Skip to content

رمضاں کا مقدّس مہینہ – کسطرح روزہ رکھا جاتا ہے ؟

رمضان کے مہینے میں جب روزے کا وقت ہوتا ہے تو میں اپنے دوستوں سے بحث  کرتے سنتا ہوں کہ بہترین روزہ کیسے رکھا جاتا ہے – بحث کا مدّعا یہ ہوتا ہے کہ روزہ کب شرو ع کریں اور کب ختم کریں – جب گرمیوں میں رمضان کا مہینہ آتا ہے اور جبکہ  ہم عام طور پر 16 گھنٹے یا اس سے زیادہ فاقہ کرتے ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کوئی روزے کے لئے کسی اور معیاری دن کے وقت کا استع مال کر سکتا ہے (جیسے کہ مکہ میں طلوع آفتاب سے لیکر غروب آفتاب تک کا وقفہ)-میرے دوست لوگ اس بات کے لئے  کئی ایک علماء کے زریعے دئے گئے فرق فرق قاعدے قانون کے پیچھے چلتے اور اسی سوال کے پیچھے کہ کیا چیز جایز ہے اور کیا چیز نہیں –

جسطرح سے یہ بحث کے مدعے ضروری ہیں ہم مساوی طور سے ایک ضروری سوال بھول جاتے ہیں کہ کیسے جئیں جس سے کہ الله ہمارے روزوں سے خوش ہو یا ہمارے روزے الله کو خوش کر سکے – نبیوں نے اس کے بارے میں لکھا تھا اور سہی طرح سے جینے کی بابت اور انکا پیغام جو الله کو خوش کرنے والے روزوں کی بابت ہے اج اتنا ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا کہ انکے زمانے میں تھا –

نبی حضرت یسعیا ہ (علیھسسلام) ایسے زمانے میں رہتے تھے جب ایماندار لوگ اپنے مذ ہبی فرائض کو پابندی کے ساتھ انجام دینے میں لگے ہوئے تھے جیسے (نماز ادا کرنا اور روزہ رکھنا) وغیرہ – وہ مذہبی تھے –

بی یسعیا ہ (علیھسسلام) کی تاریخی وقت کی لکیر زبور کے دیگر نبیوں کے ساتھ   

   مگر وہ ایک بڑے بگاڑ کا بھی زمانہ تھا – (دیکھیں تعارف زبور کو)– ان دنوں لوگ لگاتار لڑ جھگڑ رہے تھے ، حججت کرتے تھے اور بحث چھیڑا کرتے تھے – تب نبی انکے لئے یہ پیغام لے آیا –

سچا روزہ

(1)گلا پھاڑ کر چِلاّ ۔ دریغ نہ کر ۔ نرسِنگے کی مانِنداپنی آواز بُلند کر اور میرے لوگوں پر اُن کی خطا اور یعقُو ب کے گھرانے پر اُن کے گُناہوں کو ظاہِر کر۔
(2)وہ روز بروز میرے طالِب ہیں اور اُس قَوم کی مانِندجِس نے صداقت کے کام کِئے اور اپنے خُدا کے احکام کوترک نہ کِیا میری راہوں کو دریافت کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ مُجھ سے صداقت کے احکام طلب کرتے ہیں ۔ وہ خُدا کی نزدِیکی چاہتے ہیں۔
(3)وہ کہتے ہیں ہم نے کِس لِئے روزے رکھّے جبکہ تُو نظرنہیں کرتا اور ہم نے کیوں اپنی جان کو دُکھ دِیا جبکہ تُو خیال میں نہیں لاتا؟ دیکھو تُم اپنے روزہ کے دِن میں اپنی خُوشی کے طالِب رہتے ہو اور سب طرح کی سخت مِحنت لوگوں سے کراتے ہو۔
(4)دیکھو تُم اِس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑاکرو اور شرارت کے مُکّے مارو ۔ پس اب تُم اِس طرح کاروزہ نہیں رکھتے ہو کہ تُمہاری آواز عالِم بالا پرسُنی جائے۔
(5)کیا یہ وہ روزہ ہے جو مُجھ کو پسند ہے؟ اَیسا دِن کہ اُس میں آدمی اپنی جان کو دُکھ دے اور اپنے سر کو جھاؤکی طرح جُھکائے اور اپنے نِیچے ٹاٹ اور راکھ بِچھائے؟کیا تُو اِس کو روزہ اور اَیسا دِن کہے گا جو خُداوند کامقبُول ہو؟۔
(6)کیا وہ روزہ جو مَیں چاہتا ہُوں یہ نہیں کہ ظُلم کی زنجِیریں توڑیں اور جُوئے کے بندھن کھولیں اور مظلُوموں کو آزاد کریں بلکہ ہر ایک جُوئے کو توڑ ڈالیں؟۔
(7)کیا یہ نہیں کہ تُو اپنی روٹی بُھوکوں کو کِھلائے اور مِسکِینوں کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر میں لائے اورجب کِسی کو ننگا دیکھے تو اُسے پہنائے اور تُو اپنے ہم جِنس سے رُوپوشی نہ کرے؟۔
(8)تب تیری روشنی صُبح کی مانِند پُھوٹ نِکلے گی اور تیری صِحت کی ترقّی جلد ظاہِر ہو گی ۔ تیری صداقت تیری ہراول ہو گی اور خُداوند کا جلال تیرا چنڈاول ہو گا۔
(9)تب تُو پُکارے گا اور خُداوند جواب دے گا ۔ تُو چِلاّئے گااور وہ فرمائے گا مَیں یہاں ہُوں ۔ اگر تُو اُس جُوئے کو اور اُنگلِیوں سے اِشارہ کرنے کو اور ہرزہ گوئی کواپنے درمِیان سے دُور کرے گا۔
(10)اور اگر تُو اپنے دِل کو بُھوکے کی طرف مائِل کرے اورآزُردہ دِل کو آسُودہ کرے تو تیرا نُور تارِیکی میں چمکے گااور تیری تِیرگی دوپہر کی مانِند ہو جائے گی۔
(11)اور خُداوند سدا تیری راہنُمائی کرے گا اور خُشک سالی میں تُجھے سیر کرے گا اور تیری ہڈِّیوں کو قُوّت بخشے گا۔ پس تُو سیراب باغ کی مانِند ہو گا اور اُس چشمہ کی مانِند جِس کا پانی کم نہ ہو۔
(12)اور تیرے لوگ قدِیم وِیران مکانوں کو تعمِیر کریں گے اور تُو پُشت در پُشت کی بُنیادوں کو برپا کرے گا ۔ اورتُو رخنہ کا بند کرنے والا اور آبادی کے لِئے راہ کادرُست کرنے والا کہلائے گا۔

58:1-12 یسعیاہ

سچے روزوں کے ذریعے جو کثرت کی زندگی حاصل  ہے کیا اس کے لئے یہ وعدے عجیب و غریب نہیں ہیں ؟ مگر آگے چلکر لوگوں نے نبی کی باتوں پر دھیان نہیں دیا نہ ہی انہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی – (توبہ کی بابت حضرت یحییٰ علیھسسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کیا )– سو اس لئے انکا انصاف کیا گیا جسطرح حضرت موسیٰ (علیھسسلام) نے نونکے با رے میں نبوت کی تھی -یہ پیغام موجودہ زمانے میں ہمارے لئے بھی تنبیہ کے لئے ہے جبکی نبی یسعیا ہ کا بیان کہ اس کے لوگوں نے روزوں کے دوران کسطرح برتاؤ کیا اور یہ بات اج بھی پائی جاتی ہے –

ہمارے امام جن قوا نین کی اجازت دیتے ہیں ان کے مطابق روزے رکھنے کے باوجود بھی اگر ہم الله کو خوش کرنے والی زندگی نہ جئیں  جس سے اسکو ٹھیس لگتی ہے تو ہمارا کچھ فائدہ نہیں ہوگا–  ہما رے روزے بیکار ثابت ہونگے – سو  نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح (علیھسسلام) کے ذرئیے الله کے اس بڑے رحم کو معلوم کریں اور سمجھ یں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے