Skip to content

حضرت عیسیٰ المسیح کا لعزر کو زندہ کرنے کا مشن

سورہ اد دخان (سورہ 4 4 دھواں) ہم سے کہتا ہے کہ قریش کے  قبیلے (لوگوں) نے انکوذیل  کے دعوے پیش کرتے ہوئے انکے پیغام کا انکار کیا –   

بیشک وہ لوگ کہتے ہیںo کہ ہماری پہلی موت کے سوا (بعد میں) کچھ نہیں ہے اور ہم (دوبارہ) نہیں اٹھائے جائیں گے سو تم ہمارے باپ دادا کو (زندہ کر کے) لے آؤ، اگر تم سچے ہو

44:34-36سورہ اد – دخان

انہوں نے دعوی پیش کیا کہ اپنے پیغام کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے کسی کو مردوں میں سے زندہ کرکے دکھاؤ – سورہ ال – احقاف (سورہ 46 ہوا ریت کے ٹیلے کو موڑ دیا) ایک ایسے ہی دعوے کا بیان کرتا ہے ایک غیر ایماندار سے اسکے ایماندار ماںباپ کو –    

اور جس نے اپنے والدین سے کہا: تم سے بیزاری ہے، تم مجھے (یہ) وعدہ دیتے ہو کہ میں (قبر سے دوبارہ زندہ کر کے) نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکیں۔ اب وہ دونوں (ماں باپ) اللہ سے فریاد کرنے لگے (اور لڑکے سے کہا:) تو ہلاک ہوگا۔ (اے لڑکے!) ایمان لے آ، بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے۔ تو وہ (جواب میں) کہتا ہے: یہ (باتیں) اگلے لوگوں کے جھوٹے افسانوں کے سوا (کچھ) نہیں ہیںo

46:17سورہ ال – احقاف

غیر ایماندا ر قیامت کے عقیدے کو ایک خیالی قصّہ یا فسانہ  سمجھکر اسکو خارج کر دیتا ہے جیسے کہ وہ کبھی ہوا ہی نہیں یا  مستقبل میں کبھی ہوگا ہی نہیں – سورہ اد – دخان اور سورہ ال احقاف دونوں حوالہ جات کو غیر ایماندار لوگ مردوں مے سے جلے جانے کی جانچ کے لئے استعمال کرتے ہیں تاکہ حضرت محمّد صلّعم کو اور تمام واحد خدا پرستوں کے بنیادی ایمان کی جانچ پڑتال کرے – نبی حضرت عیسی ال مسیح کو بھی اپنی قوم کے لوگوں کے زریعے اسی طرح کی جانچ سے گزرنا پڑا – انہوں نے اس جانچ کو اپنے اختیار کی نشانی بطور اور اپنی خدمت گزاری کے لئے ایک خاص مقصد بطور استعمالکیا —      

حضرت عیسی ال مسیح کی خدمت گزاری کیا تھی ؟

حضرت عیسیٰ المسیح نے لوگوں کو تعلیم اور شفا دی اور اس کے ساتھ اُنہوں نے بہت سارے معجزات بھی کئے۔ لیکن ایک سوال اُن کے حواریوں کے ذہین میں رہا۔ اس کے علاوہ آپ کے دشمن یہ سوچتے رہے کہ آپ کیوں اس دنیا میں آئے؟۔ بہت سے انبیاءاکرام نے معجزات کئے اور حضرت موسیٰ نے حیرت انگیز معجزات فرمائے۔ تاہم حضرت موسیٰ کو پیشتر سے ہی شریعت مل چکی تھی، اور حضرت عیسیٰ المسیح نے فرمایا تھا کہ "میں شریعت کو منسوخ کرنے نہیں آیا”۔ تو پھر آپ کو اللہ تعالیٰ نے کیس کام کے لیے بھیجا تھا؟

حضرت عیسیٰ المسیح کا دوست بیمار پڑگیا۔ آپ کے شاگرد توقع کرتے تھے۔ کہ اپنے دوست کو شفا فرما دیئے گے۔ جیسا کہ آپ نے بہت سارے لوگوں کو شفا دی تھی۔ لیکن حضرت عیسیٰ المسیح نے جان بوجھ کر اپنے دوست کو شفا نہ دی۔ اور آپ نے اس طرح اپنے مشن کو لوگوں پرظاہر کیا۔ انجیل مقدس میں اس کے بارے میں اس طرح لکھا ہے۔

حضرت عیسیٰ المسیح کا موت کے ساتھ آمنا سامنا

‘مریم اور اُس کی بہن مر تھا کے گاؤں بَیت عَنِیّا ہ کا لعزر نام ایک آدمی بِیمار تھا۔ یہ وُہی مر یم تھی جِس نے خُداوند پر عِطر ڈال کر اپنے بالوں سے اُس کے پاؤں پونچھے ۔ اِسی کا بھائی لعزر بِیمار تھا۔ پس اُس کی بہنوں نے اُسے یہ کہلا بھیجا کہ اَے خُداوند ! دیکھ جِسے تُو عزِیز رکھتا ہے وہ بِیمار ہے۔ یِسُو ع نے سُن کر کہا کہ یہ بِیماری مَوت کی نہیں بلکہ خُدا کے جلال کے لِئے ہے تاکہ اُس کے وسِیلہ سے خُدا کے بیٹے کا جلال ظاہِر ہو۔ اور یِسُو ع مرتھا اور اُس کی بہن اور لعزر سے مُحبّت رکھتا تھا۔ پس جب اُس نے سُنا کہ وہ بِیمار ہے تو جِس جگہ تھا وہِیں دو دِن اَور رہا۔ پِھر اُس کے بعد شاگِردوں سے کہا آؤ پِھر یہُودیہ کو چلیں۔ شاگِردوں نے اُس سے کہا اَے ربیّ! ابھی تو یہُودی تُجھے سنگسار کرنا چاہتے تھے اور تُو پِھر وہاں جاتا ہے؟۔ یِسُو ع نے جواب دِیا کیا دِن کے بارہ گھنٹے نہیں ہوتے؟ اگر کوئی دِن کو چلے تو ٹھوکر نہیں کھاتا کیونکہ وہ دُنیا کی رَوشنی دیکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی رات کو چلے تو ٹھوکر کھاتا ہے کیونکہ اُس میں رَوشنی نہیں۔ اُس نے یہ باتیں کہِیں اور اِس کے بعد اُن سے کہنے لگا کہ ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے لیکن مَیں اُسے جگانے جاتا ہُوں۔ پس شاگِردوں نے اُس سے کہا اَے خُداوند! اگر سو گیا ہے تو بچ جائے گا۔ یِسُو ع نے تو اُس کی مَوت کی بابت کہا تھا مگر وہ سمجھے کہ آرام کی نِیند کی بابت کہا۔ تب یِسُو ع نے اُن سے صاف کہہ دِیا کہ لعزر مَر گیا۔ اور مَیں تُمہارے سبب سے خُوش ہُوں کہ وہاں نہ تھا تاکہ تُم اِیمان لاؤ لیکن آؤ ہم اُس کے پاس چلیں۔ پس توما نے جِسے توام کہتے تھے اپنے ساتھ کے شاگِردوں سے کہا کہ آؤ ہم بھی چلیں تاکہ اُس کے ساتھ مَریں۔ پس یِسُو ع کو آ کر معلُوم ہُؤا کہ اُسے قَبر میں رکھّے چار دِن ہُوئے۔ بَیت عَنِیّا ہ یروشلِیم کے نزدِیک قرِیباً دو مِیل کے فاصِلہ پر تھا۔ اور بُہت سے یہُودی مرتھا اور مریم کو اُن کے بھائی کے بارے میں تسلّی دینے آئے تھے۔ پس مر تھا یِسُو ع کے آنے کی خبر سُن کر اُس سے مِلنے کو گئی لیکن مر یم گھر میں بَیٹھی رہی۔ مر تھا نے یِسُو ع سے کہا اَے خُداوند! اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مَرتا۔ اور اب بھی مَیں جانتی ہُوں کہ جو کُچھ تُو خُدا سے مانگے گا وہ تُجھے دے گا۔ یِسُو ع نے اُس سے کہا تیرا بھائی جی اُٹھے گا۔ مر تھا نے اُس سے کہا مَیں جانتی ہُوں کہ قِیامت میں آخِری دِن جی اُٹھے گا۔ یِسُو ع نے اُس سے کہا قِیامت اور زِندگی تو مَیں ہُوں ۔ جو مُجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مَر جائے تَو بھی زِندہ رہے گا۔ اور جو کوئی زِندہ ہے اور مُجھ پر اِیمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مَرے گا ۔ کیا تُو اِس پر اِیمان رکھتی ہے؟۔ اُس نے اُس سے کہا ہاں اَے خُداوند مَیں اِیمان لا چُکی ہُوں کہ خُدا کا بیٹا مسِیح جو دُنیا میں آنے والا تھا تُو ہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور چُپکے سے اپنی بہن مریم کو بُلا کر کہا کہ اُستاد یہِیں ہے اور تُجھے بُلاتا ہے۔ وہ سُنتے ہی جلد اُٹھ کر اُس کے پاس آئی۔ (یِسُو ع ابھی گاؤں میں نہیں پُہنچا تھا بلکہ اُسی جگہ تھا جہاں مر تھا اُس سے مِلی تھی)۔ پس جو یہُودی گھر میں اُس کے پاس تھے اور اُسے تسلّی دے رہے تھے یہ دیکھ کر کہ مریم جلد اُٹھ کر باہر گئی ۔ اِس خیال سے اُس کے پِیچھے ہو لِئے کہ وہ قبر پر رونے جاتی ہے۔ جب مر یم اُس جگہ پُہنچی جہاں یِسُو ع تھا اور اُسے دیکھا تو اُس کے قَدموں پر گِر کر اُس سے کہا اَے خُداوند اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مَرتا۔ جب یِسُو ع نے اُسے اور اُن یہُودِیوں کو جو اُس کے ساتھ آئے تھے روتے دیکھا تو دِل میں نِہایت رنجِیدہ ہُؤا اور گھبرا کر کہا۔ تُم نے اُسے کہاں رکھّا ہے؟ اُنہوں نے کہا اَے خُداوند! چل کر دیکھ لے۔ یِسُو ع کے آنسُو بہنے لگے۔ پس یہُودِیوں نے کہا دیکھو وہ اُس کو کَیسا عزِیز تھا۔ لیکن اُن میں سے بعض نے کہا کیا یہ شخص جِس نے اندھے کی آنکھیں کھولِیں اِتنا نہ کر سکا کہ یہ آدمی نہ مَرتا؟۔ یِسُو ع پِھر اپنے دِل میں نِہایت رنجِیدہ ہو کر قبر پر آیا ۔ وہ ایک غار تھا اور اُس پر پتّھر دَھراتھا۔ یِسُو ع نے کہا پتّھر کو ہٹاؤ ۔ اُس مَرے ہُوئے شخص کی بہن مر تھا نے اُس سے کہا ۔ اَے خُداوند! اُس میں سے تو اب بدبُو آتی ہے کیونکہ اُسے چار دِن ہو گئے۔ یِسُو ع نے اُس سے کہا کیا مَیں نے تُجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تُو اِیمان لائے گی تو خُدا کا جلال دیکھے گی؟۔ پس اُنہوں نے اُس پتّھر کو ہٹا دِیا ۔ پِھر یِسُو ع نے آنکھیں اُٹھا کر کہا اَے باپ مَیں تیرا شُکر کرتا ہُوں کہ تُو نے میری سُن لی۔ اور مُجھے تو معلُوم تھا کہ تُو ہمیشہ میری سُنتاہے مگر اِن لوگوں کے باعِث جو آس پاس کھڑے ہیں مَیں نے یہ کہا تاکہ وہ اِیمان لائیں کہ تُو ہی نے مُجھے بھیجا ہے۔ اور یہ کہہ کر اُس نے بُلند آواز سے پُکارا کہ اَے لعزر نِکل آ۔ جو مَر گیا تھا وہ کفَن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہُوئے نِکل آیا اور اُس کا چِہرہ رُومال سے لِپٹا ہُؤا تھا ۔ یِسُو ع نے اُن سے کہا اُسے کھول کر جانے دو۔ ‘ یُوحنّا 11:1-44

آپ کے دوست کی بہنیں یہ توقع کررہیں تھیں۔ کہ حضرت عیسیٰ المسیح جلدی آئیں گے اور اُن کے بھائی کواچھا کردیں گے۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے جان بوجھ کر دیر لگا آئی اور لعزر کو مرنے دیا۔ اورکوئی نہیں یہ جانتا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ لیکن اس واقعہ میں ہم یہ دیکھ سکتے ہیں۔ کہ آپ کا دل اس سے اداس تھا اور آپ غصے میں تھے۔ لیکن آپ کا غصہ کس پر تھا؟ اپنے دوست کی بہنوں پر؟ یا ہجوم پر؟ شاگردوں پر؟ یا پھر اپنے دوست لعزر پر؟ نہیں، بلکہ آپ کا غصہ موت پر تھا۔ انجیل شریف میں صرف دو بار آیا ہے۔ کہ آپ روئے۔ آپ کیوں روئے؟ کیونکہ یہ کہ آپ کا دوست موت کے قبضہ میں تھا۔ آپ کا موت پر غصہ اور پھر دوست کی جدائی نے آپ کے جذبات کو ہلادیا۔ آپ کی آنکھوں میں آنسوانسان کی بے بسی دیکھ کرآئے۔

بیماری سے شفا پانے کا مطلب ہے۔ کہ موت کو ملتوی کرنا۔ صحت مند ہو یا بیمار موت آخرکار سب کو آئے گی۔ چاہے لوگ اچھے ہو یا بُرے، عورت ہو یا مرد، بوڑھا ہو یا جوان، مذہبی ہو یا نہ سب موت کا مزہ چکھیں گے۔ یہ سچ ہے جب سے حضرت آدم نے قرآن شریف اور تورات شریف کے مطابق اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اس کی وجہ سے آدم فانی بن گیا۔ اس کے تمام بیٹے بیٹیاں اس میں آپ اور میں بھی شامل ہیں۔ سب کے اُوپر اُس کے دشمن نے قبضہ کررکھا ہے۔ جو کہ موت ہے۔ موت کے خلاف ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اور ہم نااُمید ہے۔ جب کوئی بیمار پڑجاتا ہے۔ تو اُس وقت ہمارے پاس اُمید ہوتی ہے۔ اس لیے لعزر کی بہنیں اُمید کرتی تھیں کہ اُن کا بھائی شاید شفاپا جاتا۔ لیکن جب وہ مر گیا تو وہ نااُمید ہوگئیں۔ یہ ہمارے لیے بھی حقیقت ہے۔ ہسپتال میں لوگ شفا کی اُمید کرتے ہیں لیکن جنازہ واالے دن کوئی شفا کی اُمید نہیں کرتا۔ موت ہماری دشمن ہے۔ حضرت عیسیٰ المسیح اس لیے آئے تاکہ موت کو شکست دیئے سکیں۔ اور اسلئے حضرت عیسیٰ المسیح نے اُسکی بہنیوں کو یہ بیان سُنا دیا تھا۔

قیامت اور زندگی میں ہوں. یوحنا 11: 25

حضرت عیسیٰ المسیح موت کو شکست/تباہ کرنے آئے تھے۔ اور اُن سب کو زندگی دینے آئے تھے جو اُنکے وسیلے زندگی چاہتے تھے۔ آپ کا مشن تھا کہ عام لوگوں کے سامنے لعزر کو زندہ کرکے اپنے اس اختیار کو ظاہر کریں۔ آپ نے ہراُس کو زندگی کی پیشکش کی ہے۔ ہر جو موت کی بجائے زندگی چاہتا ہے۔

حضرت عیسیٰ المسیح کا جواب

اگرچہ موت ہماری حتمی دشمن ہے۔ لیکن ہم میں سے بہت سے چھوٹے دشمنوں کے جال میں پھنسے ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ (سیاست، مذاہبی، اور نسلی وغیرہ) ہماری پوری زندگی میں ایک تنازعہ سا رہتا ہے۔ یہ سچائی حضرت عیسیٰ المسیح کے وقت بھی تھا۔ ان معجزات کی گواہیوں میں سے ہم اس بات کو جان سکتے ہیں۔ کہ اُس وقت لوگوں کی بنیادی تشویش کیا تھی۔ یہاں اس کے بارے میں مختلف ردعمل درج ہیں۔

‘پس بُہتیرے یہُودی جو مر یم کے پاس آئے تھے اور جِنہوں نے یِسُو ع کا یہ کام دیکھا اُس پر اِیمان لائے۔ مگر اُن میں سے بعض نے فرِیسِیوں کے پاس جا کر اُنہیں یِسُو ع کے کاموں کی خبر دی۔ پس سردار کاہِنوں اور فرِیسِیوں نے صَدرعدالت کے لوگوں کو جمع کر کے کہا ہم کرتے کیا ہیں؟ یہ آدمی تو بُہت مُعجِزے دِکھاتا ہے۔ اگر ہم اُسے یُوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر اِیمان لے آئیں گے اوررومی آ کر ہماری جگہ اور قَوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے۔ اور اُن میں سے کائِفا نام ایک شخص نے جو اُس سال سردار کاہِن تھا اُن سے کہا تُم کُچھ نہیں جانتے۔ اور نہ سوچتے ہو کہ تُمہارے لِئے یِہی بِہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مَرے نہ کہ ساری قَوم ہلاک ہو۔ مگر اُس نے یہ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ اُس سال سردار کاہِن ہو کر نبُوّت کی کہ یِسُو ع اُس قَوم کے واسطے مَرے گا۔ اور نہ صِرف اُس قَوم کے واسطے بلکہ اِس واسطے بھی کہ خُدا کے پراگندہ فرزندوں کو جمع کر کے ایک کر دے۔ پس وہ اُسی روز سے اُسے قتل کرنے کا مشوَرہ کرنے لگے۔ پس اُس وقت سے یِسُو ع یہُودِیوں میں عِلانِیہ نہیں پِھرابلکہ وہاں سے جنگل کے نزدِیک کے عِلاقہ میں اِفرائِیم نام ایک شہر کو چلا گیا اور اپنے شاگِردوں کے ساتھ وہِیں رہنے لگا۔ اور یہُودِیوں کی عِید ِفَسح نزدِیک تھی اور بُہت لوگ فسح سے پہلے دِیہات سے یروشلِیم کو گئے تاکہ اپنے آپ کو پاک کریں۔ پس وہ یِسُو ع کو ڈُھونڈنے اور ہَیکل میں کھڑے ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ تُمہارا کیا خیال ہے؟ کیا وہ عِید میں نہیں آئے گا؟۔ اور سردار کاہِنوں اور فرِیسِیوں نے حُکم دے رکھّا تھا کہ اگر کِسی کو معلُوم ہو کہ وہ کہاں ہے تو اِطلاع دے تاکہ اُسے پکڑ لیں۔’ یُوحنّا 11: 45-57

کشیدگی اُس وقت پیدا ہوئی۔ جب حضرت عیسیٰ المسیح نے اس بات کا اعلان کیا۔ کہ "قیامت” اور "زندگی” میں ہوں اور اُنہوں نے موت کو وہ خود شکست دی ۔ جب مذہبی راہنماوں نے یہ سُنا تو آپ کو مار دینے کی سازش شروع کردی۔ اس واقع کے دوان ہی بہت سے لوگوں آپ پر ایمان لیے آئے۔ لیکن بہت سارے اس کشمکش میں پڑگے کے ایمان لائیں یا نہ لائیں۔ اس موقع پر اگر ہم بھی وہاں ہوتے اور لعزر کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھتے تو یقیناً یہ سوال ضرور کرتے کہ ہمیں کس بات کا چُناو کرنا ہے۔ کیا ہم فریسیوں (مذہبی لیڈروں) جیسا برتاو کرتے اور ہماری توجہ تنازعات پر مرکوز ہوتی اور بعد میں اس تاریخ واقعہ کو بول جاتے ۔ اور زندگی کی پیشکش کو کھودیتے؟ یا پھر ہم حضرت عیسیٰ المسیح پر ایمان لیے آتے اور اُن (قیامت) زندہ کردینے والی قدرت پر اُمید رکھتے۔ اگرچہ ہم اس کے بارے پوری سمجھ نہیں رکھتے۔ انجیل مقدس میں اس کے ردعمل کے مختلف بیانات درج ہیں۔ اور آج بھی بلکل اُسی طرح کا ردعمل پایا جاتا ہے۔

اس طرح کے متنازعات فسح کے موقع کے قریب بڑھ رہیں تھے۔ یہ ایک ایسا تہوار تھا۔ جس کو حضرت موسیٰ نے 1500 پہلے ایک نشان کے طور پر شروع کیا جس کا مطلب "موت سےبچ جانا” تھا۔ انجیل مقدس میں اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ کس طرح حضرت عیسیٰ المسیح نے اپنے اس مشن کو پورا کیا اور موت کو اُسکی حدود میں جاکر شکست دی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے