قریش یا قریشی لوگ یہ عرب کا قبیلہ تھا جن کے قابو میں مکہ اور مددنہ تھا اور یہ وہی قبیلہ تھا جس سے نبی حضرت محمّد صلّم تھے – سورہقریش (سورہ 6 10 – قریش) انکی پسندیدہ عہد و پیمان کا بیان کرتا ہے جن سے قریشی لطف اندوز ہوئے –
1. قریش کو رغبت دلانے کے سبب سےo
2. انہیں سردیوں اور گرمیوں کے (تجارتی) سفر سے مانوس کر دیاo
106:1-2سورہ قریش
مگر سورہ یونس (سورہ 10 – یونا ہ) یہ بیان کرتا ہے کہ جب حضرت محمّد صلّم جب قریشیوں کے پاس پیغام لیکر گئے تو تب کیا ہوا تھا –
کیا یہ بات لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک مردِ (کامل) کی طرف وحی بھیجی کہ آپ (بھولے بھٹکے ہوئے) لوگوں کو (عذابِ الٰہی کا) ڈر سنائیں اور ایمان والوں کو خوشخبری سنائیں کہ ان کے لئے ان کے رب کی بارگاہ میں بلند پایہ (یعنی اونچا مرتبہ) ہے، کافر کہنے لگے: بیشک یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے-
10:2سورہ یونس
انکے پیغام کو انکار کرنے کے ذریعے سورہ ال قمر (سورہ 54 —چاند) قرشیوں کو (سزا کی بابت) خبردار کی گیئ جن کا انھیں سامنا کرنا پڑا –
(اے قریشِ مکہ!) کیا تمہارے کافر اُن (اگلے) لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (آسمانی) کتابوں میں نجات لکھی ہوئی ہے یا یہ (کفّار) کہتے ہیں کہ ہم (نبیِ مکرّم ص ی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) غالب رہنے والی مضبوط جماعت ہیں
عنقریب یہ جتّھہ (میدانِ بدر میں) شکست کھائے گا اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ اُن کا (اصل) وعدہ تو قیامت ہے اور قیامت کی گھڑی بہت ہی سخت اور بہت ہی تلخ ہے
54:43—46سورہ قمر
سورہ یونس یہ بھی سمجھاتا ہے کہ حالانکہ بہت سے انبیاء اپنے سامعین کردیے گئے (جس طرح قریش کے ساتھ ) تو ایک مثتثنیٰ تھا –نبی حضرت (یونس) علیھسسلام –
پھر قومِ یونس (کی بستی) کے سوا کوئی اور ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو اور اسے اس کے ایمان لانے نے فائدہ دیا ہو۔ جب (قومِ یونس کے لوگ نزولِ عذاب سے قبل صرف اس کی نشانی دیکھ کر) ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیوی زندگی میں (ہی) رسوائی کا عذاب دور کردیا اور ہم نے انہیں ایک مدت تک منافع سے بہرہ مند رکھاo
10:98سورہ یونس
حضرت یونس کو غیر قوم کے لوگوں میں بھیجے گئے تھے –اسکے باوجود بھی انہوں نے پیغام کو قبول کر لیا تھا – مگر نبی حضرت یونس نے اپنا کردار قبول نہیں کیا تھا اور خدا کی حضوری سے بھاگنے کی کوشش میں وہ ایک بری مچھلی کے زریعے زندہ نگل لئے گئے تھے – سورہ ال – قلم (سورہ -68 قلم ) بیان کرتا ہے کہ کسطرح حضرت یونس نے اپنی خود کی نافرمانی کے لئے مچھلی کے پیٹ کے اندر ہی توبہ کی اور وہ نبی کے عہدے پر دوبارہ فائز کئے گئے
پس آپ اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر فرمائیے اور مچھلی والے (پیغمبر یونس علیہ السلام) کی طرح (دل گرفتہ) نہ ہوں، جب انہوں نے (اللہ کو) پکارا اس حال میں کہ وہ (اپنی قوم پر) غم و غصہ سے بھرے ہوئے تھے
اگر ان کے رب کی رحمت و نعمت ان کی دستگیری نہ کرتی تو وہ ضرور چٹیل میدان میں پھینک دئیے جاتے اور وہ ملامت زدہ ہوتے (مگر اللہ نے انہیں ا س سے محفوط رکھا)
پھر ان کے رب نے انہیں برگزیدہ بنا لیا اور انہیں (اپنے قربِ خاص سے نواز کر) کامل نیکو کاروں میں (شامل) فرما دیا
68:48-50سورہ ال – قلم
نبی حضرت محمّد کی طرح حضرت عیسی ال مسیح بھی اپنے خود کے ذاتی بھائیوں(یہودیوں) کے پاس گئے مگر انہوں نے ان پر جادوگری کا الزام لگایا اور انکے پیغام کا انکار کیا – سو حضرت عیسی ال مسیح نے حضرت یونس کا حوالہ ایک نشانی بطور دیا –وہ کون سی نشانی تھی ؟
حضرت عیسی ال مسیح کا اختیار لوگوں کے لئے ایک سوالیہ نشان بنکر رہ جاتا ہے –
ہم نے دیکھا کہ انجیل مقدس میں کس طرح حضرت عیسیٰ المسیح کی تعلیم، شفا، اور معجزات کو درج کیا گیا ہے۔ آپ نے اکثر اپنے سامعین کو دعوت دی۔ کہ وہ سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ جس کی آپ پیشکش کررہے ہیں۔ آپ نے گنہگاروں کو رحمت بھرے "زندگی کے پانی" کی پیشکش کی، اور "کھوئے ہووں" کو "اللہ تعالیٰ کی بادشاہی" میں خوش آمدید کہا۔ لیکن یہ سب اُن کے لیے ہے جو اپنی مرضی سے آنا چاہتے ہیں۔
ان تعلیمات نے ان کے مذہبی راہنماوں (اماموں) کو الجھن میں ڈال دیا۔ خاص طور پر وہ اس حیرانگی میں پڑگے کہ آپ کس اختیار سے لوگوں کے ساتھ کلام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کیا حضرت عیسیٰ المسیح کے پاس واقعی گنہگاروں کو اللہ تعالیٰ کا رحم دینے کا اختیار حاصل ہے۔ اور جنت میں مدعو کرنے کا اختیارکہا سے حاصل کیا؟ لہذا مذہبی راہنماوں نے آپ سے نشان مانگا تاکہ وہ آپ کے ان دعووں کا یقین کرسکیں انجیل مقدس میں یہ گفتگو اس طرح درج ہے۔
حضرت عیسیٰ حضرت یونس کے نشان کا حوالہ دیتے ہیں
‘اِس پر بعض فقِیہوں اورفرِیسِیوں نے جواب میں اُس سے کہا اَے اُستاد ہم تُجھ سے ایک نِشان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُس نے جواب دے کراُن سے کہا اِس زمانہ کے بُرے اور زِناکار لوگ نِشان طلب کرتے ہیں مگر یُوناہ نبی کے نِشان کے سِوا کوئی اَور نِشان اُن کونہ دِیا جائے گا۔ کیونکہ جَیسے یُو ناہ تِین رات دِن مچھلی کے پیٹ میں رہا وَیسے ہی اِبنِ آدم تِین رات دِن زمِین کے اندر رہے گا۔ نِینو ہ کے لوگ عدالت کے دِن اِس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر اِن کومُجرِم ٹھہرائیں گے کیونکہ اُنہوں نے یُو ناہ کی مُنادی پر تَوبہ کر لی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو یُو ناہ سے بھی بڑا ہے۔ ‘
متّی 12: 38-41
حضرت یونس تاریخ میں
حضرت عیسیٰ المسیح اُن کو حضرت یونس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ آپ ذیل میں ٹائم لائین میں دیکھ سکتےہیں۔ کہ حضرت یونس حضرت عیسیٰ المسیح سے 800 سال پہلے نازل ہوئے تھے۔
حضرت یونس قرآن شریف میں
حضرت یونس پر جو کتاب نازل ہوئی تھی۔ قرآن شریف میں اُس کا خلاصہ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
اور یونس بھی پیغمبروں میں سے تھے ﴿139﴾ جب بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں پہنچے ﴿140﴾ اس وقت قرعہ ڈالا تو انہوں نے زک اُٹھائی ﴿141﴾ پھر مچھلی نے ان کو نگل لیا اور وہ (قابل) ملامت (کام) کرنے والے تھے ﴿142﴾ پھر اگر وہ (خدا کی) پاکی بیان نہ کرتے ﴿143﴾ تو اس روز تک کہ لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اسی کے پیٹ میں رہتے ﴿144﴾ پھر ہم نے ان کو جب کہ وہ بیمار تھے فراخ میدان میں ڈال دیا ﴿145﴾ اور ان پر کدو کا درخت اُگایا ﴿146﴾ اور ان کو لاکھ یا اس سے زیادہ (لوگوں) کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا ﴿147﴾ تو وہ ایمان لے آئے سو ہم نے بھی ان کو (دنیا میں) ایک وقت (مقرر) تک فائدے دیتے رہے ﴿148﴾
سُوۡرَةُ الصَّافات37: 139-148
حضرت یونس کو ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا تھا۔ کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے ایک دیئے ہوئے مشن سے بھاگ رہے تھے۔ وہ مشن تھا کہ نینوہ کے شہر(آج عراق کا شہر موصل) کو توبہ کرنے کی تبلیغ کرے۔ ایک اسلامی عالم جناب یوسف علی ان آیات کے بارے میں یوں بیان کرتے ہیں۔
یہ صرف محاورہ ہے۔ یہ حضرت یونس کی قبر تھی۔ اگر وہ مچھلی کے پیٹ میں توبہ نہ کرتے۔ تو وہ قیامت کے دن تک اُس مچھلی کے پیٹ میں سے باہرنہیں نکل سکتے تھے۔ قیامت کا مطلب ہے جب سب مردہ زندہ ہوجائیں گے۔
(Footnote 4125 of Yusuf Ali translation of Quran)
دوسرے الفاظ میں، مچھلی کے پیٹ سے مراد سزائے موت تھی۔ اس سے رہائی قیامت والے دن ہونی تھی۔
حضرت یونس کی کتاب میں سے
پرانے عہد نامہ میں حضرت یونس کے مچھلی کے واقع کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں اسطرح بیان کیا گیا ہے۔
لیکن خُداوند نے ایک بڑی مچھلی مُقرّر کر رکھّی تھی کہ یُونا ہ کو نِگل جائے اور یُونا ہ تِین دِن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ یُوناہ 1: 17
‘تب یُونا ہ نے مچھلی کے پیٹ میں خُداوند اپنے خُدا سے یہ دُعا کی۔:- مَیں نے اپنی مُصِیبت میں خُداوند سے دُعا کی اور اُس نے میری سُنی۔ مَیں نے پاتال کی تہ سے دُہائی دی۔ تُو نے میری فریاد سُنی۔ تُو نے مُجھے گہرے سمُندر کی تہ میں پھینک دِیا اور سَیلاب نے مُجھے گھیر لِیا ۔ تیری سب مَوجیں اور لہریں مُجھ پر سے گُذر گِئیں اور مَیں سمجھا کہ تیرے حضُور سے دُور ہو گیا ہُوں لیکن مَیں پِھر تیری مُقدّس ہَیکل کو دیکُھوں گا۔ سَیلاب نے میری جان کا مُحاصرہ کِیا۔ سمُندر میری چاروں طرف تھا۔ بحری نبات میرے سر پر لِپٹ گئی۔ مَیں پہاڑوں کی تہ تک غرق ہو گیا۔ زمِین کے اڑبنگے ہمیشہ کے لِئے مُجھ پر بند ہو گئے ۔ تَو بھی اَے خُداوند میرے خُدا تُو نے میری جان پاتال سے بچائی۔ جب میرا دِل بیتاب ہُؤا تو مَیں نے خُداوند کو یادکِیا اور میری دُعا تیری مُقدّ س ہَیکل میں تیرے حضُور پُہنچی۔ جو لوگ جُھوٹے معبُودوں کو مانتے ہیں وہ شفقت سے محرُوم ہو جاتے ہیں۔ مَیں حمد کرتا ہُؤا تیرے حضُور قُربانی گُذرانُوں گا۔ مَیں اپنی نذریں ادا کرُوں گا۔ نجات خُداوند کی طرف سے ہے۔ اور خُداوند نے مچھلی کو حُکم دِیا اور اُس نے یُونا ہ کو خُشکی پر اُگل دِیا۔ یُوناہ خُداوند کا حُکم مانتاہے’ یُوناہ 2: 1-10
حضرت یونس کا نشان کیا ہے؟
عام طور پر ہم یہ توقع کرتے ہیں۔ کہ جب کبھی کسی کے اختیار کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ جس طرح حضرت عیسیٰ المسیح کے اختیار کو یہاں پر چیلنج کیا گیا۔ تو توقع یہ کی جاتی ہے کہ کہ اس کا جواب اپنی طاقت، فتح، یا کامیابی دیکھا کے دیا جائے گا۔ لیکن حضرت عیسیٰ المسیح نے اپنے اخیتار کا دفاع حضرت یونس کی طرف اشارہ کرکے دیا۔ جس طرح حضرت یونس "تین دن موت کی حکمرانی” – گھڑے یا قبر میں رہے۔ اس وقت کے دوران جب یونس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو وہ آپ یعنی لوگوں کی نظروں سے اُوجھل کردیا گیا۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ حضرت یونس کا تین دن کے لیے موت کے گھڑے میں سے مراد اللہ تعالیٰ کی نظروں سے اوجھل ہوجانا۔ ایک حیرت انگیز اللہ کی طرف سے اختیار کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے اپنے اختیار کو ظاہر کرنے کے لیے اس نشان کا کیوں ذکر کیا ؟
یہ پہلی بارنہیں ہے۔ کہ ہم کمزوری کو اور موت کو اللہ تعالیٰ کے نشان کے طور پر جانتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ حضرت یسعیاہ نبی آنے والے خادم کے بارے میں نبوت کرتے ہیں۔ ہم نے حضرت یسعیاہ نبی کی نبوت سے جانا کہ اُنہوں نے نبوت کی تھی۔ کہ آںے والے خادم کو ناپسند کیا جائے گا۔ اورآدمیوں کی طرف سے رد کردیا جائے گا۔ اور یہ سمجھا جائے گا کہ اُس کو اللہ تعالیٰ نے سزا دی ہے۔ اور اُس کو زندوں کیزمین پر سے کاٹ ڈالا جائے گا، اور اُس کی قبر شریروں میں ہوگی۔ یہ سب باتیں حضرت یونس کے واقعہ سے ملتیں جولتی نظر آتیں ہیں۔ ابھی بھی عجیب سی بات لگتی ہے۔ کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی کہ اُس (خادم) کو کچلے۔ شاید آپ ابھی اس بات کو نہ سمجھیں کہ حضرت عیسیٰ المسیح نے کیوں اس نشان کا انتخاب کیا۔ یہ ایک الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔
حضرت یونس کی دعا کے اختتام سے ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ جو اُنہوں نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کے حضور فرمائی۔ حضرت یونس کی دعا کا آخری جملہ یوں تھا۔ "نجات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے” ہم نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ کا نام اردو میں یسوع اور عبرانی میں یشوع کا مطلب ایک ہے۔ جس کے بارے میں آنے والی شاخ کے بارے میں نبوت کی گئی تھی۔ لیکن یشوع کا کیا مطلب ہے؟ عبرانی میں اس کا مطلب ہے "اللہ ہمیں نجات دیتا ہے”۔ حضرت یونس کی دعامیں اُس نے اس بات کو جانا کہ اُن کو نجات کی ضرورت ہے۔ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی نجات دے سکتا ہے۔ حضرت یونس کے دوہرے سچ میں دونوں ضرورتوں کا اعلان ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو ہمیں نجات دیتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کے نام (یشوع عبرانی میں) کا لفظی مطلب بھی یہ ہی ہے۔ جس کا حضرت یونس نے حتمی طور پر مچھلی کے پیٹ میں اقرار کیا کیونکہ یشوع/ عیسیٰ کا مطلب بھی یہ ہی ہے” اللہ ہمیں نجات دیتا ہے”
حضرت عیسیٰ المسیح نے مذہبی راہنماوں کے ساتھ اپنی گفتگو کا اختتام اس طرح کیا۔ اس بات کو یاد کروایا کہ نینوہ کے لوگوں (توبہ کی)نے حضرت یونس کی تبلیغ پر ایمان لایا اور توبہ کی۔ لیکن وہ راہنما جو حضرت عیسیٰ المسیح کو سُن رہے تھے۔ وہ توبہ کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ راہنما اس بات کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے کہ اُن کو نجات کی ضرورت ہے۔ ہمیں بھی اپنے دلوں کو جانچ لینا چاہیے کیا ہم نینوہ کے لوگوں کی مانند ہیں(جہنوں نے توبہ کی) یا ہم راہنماوں (جن کو ضرورت نہیں)۔ آپ ان دونوں میں سے کون ہیں۔
ہم حضرت عیسیٰ المسیح کے اس مضمون کو جاری رکھیں گے تاکہ ہم مکمل طور پر جان سکیں کہ حضرت یونس کے اس نشان کا کیا مطلب ہے اوریہ کیا ہے۔ ‘اللہ بچاتا ہے’ جس طرح حضرت عیسیٰ المسیح کا مشن اس کے اختتام کی طرف بڑھتا ہے۔