سورہ احزاب (سورہ 33 – مشترکہ قوتیں) ایک مشترکہ انسانی صورتحال کا حل پیش کرتی ہے – جب ہمیں ان کا نام معلوم نہیں ہوتا ہے تو کسی کو کیا کہتے ہیں۔
مومنو! لےپالکوں کو اُن کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ کہ خدا کے نزدیک یہی بات درست ہے۔ اگر تم کو اُن کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو قصد دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
سورة الاخزاب 33: 5
اس آیت سے ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی علم محدود ہے۔ ہم اکثر اپنے آس پاس کے لوگوں کے نام تک نہیں جانتے ہیں۔ سورة النجم (سورة 53 – ستارہ ) میں حضرت محمد کے دور مختلف بتوں (عض، لات، منات) کے بارے میں بات کرتی ہے۔
وہ تو صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لئے ہیں۔ خدا نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ یہ لوگ محض ظن (فاسد) اور خواہشات نفس کے پیچھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے
سورة الاخزاب 53: 25
جھوٹے خداؤں کے نام محض لوگوں نے پیش کیے تھے۔ یہ آیتیں جھوٹی عبادتوں کو سچ سے الگ کرنے کے لئے ہدایت نامہ پیش کرتی ہیں۔ چونکہ ہم بعض اوقات اپنے آس پاس کے لوگوں کے نام تک نہیں جانتے ہیں ، لہذا انسان یقینی طور پر مستقبل میں آنے والے کسی نبی کا نام نہیں جان سکتے ہیں۔ اگر مسیح کا نام وقت سے پہلے ہی دے دیا جائے تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ یہ اللہ کا سچا منصوبہ ہے اور کسی جھوٹی چیز سے نہیں۔ ہم یہاں پر نظر ڈالتے ہیں کہ عیسیٰ المسیح کے نام کی پیشگوئی کس طرح کی گئی ہے
نام میں نشان
ہم نے زبور شریف کے حالیہ مضامین میں دیکھا ہے کہ اللہ نے آنے والی بادشاہت کے بارے وعدہ کیا تھا۔ یہ سلطنت ہماری عام انسانی حکومتوں سے مختلف ہوگی۔ اگر ہم آج کی نیوز کو دیکھیں اور غور کریں کہ ہماری انسانی حکومتوں میں کیا ہورہا ہے۔ تو آپ لڑائی جھگڑا، کرپشن، ظلم، قتل، غریبوں کا استحصال اور اس طرح کے تمام بدکاریوں سے حکومتں بھری ہوئی ہیں۔ چاہئے وہ مسلم، عیسائی، یہودیوں، بدھ مت، ہندو یا سیکولر مغرب حکومت ہی کیوں نہ ہو۔ ان تمام سلطنتوں میں اس مسئلہ کی ایک ہی جڑ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ جس میں ہماری نہ بجھنے والی پیاس ہمیں ہرروز گناہ کی طرف لے کر جارہی ہے۔ جیسا کہ ہم نے ان مسائل کو حضرت یرمیاہ کے مضمون میں بھی دیکھا۔ جس کا نتیجہ گناہ ہی ہے۔ (یعنی فساد، قتل، جنسی تشدد)۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی اس بادشاہی کے ابھی نہ آنے میں سب سے اہم رکاوٹ ہم ہی ہیں. اگر اللہ نے اپنی نئی سلطنت قائم لی تو ابھی ہم میں سے کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ ہمارا گناہ اس سلطنت کو بھی برباد کردے گا۔ جس طرح اُس نے ہماری اس سلطنت کو بردباد کردیا ہے۔ حضرت یرمیاہ نبی نے پیشن گوئی کرکے بیان کردیا تھا۔ کہ ایک دن اللہ تعالیٰ ایک نیا عہد قائم کرے گا۔ یہ نیا حضرت موسیٰ کی شریعت کی طرح پتھر کی تختیوں پر لکھے ہونے کی بجائے۔ یہ ہمارے دلوں پر لکھا ہوا ہوگا۔ یہ ہمیں اس بادشاہی کے شہری بننے کے لئے اندر ،باہر سے بدل دے گا.
یہ سب کیسے ہونے جارہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کئے منصوبے ایک چھپے ہوئے خزانہ کی مانند ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے زبور شریف کے پیغامات میں اشارے دیئے ہیں۔ تاکہ وہ جو اُسکی کی بادشاہی کی تلاش میں ہیں۔اُس کو پاسکیں۔ لیکن وہ جو دلچسی نہیں رکھتے۔ وہ بے خبر ہیں۔ ہم ان نشانوں کو اب دیکھ سکتے ہیں۔ یہ منصوبہ آنے والے مسیح پر مبنی ہے۔ (جس کو ہم نے یہاں ـمسیحا- کرائسٹ کے طور پر دیکھا)۔ ہم نے اس کو پہلے ہی سے زبور شریف میں دیکھا ہے۔ آنے والے مسیح کے بارے میں جو پیشن گوئی کی گئی تھی وہ حضرت دواد کی لڑی میں سے ہوگا۔ (دوبارہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)۔
حضرت یسعیاہ نبی درخت کی شاخوں اور تنے کے بارے میں
حضرت یسعیاہ نبی اس منصوبہ کو واضع کرتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ کیسے یہ سب کچھ کریں گے۔ حضرت یسعاہ نبی کی کتاب زبور شریف کی ہی ایک کتاب ہے۔ جو حضرت داود کے شاہی خاندان کی اسرائیل پر حکمرانی کے دوران نازل ہوئی۔ (1000-600 ق م)۔ جن دنوں (750 ق م ) یہ کتاب لکھی جارہی تھی، تو اسرائیل کی ساری سلطنت اپنے دلوں کی پیاس کو ناجائز طریقے سے بجھانے کی وجہ سے جاہلت کا شکار تھی۔
حضرت یسعیاہ نبی نے اسرائیلیوں سے ایک الہامی درخواست کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت کرنے اور حضرت موسیٰ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں۔ حضرت یسعیاہ جانتے تھے کہ اسرائیلی اُن کی اس توبہ کی درخواست کو نظرانداز کردیں گے۔ اس لیے اُنہوں نے اسرائیل کے بارے میں نبوتی کلام کیا۔ کہ اسرائیلی قوم تباہ ہوجائیں گی اور حضرت دواد کا شاہی خاندان اسی کے ساتھ اپنی بادشاہت کھودے گا۔ ہم نے دیکھا یہ کیسے ہوا۔ اپنی اس نبوتی کلام میں حضرت یسعیاہ نے ایک درخت کی مثال پیش کی۔ جو مکمل طور پر تباہ ہوئے گا۔ لیکن اُس کا ٹنڈ باقی رہ جاتا ہے۔ یہ واقع 600 ق م کے دوران پیش آیا جب بابلیوں نے یروشلیم پر حملہ کرکے۔ مکمل شہر کو تباہ کردیا اور حضرت دواد کی نسل سے حکمرانی یروشلیم سے جاتی رہی۔
لیکن اُن کی کتاب میں آنے والی تباہی کے تمام پیشن گوئیوں کے ساتھ، یہ خاص پیغام جوڑا ہوا تھا۔
1 اور یسی کے تنے سے ایک کونپل نکلیگی اور اسکی جڑوں سے ایک بار آور شاخ پیدا ہوگی۔
2 اور خداوند کی روح اُس پر ٹھہرے گی ۔حکمت اور خرد کی روح مصلحت اور قدرت کی روح معرفت اور خداوند کے خوف کی روح ۔ یسیعیاہ 11: 1-2
حضرت یسی، حضرت دواد کے والد تھے اس طرح وہ اُس خاندان کی جڑ ہیں۔ حضرت یسی کے تنے اور جڑ سے مراد وہ پیشن گوئی تھی۔ جس کی وجہ سے حضرت دواد کے خاندان میں تباہی برپا ہوئی۔لیکن حضرت یسعیاہ اس سے آگے بھی دیکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اُنہیں اس تباہی کی پیشن گوئی کے بعد مستقبیل میں آنے والے منظر کو بتاتے ہیں۔ کیونکہ وہ تنا / جڑ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی تھی۔ایک دن مستقبیل میں اُس میں سے ایک شاخ پھوٹ نکلے گی۔ جو اُسی ایک تنا میں سے ہوگی۔ یہ شاخ حضرت دواد کے خاندان میں سے آنے والے ایک آدمی کی طرف اشارہ ہے۔اس آدم میں بہت سی بیش قیمت خوبیاں ہوگئیں۔ جیسا کہ حکمت، فہم، اور خرد ہوگی جو تمام اللہ تعالیٰ کی روح میں سے ہونگیں۔ اب یاد رکھیں کہ ہم نے کیسے اس بات کو جانا تھا۔ کہ حضرت دواد کی نسل میں سے ایک مسیحا کی پیشن گوئی کی گئی تھی۔ یہ ایک اہم ترین پیشن گوئی تھی۔حضرت دواد کی نسل میں سے ایک شاخ اور مسیحا ہوسکتا ہے، یہ دونوں ایک ہی شخص کے لقب ہوں۔ آئیں دیکھ زبور شریف میں سے مزید تلاش کرتے ہیں۔
حضرت یرمیاہ نبی درخت کی شاخوں اور تنے کے بارے میں
حضرت یرمیاہ حضرت یسعیاہ نبی کے 150 سال بعد تشریف لائے۔ جب حضرت دواد کا خاندان اُسکی آنکھوں کے سامنے برباد ہورہاتھا۔ جب اُنہوں نے یہ پیشن گوئی لکھی۔
5 دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے کہ میں داؤد کے لئے ایک صادق شاخ پیدا کرونگا اور اُسکی بادشاہی ملک میں اقبالمندی اور عدالت اور صداقت کے ساتھ ہوگی۔
6 اُسکے ایام میں یہوؔ داہ نجات پائیگا اور اِسرؔ ائیل سلامتی سے سُکونت کریگا ور اُسکا نام یہ رکھا جائیگا خداوند ہماری صداقت ۔ یرمیاہ 23: 5-6
حضرت یرمیاہ نبی نے اُسی پیشن گوئی کو جاری رکھا۔ جس کو حضرت یسعیاہ نبی نے 150 سال پلے بیان کیا تھا۔ یہ شاخ ایک بادشاہ ہوگا۔ ہم نے یکھا تھا اپنی پچھلے اسباق میں کہ مسیح ایک بادشاہ ہوگا۔ اور اس طرح بادشاہ اور شاخ کے درمیان مشابہت بڑتی جاہی ہے۔
حضرت زکریا اُس شاخ کے نام کے بارے بتاتے ہیں
حضرت زکریا نبی ہمارے لئے پیغامات کو جاری رکھتے ہیں۔ اسرائیل بابلی کی غلامی سے واپسی کے دور 520 ق م میں اسرائیل پر نازل ہوئے۔ لیکن اس عرصے کے دوران اسرائیل پر فارس کی حکومت تھی۔
( حضرت زکریا کو حضرت یحیٰ نبی کے باپ حضرت زکریا کے ساتھ مت ملائیں۔حضرت زکریا نبی حضرت یحیٰ نبی کے والد زکریا سے 500 سال پہلے نازل ہوئے تھے۔ چونکہ حضرت زکریا جو حضرت یحییٰ کے والد تھے اُن کا نام حضرت زکریا تھا۔ لیکن ان دونوں زکریا کا فرق دور تھا۔ جس طرح آج بہت سے لوگوں کا نام محمد ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نام حضرت محمدؐ کی جگہ لے سکتا ہے) اسی دوران (520ق م) یہودیوں نے اپنی تباہ شدہ ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنا شروع کردیا۔ اور حضرت موسیٰ کے بھائی حضرت ہارون کی قربانیوں کے سلسلے کو دوبارہ شروع کردیا۔ حضرت ہارون چونکہ ہیکل میں سردار کاہین تھے۔(اس لیے اُن کی اولاد ہی میں سے کوئی سردار کاہین مقرر ہوا۔) اس زمانے میں یشوع سردار کاہین تھا۔ اس طرح حضرت زکریا 520 ق م میں نبی تھے اور یشوع سردار کاہین تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت زکریا کے وسیلے یشوع کو سردار کاہین مقرر کرتے ہیں۔
8 اب اے یشوع سردار کاہن سُن تُو اور تیرے رفیق جو تیرے سامنے بیٹھے ہیں۔ وہ اس بات کا ایماہیں کہ میں اپنے بندہ یعنی شاخ کو لانے والا ہُوں ۔
9 کیونکہ اُس پتھر کو جو میں نے یُشوع کے سامنے رکھا ہے دیکھ اُس پر سات آنکھیں ہیں۔ دیکھ میں اس پر کندہ کروں گا ربُ الافواج فرماتا ہے اور میں اس مُلک کی بدکرداری کو ایک ہی دن میں دُور گا۔ زکریاہ 3: 8-9
شاخ ایک بار پھر! لیکن اس بار اس کے لیے لفظ میرے خادم لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور اس طرح سردار کاہین یشوع اس شاخ کی مشابہت ہے۔ سردار کاہین یشوع کیسے ایک نشان ہے؟ اور اس کا کیا مطلب ہے کہ ایک ہی دن میں خداوند تمام گناہوں کو دور کردے گا۔(میں مٹا دونگا۔ ۔ ۔ ) ہم حضرت زکریا کی بات کو جاری رکھیں گے اور حیرت انگیز احقاق جانتے جائیں گے۔
9 پھر خُداوند کا کلام مُجھ پر نازل ہوا۔
10 کہ تُو آج ہی خلدی اور طُوبیاہ اور یدعیاہ کے پاس جا جو بابل کے اسیروں کی طرف سے آ کر یُوسیاہ بن صفنیاہ کے گھر میں اُترےہیں۔
11 اور اُن سے سونا چاندی لے کر تاج بنا اور یشوع بن یہُوصدق سردار کاہن کو پہنا۔
12 اور اُس سے کہہ کہ کہ ربُ الافواج یُوں فرماتا ہے کہ دیکھ وہ شخص جس کا نام شاخ ہے اُس کے زیر سایہ خُوش حالی ہو گئی اور وہ خُداوند کی ہیکل کو تعمیر کرے گا۔زکریا 6: 9-12
یاد رکھیں یہاں یشوع کا نام شاخ ہے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ کو یاد ہوگا جب ہم نے "ترجمہ اور لفظی ترجمہ کے بارے میں سیکھا تھا۔ ہم نے انگریزی ترجمہ پڑھا ہے اس لیے یہاں لفظ "یشوع” آیا ہے۔لیکن اصل زبان عبرانی میں کون سا لفظ یا آیا ہے؟ مندرجہ ذیل تصویر ہمیں بتاتی ہے۔
جب ہم حصے اول 1 کی طرف سے حصے تیسرے 3 کی طرف جاتے ہیں۔ (تو ہم کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ "مسیحا” یا "مسیح” کہا سے آیا؟) ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لفظ "یشوع” عبرانی لفظ ‘Yhowshuwa’ "یشوع” سے آیا۔ یہ نام ‘Joshua’ اُس وقت ترجمہ ہوا جب پرانے عہد نامے کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا۔ اس کے علاوہ اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ تورات شریف کا یونانی میں ترجمہ 250 ق م میں ہوا تھا۔جب ہم حصہ نمبر 1 سے حصہ نمبر 2 کی طرف جاتے ہیں۔ تو ان مترجمین نے عبرانی سے یونانی میں نام "Yhowshuwa” کو ترجمہ کیا۔ اُن کا یونانی ترجمہ "عیسوس” Iesous” تھا۔ اس طرح عبرانی کے پرانے عہد نامے کا ترجمہ جب یونانی میں ہوا تو عبرانی کے لفظ "Yhowshuwa” کا ترجمہ یونانی میں Iesous "عیسوس” ہوا۔جب یونانی کے نئے عہد نامے کا ترجمہ انگریزی زبان میں ہوا تو اُس کے یونانی نام Iesous” کا انگریزی میں "Jesus” اور اردو میں یسوع ہوا۔ دوسرے الفاظ میں مسیح =مسیحا =کرائسٹ / مسیح =ممسوع۔
( یشوع = عیسوس = جوشوا = یسوع (= عیسیٰ
‘Yhowshuwa’ = Iesous = Joshua = Jesus (= Isa)
اسی طرح یہ تمام نام Muhammad =محمد ،Joshua =یسوع کیسی زبردست بات ہے کہ ہر کسی کو اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے۔ کہ حضرت عیسیٰ المسیح کے 500 سال پہلے حضرت زکریا نے کہ اُس شاخ کا نام یسوع (عربی میں عیسیٰ) ہوگا۔ یسوع (عیسیٰ) شاخ ہے۔ شاخ اور مسیح دو القاب ایک ہی شخص کے ہیں۔ لیکن کیوں اُن کو دو مختلف ناموں کی ضرورت تھی؟ وہ کیا کرنے جارہاتھا۔ جس کی اس قدر اہمیت تھی؟ زبور شریف کے انبیاء اکرام کے بارے میں مزید جاننے کے لیے زبور شریف کے اگلے مضمون کو پڑھیں۔
بنیادی بات
حضرت عیسیٰ مسیح کا نام الکتاب میں عیسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا نام زبور شریف میں "مسیح” پیشن گوئی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
Do you have your own book regarding about all this ??? If yes let me know what is its name ? And if not then I advice you to make such …
Ramsha, I have not understand what you mean about own book? would you please explain about it thanks a lot
Do you have your own book regarding about all this ??? If yes let me know what is its name ? And if not then I advice you to make such …