقرار، تقدیر الہی) بحث پیدا کرتا ہے جبکہ وہ جہاد کی یا جد و جہد کی بحث کرتا ہے – یہ آیت جسمانی جنگ کی رہنمائی عطا کرتی ہے سو اسکی بابت فرق فرق علما کے فرق فرق ترجمے پاے  جاتے ہیں- سورہ ات – توبہ کی آیت سے جو بحث ہے وہ یہاں پیش کی گیئ ہے :

تم ہلکے اور گراں بار (ہر حال میں) نکل کھڑے ہو اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم (حقیقت) آشنا ہوo

اگر مالِ (غنیمت) قریب الحصول ہوتا اور (جہاد کا) سفر متوسط و آسان تو وہ (منافقین) یقیناً آپ کے پیچھے چل پڑتے لیکن (وہ) پُرمشقّت مسافت انہیں بہت دور دکھائی دی، اور (اب) وہ عنقریب اللہ کی قَسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں استطاعت ہوتی تو ضرور تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوتے، وہ (ان جھوٹی باتوں سے) اپنے آپ کو (مزید) ہلاکت میں ڈال رہے ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ وہ واقعی جھوٹے ہیںo

9:41-42سورہ ات توبہ

سورہ ات – توبہ سورہ 42 میں ملامت کو دیکھتے ہیں کیونکہ اگر جنگ کا سفر آسان ہوتا تووہ اسکا پیچھا کرتے مگرجو جادو جہد کی خواہش رکھتے ہیں انپر مصیبت پڑنے پر غائب  ہو جاتے ہیں – سسلے وار آیت ان کمزور دل والے مریدونکے بہانوں اور بحث کا بیان کرتا ہے – سوره ات- توبہ پھر یہ یادداشت پیش کرتا ہے –

آپ فرما دیں: کیا تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں (یعنی فتح اور شہادت) میں سے ایک ہی کا انتظار کر رہے ہو (کہ ہم شہید ہوتے ہیں یا غازی بن کر لوٹتے ہیں)؟ اور ہم تمہارے حق میں (تمہاری منافقت کے باعث) اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ اپنی بارگاہ سے تمہیں (خصوصی) عذاب پہنچاتا ہے یا ہمارے ہاتھوں سے۔ سو تم (بھی) انتظار کرو ہم (بھی) تمہارے ساتھ منتظر ہیں (کہ کس کا انتظار نتیجہ خیز ہے)o

9:52سورہ ات- توبہ

تنبیہ یا ملامت آتے ہیں اسلئے کہ عام طور سے دو ممکن نتیجے ہیں : موت (شہیدی موت) یا پھر فتح – پر اگر جد وجہد بڑیہو تو ٹیب کیا ہوگا دونوں کا نتیجہ شہیدی موت اور فتح ہے – نبی حضرت عیسی ال مسیح کے ساتھ یہی کشمکش تھاج   انہوں نے یروشلیم کے لمبے سفر میں سامنا کیا – اسکے پہنچ کے ساتھ نیا چاند یا ہلال کا وقت طے شدہ تھا تاکی نبوتوں کی تکمیل ہو جو صدیوں سال پہلے زبور کے نبیوں نے کی تھی –   

سورہ ال اسرا (سورہ 17 – رات کا سفر) ایک جانا پہچانا سورہ ہے جسمیں نبی حضرت محمّد کے رات کے سفر کو بیان کرتا ہے ، جب وہ رات کے وقت برّاق (اڑنے والا گھوڑا) میں  سوار ہوکر اکیلے ہی مکّہ پہنچے تھے –

وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo

17:1سورہ ال اسرا

نبی حضرت عیسی ال مسیح بھی با لکل اسی جگہ پر رات کے سفر کی طرح جا رہے تھے – مگر حضرت عیسی ال مسیح کا مقصد فرق تھا – بجے اسکے کہ  خو د انپر کوئی معجزہ ظاہر کرتا وہ معجزے انجام دینے گئے – رات کے بجاے  وہ سرعام دن میں علانیہ طور پر آ ے – اور بجاۓ برّاق کے وہ گدھی پر سوار ہو کر آ ے – حالانکہ ہم سوچ نہیں سکتے کہ براق پر سوار ہوکر آنا کتنا متا ثر لگا ہوگا – مگر مقدّس ہیکل تک حضرت عیسی کا گدھی پر سوار ہوکراسکا   یروشلیم میں پہنچنا لوگوں کے لئے ایک صاف نشانی تھی – ہم سمجھاتے ہیں کس طرح :

http://https://youtu.be/NVoPpTW3eJY

حضرت عیسیٰ المسیح نے لعزر کو مردوں میں سے زندہ کرکےاپنے مشن کو لوگوں کے درمیان اُجاگر کیا اور اب وہ یروشلیم (اقدوس) کی راہ پر تھے۔ آپ کواسی راستے سے وہاں پہنچنا تھا۔ اِس کے بارے سینکڑوں سال پہلے نبوت کردی گئی تھی۔ انجیل مقدس میں یوں بیان آیا ہے۔

‘دُوسرے دِن بُہت سے لوگوں نے جو عِید میں آئے تھے یہ سُن کر کہ یِسُوع یروشلِیم میں آتا ہے۔ کھجُور کی ڈالِیاں لِیں اور اُس کے اِستِقبال کو نِکل کر پُکارنے لگے کہ

!ہوشعنا

مُبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام پر آتا ہے اور اِسرا ئیل کا بادشاہ ہے۔

جب یِسُو ع کو گدھے کا بچّہ مِلا تو اُس پر سوار ہُؤا جَیسا کہ لِکھا ہے کہ۔

اَے صِیُّو ن کی بیٹی مت ڈر ۔ دیکھ تیرا بادشاہ گدھے کے بچّہ پر سوار ہُؤا آتا ہے۔

اُس کے شاگِرد پہلے تو یہ باتیں نہ سمجھے لیکن جب یِسُو ع اپنے جلال کو پُہنچا تو اُن کو یاد آیا کہ یہ باتیں اُس کے حق میں لِکھی ہُوئی تِھیں اور لوگوں نے اُس کے ساتھ یہ سلُوک کِیا تھا۔

پس اُن لوگوں نے گواہی دی جو اُس وقت اُس کے ساتھ تھے جب اُس نے لعزر کو قبر سے باہر بُلایا اور مُردوں میں سے جِلایا تھا۔ اِسی سبب سے لوگ اُس کے اِستِقبال کو نِکلے کہ اُنہوں نے سُنا تھا کہ اُس نے یہ مُعجِزہ دِکھایا ہے۔ پس فرِیسِیوں نے آپس میں کہا سوچو تو! تُم سے کُچھ نہیں بَن پڑتا ۔ دیکھو جہان اُسکا پیرَو ہو چلا۔ ‘ یُوحنّا 12:12-19

حضرت عیسیٰ المسیح کی یروشلیم میں آمد ــ بمطابق حضرت داود

اس بات کو ہم حضرت داود کے ساتھ شروع کرتے ہیں۔ قدیم ایام میں یہودی بادشاہ ہر سال اپنے گھوڑوں کو پہاڑ پر لے جاتے اور لوگوں کے ساتھ ایک جلوس کی شکل میں یروشلیم میں داخل ہوتے۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے اس روایت کو دوبارہ مرتب کیا اور آپ کجھوروں کے اتوار والے دن یروشلیم میں ایک گدھے پر بیٹھ کر داخل ہوئے۔ لوگوں نے زبور شریف میں سے وہی زبور گایا جو پہلے لوگ بادشاہ حضرت داود کے گاتے تھے۔

‘آہ! اَے خُداوند! بچا لے۔

آہ! اَے خُداوند! خُوش حالی بخش۔

مُبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام سے آتا ہے۔

ہم نے تُم کو خُداوند کے گھر سے دُعا دی ہے۔ یہوواہ ہی خُدا ہے اور اُسی نے ہم کو نُور بخشا ہے۔ قُربانی کو مذبح کے سِینگوں سے رسِّیوں سے باندھو۔ ‘ زبُور 118: 25-27

لوگوں نے یہ قدیم زبورجو بادشاہوں کے لیے لکھا گیا تھا اس لیے گایا کیونکہ وہ جانتے تھے۔ کہ حضرت عیسیٰ المیسح  نے لعزر کو زندہ کیا ہے اور وہ آپ کی یرشلیم آمد پر بہت خوش تھے۔ اس زبور کے الفاظ کچھ اس طرح تھے۔ ‘ہوشعنا’ جس کا مطلب ہے ‘بچا لے/نجات دے’ – یہ بلکل وہی الفاظ تھے جو زبور 118:25 میں لکھے تھے۔ وہ کیا تھا جس سے لوگ آپ کو ‘بچانے’ کے لیے کہا رہےتھے؟ اس کے بارے میں ہمیں حضرت زکریا کیا بتاتے ہیں۔

حضرت زکریا نے یروشلیم میں آمد کی نبوت کی تھی۔

اگرچہ حضرت عیسیٰ المسیح اُسی روایت کو دوہراتے ہیں۔ جس کو قدیم بادشاہ سینکڑوں سال پہلے کرتے رہے۔ لیکن آپ نے اس کو بلکل مختلف طور سے عملی جامہ پہنایا۔ حضرت زکریا وہ نبی ہیں جنہوں نے آنے والے مسیح کے نام کی نبوت کی تھی۔ اور آپ نے ہی نے یہ نبوت بھی کی تھی کہ مسیح جلوس کی صورت میں گدھے پر سوار ہوکر یروشلیم میں داخل ہونگے۔ تاریخ کے ٹائم لائن میں حضرت زکریا کے دور کو دیکھایا گیا ہے۔ اُن انبیاءاکرام کے ساتھ جنہوں نے کجھوروں کے اتوار کے بارے میں نبوت کی تھی۔

نبوت کا ایک حصہ حضرت یوحنا رسول کی انجیل شریف میں(نیلے متن میں)لکھا ہوا ہے۔ حضرت زکریا کی مکمل نبوت یہاں ہے۔

‘اَے بِنتِ صِیُّون تُو نِہایت شادمان ہو ۔ اَے دُخترِ یروشلیِم خُوب للکار کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے ۔ وہ صادِق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ حلِیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے۔ اور مَیں افرائِیم سے رتھ اور یروشلیِم سے گھوڑے کاٹ ڈالُوں گا اور جنگی کمان توڑ ڈالی جائے گی اور وہ قَوموں کو صُلح کا مُژدہ دے گا اور اُس کی سلطنت سمُندر سے سمُندر تک اور دریایِ فرات سے اِنتہایِ زمِین تک ہو گی۔ اور تیری بابت یُوں ہے کہ تیرے عہد کے خُون کے سبب سے مَیں تیرے اسِیروں کو اندھے کنُوئیں سے نِکال لایا۔ ‘ زکریاہ 9:9-11

حضرت زکریا نے اس بادشاہ کے بارے میں نبوت کی۔ کہ بادشاہ دوسرے بادشاہوں سے مختلف ہوگا۔ یہ بادشاہ رتھوں، جنگجووں اورتیر کمان کا استعمال کرکے بادشاہ نہیں بنے گا۔ دراصل یہ بادشاہ ان سب ہتھیاروں کو توڑے گا اور ‘قوموں کے درمیان امن کی تبلیغ کرے گا۔ پھر بھی اس بادشاہ کو اپنے ایک دوشمن کو شکست دینے ہوگی۔ اس بادشاہ کو ایک بڑے جہاد کے طور پر جدوجہد کرنا پڑے گی۔

نبوت کے مطابق یہ بہت واضع ہے کہ جب ہم دشمن کو پہچان جائیں گے تو اس بادشاہ کو اُس کا سامنا کرنا تھا۔ عام طور پر ایک مخالف بادشاہ، یا ایک فوج، یا باغی لوگ، یا وہ لوگ جو بادشاہ کے خلاف ہوں۔ بادشاہ کے دشمن ہوسکتے ہیں۔ لیکن حضرت زکریا اس بادشاہ کے بارے میں لکھتا ہے۔ کہ وہ ایک گدھے پر سوار ہوکر آئے گا۔ اور سلامتی کی تبلیغ کرے گا۔ اور وہ گڑھے میں قید قیدیوں کو آزاد کروائے گا۔ یہاں پر گڑھے سے مراد عبرانی میں قبر یا موت سے ہے۔ یہ بادشاہ اُن لوگوں کو رہائی دلانے نہیں جارہا۔ جو ڈیکڑوں، بدعنوان سیاستدانوں یا انسانوں کی بنائی ہوئی جیل میں قید تھے۔ بلکہ وہ جو موت کے قید میں تھے اُن کو آزاد کروانے آیا تھا۔

جب ہم لوگوں کو موت سے بچانے کی بات کرتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی کو بچانا تاکہ وہ حقیقی موت (حقیقی موت سے مراد ہمیشہ کی موت) سے بچ جائے۔ ہم شاید مثال کے طور پر کسی کو ڈوبنے سے بچالیں، یا کسی کو دوائی دے کر اُس کی زندگی بچالیں۔ اس قسم کے بچانے سے مراد ہے کہ موت کو ٹال دینا۔ لیکن اصل میں وہ شخص ایک دن ضرور مرے گا۔ لیکن یہاں پر حضرت زکریا اس بات کی نبوت نہیں کررہے تھے۔ وہ بادشاہ لوگوں کو ‘اس مجازی موت سے’ بچائے گا۔ بلکہ یہ بادشاہ اُن لوگوں کو  حقیقی موت’ سے بچائے گا جو اُس کی قید میں ہیں۔’ وہ جو پہلے سے مرچکے ہیں۔ حضرت زکریا نبوت کرتے ہیں کہ بادشاہ گدھے پر سوار کر آرہا ہے۔ اور وہ موت کو شکست دے گا۔ قیدیوں کو رہائی بخشے گا۔ اس کے لیے بہت بڑی جدوجہد کی ضرورت تھی۔ ایک ایسے جہاد کی ضرورت تھی جو پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ بعض اوقات علماء اکرام ہمیں ‘باطن کے جہاد’ اور ‘ظاہری جہاد’ کی تعلیم دیتے ہیں۔ گڑھے (موت) کا سامنا کرنے کے لیے اس بادشاہ کو دونوں باطنی اور ظاہری جہاد کا سامنا کرنا پڑنا تھا۔

اس جہاد کی جدوجہد میں بادشاہ کون سے ہتھیادوں کو استعمال کرنے جارہا تھا؟ حضرت زکریا نے بتایا تھا۔ کہ یہ بادشاہ گڑھے (موت) کی اس جنگ میں صرف” عہد کا خون لے کر جائے” اُس کا اپنا خون ہی ہتھیار ہوگا جس کے لیے اُسے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حضرت عیسیٰ المسیح نے گدھے پر سوار ہو کر یروشلیم میں داخل ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ آپ ہی وہ بادشاہ ہیں۔ ــ السمیح

حضرت عیسیٰ السمیح غم کی وجہ سے روتے ہیں

کجھوروں کے اتوار والے دن جب حضرت عیسیٰ السمٰح یروشلیم (فتح کا جلوس) میں داخل ہوئے تو مذہبی راہنماوں نے آپ کو روکنا چاہا۔ لوقا کی معرفت انجیل شریف میں حضرت عیسیٰ المسیح کا بیان درج ہے کہ آپ نے اُن کو کیا جواب دیا۔

‘جب نزدِیک آ کر شہر کو دیکھا تو اُس پر رویا اور کہا کاش کہ تُو اپنے اِسی دِن میں سلامتی کی باتیں جانتا! مگر اب وہ تیری آنکھوں سے چُھپ گئی ہیں کیونکہ وہ دِن تُجھ پر آئیں گے کہ تیرے دُشمن تیرے گِرد مورچہ باندھ کر تُجھے گھیر لیں گے اور ہر طرف سے تنگ کریں گے اور تُجھ کو اور تیرے بچّوں کو جو تُجھ میں ہیں زمِین پر دے پٹکیں گے اور تُجھ میں کِسی پتّھر پر پتّھر باقی نہ چھوڑیں گے اِس لِئے کہ تُو نے اُس وقت کو نہ پہچانا جب تُجھ پر نِگاہ کی گئی ‘ لُوقا 19 :41-44

حضرت عیسیٰ المسیح نے یہاں پر خاص طور پر راہنماوں سے کہا”کاش کہ وہ اُس وقت جان جاتے” جو آج اُن کی زندگی میں آیا ہے۔ آپ کا یہاں کیا مطلب تھا؟ وہ کس بات کو نہیں سمجھ پائے تھے؟

انبیاءاکرام نے "دن” کے بارے میں نبوت کی تھی

صدیوں پہلے حضرت دانیال نے نبوت کی تھی۔ کہ یروشلیم کے دوبارہ تعمیر ہونے کے 483 سال بعد مسیح آئے گے۔ ہم حضرت دانیال کے مطابق حساب لگا چکے ہیں کہ 33 سن عیسوی متوقع سال تھا۔ یہ وہی سال تھا جب حضرت عیسیٰ المسیح گدھے پر سوار ہوکر یروشلیم میں داخل ہوئے۔ جس سال حضرت عیسیٰ المسیح نے یروشلیم میں داخل ہونا تھا اُس کی نبوت سینکڑوں سال پہلے ہوچکی تھی۔ لیکن آج ہم اس وقت کا دوبارہ حساب لگا سکتے ہیں۔ (برائے مہربانی یہاں پہلے جائزہ لیں

حضرت دانیال نے 483 سالوں کی نبوت کی اوراُس وقت ایک سال 360 دنوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ دور حضرت عیسیٰ المسیح کے آمد سے پہلے کا تھا۔ اس کے مطابق ان دنوں کی تعداد یہ ہے۔

483 سال * 360 دن / سال = 173880 دن

جدید بین اقوامی کیلنڈر کے مطابق 365.2422 دن/سال اس کے مطابق 476 سال اور 25 اضافی دن ہوئے۔ (173 880/365.24219879 = 476 یاد رکھیں 25)

جب یروشلیم کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تو وہاں سے اُلٹی گنتی گننا شروع کریں۔ اس سال کے بارے درج ذیل میں حوالہ دیا گیا ہے۔

ارتخششتا بادشاہ کے بِیسویں برس نَیسا ن کے مہِینے میں ۔ ۔ ۔ نحمیاہ 2: 1

نسان کا کونسا دن تھا (‘نسان’ یہودی کیلنڈر کا ایک مہنہ) اس کے بارے میں بتایا گیا لیکن امکان یہ ہی ہے کہ وہ نسان کے مہنے کی 1 پہلی تاریخ تھی کیونکہ نسان یہودی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے اور یہودیوں کا نیاسال یہاں ہی سے شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ قمری مہینوں والا سال ہے۔ (جس طرح اسلامی کیلنڈر ہے) اسلامی روایت کے مطابق نیا چاند کو چند چُنے ہوئے افراد کے ساتھ مشاہدہ کیا جاتا ہے اور نئے چاند (ہلال) کو پہچان کر نیا سال قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن جدید آسڑانومی کے وسیلے ہم جانتے ہیں کہ کب نیا چاند کا نشان ظاہر ہوتا ہے۔ نسان کی 1،444 ق م میں پہلا نشان بنا۔ اس میں مشکل کی بات یہ ہے۔ کہ مشاہدہ کرنے والی ٹیم نے ہلال کا نشان اُس دن دیکھا یا اگلے دن اُنہوں نے دیکھا۔ اگر اُنہوں نے اگلے دن دیکھا تو اس کا مطلب ہے کہ نسان کا مہنہ شروع ہونے میں ایک دن کا وقفہ پڑگیا۔ فلکیات کے حساب کے ارتختشتا بادشاہ کے 20 سال میں 1 یکم نسان کو ہلال کا چاند رات کو 10 بجے مارچ 4، 444 ق م کو جدید کیلنڈر کے مطابق نظرآیا۔ اگر اُس رات نیا چاند نظر نہیں آیا، تو نسان کی پہلی تاریخ پھر اگلے دن ہوگی یعنی مارچ 5، 444 ق م۔ کسی بھی طرح سے یروشلیم کی بحالی کی تاریخ کی شروعات مارچ 4، یا 5، 444 ق م ہے۔

جب ہم حضرت دانیال کے دیئے ہوئے 476 سال کو شامل کرتے ہیں۔ تو یہ ہمیں مارچ 4 یا 5، 33سن عیسوی تک لیے آتا ہے۔ (یہاں پر کوئی 0 سال نہیں ہے۔ جدید کیلنڈر 1 BC سے 1سن عیسوی اس ایک سال ریاضی کے مطابق -444 + 476 +1= 33)۔ حضرت دانیال کی نبوت کے مطابق 25 دن مزید جمع کرنے سے مارچ 4 یا 5، 33سن عیسوی سے ہم مارچ 29 یا 30 33 سن عیسوی جس کے بارے میں ہم نے ٹائم لائن میں بیان کردیا ہے۔ مارچ 29، 33سن عیسوی اتوار کا دن تھا۔ اس لئے اس کو کھجوروں کا اتوار کہتے ہیں۔ یہ وہی دن تھا جس دن حضرت عیسیٰ المسیح گدھے پر بیٹھ کر بطور مسیح کے یروشلیم میں داخل ہوئے تھے۔ ہم اس لیے جانتے ہیں کیونکہ آںے والے جمعہ فسح تھی۔ اور فسح ہمیشہ نسان کی 14 تاریخ کو ہوتی ہے۔ نسان 14 33سن عیسوی اپریل 3 والے دن تھی۔ 3 اپریل جمعہ والے دن کے 5 دن پہلےمارچ 29 کو کجھوروں کا اتوار تھا۔

حضرت عیسیٰ المسیح نے 29 مارچ 33 AD کو گدھے پر بیٹھ کر یروشلیم میں داخل ہو کر حضرت زکریا اور حضرت دانیال کی نبوت دونوں کو پورا کردیا۔ اس کو درج ذیل ٹائم لائن میں بیان کردیا گیا ہے۔

حضرت دانیال نے ‘مسیح’ کے بارے میں 173880 دن پہلے نبوت کردی تھی۔

(حضرت نحمیاہ کا وقت شروع ہوگیا۔ جب حضرت عیسیٰ المسیح اتوار والے دن مارچ 29، 33 AD کو یروشلیم میں داخل ہوئے۔)

ایک دن میں بہت ساری نبوتوں کے پورے ہونے سے صاف اور واضع اللہ تعالیٰ کے مشن کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن بعد میں اُسی دن حضرت عیسیٰ المسیح نے حضرت موسیٰ کی بتائی ہوئی ایک اور نبوت کو پورا کیا۔ ایسا کرنے سے اُنہوں نے جہاد کی کاروائی  گڑھے میں لے کر جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جہاں حضرت عیسیٰ المسیح کی دشمن موت ہے۔ ہم اس کے بارے میں اگلے مضمون میں جانے گے۔

‘لیکن تُو پاتال میں گڑھے کی تہہ میں اُتارا جائے گا۔ ‘ یسعیاہ 14 :15

‘اِس لِئے کہ پاتال تیری سِتایش نہیں کر سکتا اور مَوت سے تیری حمد نہیں ہو سکتی۔ وہ جو گور میں اُترنے والے ہیں تیری سچّائی کے اُمّیدوار نہیں ہو سکتے۔ ‘ یسعیاہ 38 :18

‘بلکہ اُس کی جان گڑھے کے قرِیب پُہنچتی ہے اور اُس کی زِندگی ہلاک کرنے والوں کے نزدِیک۔ ‘ ایُّوب 33 :22

‘وہ تُجھے پاتال میں اُتاریں گے اور تُو اُن کی مَوت مَرے گا جوسمُندر کے وسط میں قتل ہوتے ہیں۔ ‘ حِزقی ایل 28 :8

‘جِن کی قبریں پاتال کی تہ میں ہیں اور اُس کی تمام جمعِیّت اُس کی قبر کے گِردا گِرد ہے ۔ سب کے سب تلوار سے قتل ہُوئے جو زِندوں کی زمِین میں ہَیبت کا باعِث تھے۔ ‘ حِزقی ایل 32 :23

‘اَے خُداوند! تُو میری جان کو پاتال سے نِکال لایاہے ۔ تُو نے مُجھے زِندہ رکھّا ہے کہ گور میں نہ جاؤُں۔ ‘ زبُو 30 :3

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے