Skip to content

امن کی بادشاہی آرہی ہے

  • by

قرآن شریف کی آخری سورة ، سورة الناس (سورة الناس 114- انسانیت) بیان کرتی ہے۔

کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں
یعنی لوگوں کے حقیقی بادشاہ کی
سورة الناس 114: 1-2

خدا کی بادشاہی کیسی ہے؟ سورة الکوثر 118 -) ہمیں اس کا جواب دیتی ہے۔اللہ تعالی حاکم اعلیٰ ہے یا انسانیت کا ہے۔ اگر وہ بادشاہ ہے تو پھر اُس کی ایک بادشاہت ہونی چاہیے۔

ہم نے تم کو کوثر (کثرت) عطا فرمائی ہے
سورة الکوثر 108: 1

چونکہ بادشاہ کثرت عطا کرتا ہے ، اسی طرح بادشاہی میں کثرت میں ہونا ضروری ہے۔
لیکن یہ کس طرح کی کثرت ہے؟ یہ بات زبور شریف میں انبیاہ پر نازل ہوئی۔

ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت یسعیاہ نبی نے "کنواری کے بیٹے” کی پیشن گوئی کی ہے۔ یہ پیشن گوئی سینکڑوں سال بعد حضرت عیسیٰ میں کی پیدائش پر پوری ہوئی۔ تاہم زبور شریف میں مستقبیل میں امن اور سلامتی کے بارے اور بھی پیشن گوئیاں کی گئیں ہیں۔

بنی اسرائیل کی تاریخ میں حضرت داود پہلے بادشاہ اور بنی تھے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے خود مقرر کیا۔ تاکہ وہ یروشلیم سے حکمرانی کریں۔ تاہم حضرت داود اور حضرت سلیمان کی بادشاہی کے بعد اسرائیل کے زیادہ تر بادشاہ شریر ہوئے۔ اُن بادشاہوں کی حکمرانی میں زندہ رہنا۔ ایسا ہی تھا جیسا آج ہم ظالم حکمرانوں کے دور میں رہ رہے ہیں۔ اُس وقت لوگوں اور قوموں کے درمیان جنگ و جدل تھا۔ جس طرح آج ہے۔ اُس وقت امیر غریبوں کا استحصال اور کرپشن کرتے تھے۔ جیسے آج ہوتا ہے۔ لیکن زبور شریف میں انبیاءاکرام نے کہا کہ متستقبیل میں ایک نئی حکومت آئے گی۔ جس میں انصاف، رحم، محبت اور امن قائم ہوگا۔ درج زیل آیات میں پڑھیں کہ حضرت یسعیاہ نبی نے آنے والی زندگی کے بارے میں کیا بتایا ہے۔

 اورقوموں کے درمیان عدالت کریگا اور بہت سی اُمتوں کو ڈانٹے گااور وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوے بنا ڈالینگے اور قوم قوم پر تلوار نہ چلائے گی اور وہ پھرکبھی جنگ کرنا نہ سیکھیں گے۔                                              یسعیاہ 2: 4

 پھر مزید جنگ نہیں ہوگی۔ درحقیقت آج جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں۔ یہ ہماری دنیا نہیں ہے۔ لیکن آنے والی دنیا میں قوموں کے درمیان امن اختیارکیا جائے گا۔ اور اس کے ساتھ قدرتی ماحولیات میں تبدیلی کے بارے میں پیشن گوئیاں بھی کی گئیں ہیں۔

6  پس بھیڑیا، بّرہ کے ساتھ رہیگا اور چیتا بکری کے بچے کے ساتھ بیٹھے گا اور بچھڑا اور شیر بچہ اور پلا ہوا بیل مل جل کر رہینگے اور ننھا بچہ انکی پیش روی کریگا۔
7 گائے اور ریچھنی ملکر چرینگی ۔ انکے بچے اکٹھے بیٹھیں گے اور شیر ببر بیل کی طرح بھوسا کھائیگے۔
8 اوردودھ پیتا بچہ سانپ کی بل کے پاس کھیلے گا اور وہ لڑکا جسکا دودھ چھڑایا گیا ہو افعی کی بل میں ہاتھ ڈالیگا۔
9  وہ میرے تمام کوہ مقدس پر نہ ضررپہچائینگے نہ ہلاک کریں گے کیونکہ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اسی طرح زمین خداوند کےعرفان سے معمور ہو گی۔
10 اور اسوقت یوں ہو گا کہ لوگ یسی کی اُس جڑ کےطالب ہونگے جو لوگوں کے لیے ایک نشان ہے اوراسکی آرامگاہ جلالی ہو گی۔
11  اور اسوقت یوں ہو گا کہ خداوند دوسری بار اپنے ہاتھ بڑھائیگا کہ اپنے لوگوں کا بقیہ جو بچ رہا ہو اسور اور مصر اور فتروس اور کوش اور عیلام اورسنعار اور حمات اور سمندر کے اطراف سے واپس لائے ۔                                                                       یسعیاہ 11: 6-9

یقینی طور پر یہ پیشن گوئی ابھی پوری نہیں ہوئی۔ یہ پیشن گوئیاں نہ صرف بہتر ماحولیات کے بارے میں بتاتی ہیں۔ بلکہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ لوگوں کی عمروں میں اضافہ ہوگا اور لوگوں کی ذاتی  سیکورٹی اب سے بہتر ہوگی۔

20  پھر کبھی وہاں کوئی ایسا لڑکا نہ ہو گا جو کم عمر رہے اور نہ کوئی ایسا بوڑھا جو اپنی عمر پوری نہ کرے کیونکہ لڑکا سو برس کا ہو کر مرے گا اور جو گنہگار سو برس کا ہوجائے ملعون ہو گا۔
21 وہ گھر بنائیں گے اور ان میں بسیں گے۔تاکہ کستان لگائیں گے اور ان کے میوے کھائیں گے ۔
22  نہ کہ وہ بنائیں اور دوسرا بسے۔ وہ لگائیں اور دوسرا کھائیں کیونکہ میرے بندوں کے ایام درخت ایام کی مانند ہوں گے اور میرے برگزیدے اپنے ہاتھوں کے کام سے مدتوں تک فائدہ اُ ٹھا ئیں گے۔
23 ان کی محنت بے سود نہ ہو گی اور اُن کی اولاد ناگہان ہلاک نہ ہو گی کیونکہ وہ اپنی اولاد سمیت خداوندا کے مبارک لوگوں کی نسل ہیں۔
24 اور یوں ہوگا کہ میں ان کے پکارنے سے پہلے جواب دوں گا اور وہ ہنوز کہہ نہ چکیں گے کہ میں سن لوں گا۔
25 بھیڑیا اور برہ اکھٹے چریں گے اور شیر ببر بیل کی مانند بھوسا کھائے گا اور سانپ کی خوراک خاک ہوگی۔وہ میرے تمام کوہ مقدس پر نہ ضرر پہنچائیں گے نہ ہلاک کریں گے خداوند فرماتا ہے۔                                                                                             یسعیاہ 65: 20-25

سلامتی، امن اور دعا کا فوری جواب ۔ ۔ ۔ ان میں سے ابھی کوئی بھی پیشن گوئی پوری نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ بتائی اور لکھی جاچکی ہیں۔ بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں۔ شاید اُمید کی ان پیشن گوئیوں میں کوئی غلطی پائی جاتی ہے۔ لیکن کنواری کے بیٹے کی نشانی ہمیں ان پیشن گوئیوں کے بارے میں سنجیدہ سوچنے اور اُن کی تکمیل کے لیے طلب رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی بادشاہی

اگر ہم اس پر زور ڈالیں۔ تو ہم اس کو سمجھ سکیں گے۔ کہ یہ پیشن گوئیاں ابھی کیوں پوری نہیں ہوئی ہیں۔ یہ پیشن گوئیاں اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کے بارے میں واضع کرتی ہیں۔ کہ لوگوں کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی حکمرانی ہوگی۔ زبور شریف میں سے اللہ تعالیٰ کی آنے والی حکمرانی کے بارے میں ایک اور پیشن گوئی درج ذیل ہے۔

10 اَے خُداوند! تیری ساری مخلوق تیرا شُکر کریگی۔ اور تیرے مُقّدس تجھے مُبارِک کہیں گے۔
11 اور تیری سلطنت کے جلال کا بیان اور تیری قُدرت کا چرچا کریں گے۔
12 تاکہ بنی آدم پر اُسکی قُدرت کے کاموں کو اور اُسکی سلطنت کے جلال کی شان کو ظاہر کریں۔
13 تیری سلطنت ابدی سلطنت ہے۔ اور تیری حکومت پُشت در پُشت۔
14 خُداوند گِرتے ہوئے کو سنبھالتا اور جھُکے ہوئے کو اُٹھا کھڑا کرتا ہے۔

                                                                                                زبور 145: 10-14

یہ پیغام حضرت داود بادشاہ اور جو ایک نبی بھی تھے۔ اُن کو 100 ق م میں دیا گیا تھا۔ (حضرت داود کی حیات کے بارے میں یہاں پر کک کریں) یہ پیشن گوئی اس کے بارے میں واضع کرتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی بادشاہی واضع طور پر قائم ہوجائے گی۔ یہ بادشاہی شاندار اور جلالی ہوگی۔ اور یہ عارضی بادشاہی نہیں ہوگی۔ جیسے ہمارے ہاں عام حکومتوں کی ہوتی ہے۔ یہ ابدی ہوگی۔ اس لیے یہ ابھی واقع نہیں ہوئی۔ اس کے لیے ہم نے دوسری پیشن گوئی کو نہیں دیکھا جو امن اور اطمینان لائیں گی۔ کیونکہ وہ خدا کی بادشاہی میں پوری ہونگی۔

زبور شریف میں ایک اور نبی جن کا نام حضرت دانیال ہے۔ وہ تقریباً 550 سال ق م بابل میں اسرائیلوں کے ساتھ جلاوطن ہوکر چلے گے۔ اُنہوں نے واضع کیا ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کا قیام ہوگا۔

حضرت دانیال کا زمانہ زبور شریف میں دوسرے انبیاء اکرام کے ساتھ

حضرت دانیال کا زمانہ زبور شریف میں دوسرے انبیاء اکرام کے ساتھ

حضرت دانیال نبی نے بابلی بادشاہ کے خوابوں کی تعبیر اللہ تعالیٰ کی مدد سے کی۔ اور مستقبیل میں آنے والے بادشاہوں کے بارے میں پیشن گوئی کی۔ یہاں پر بابلی بادشاہ کے سامنے حضرت دانیال خواب کی تعبیر کرتا ہے۔

36 وہ خُواب یہ ہے اور اُس کی تعبیر بادشاہ کے حُضور بیان کرتا ہُوں۔
37 اے بادشاہ تو شہنشاہ ہے جس کو آسمان کے خُدا نے بادشاہی و توانائی اور قدرت و شوکت بخشی ہے۔
38  اور جہاں کہیں بنی آدم سکُونت کرتے ہیں اس نے میدان کے چرندے اور ہوا کے پرندے تیرے حوالہ کر کے تجھ کو اُن سب کا حاکم بنایا ہے۔وہ سونے کا سر تو ہی ہے۔
39  اور تیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہوگی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اُس کے بعد ایک اور سلطنت تابنے کی جو تمام زمین پر حکُومت کرے گی۔
40  اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضُبوط ہو گی اور جس طرح لوہا توڑڈالتا ہے اور سب چیزیں پر غالب آتا ہے ہاں جس طرح لوہاسب چیزوں کو ٹکڑے ٹکرے کرتا اور کُچلتا ہے اُسی طرح وہ ٹکرے ٹکرے کرے گی اور کُچل ڈالے گی۔
41  اور جُو تونے دیکھا کہ اُس کے پاوں اور اُنگلیاں کُچھ تو کمہار کی مٹی کی اور کُچھ لوہے کی تھیں سو اُس سلطنت میں تفرقہ ہو گا مگر جیسا کہ تونے دیکھا کہ اُس میں لوہا مٹی سے ملا ہوا تھا اُس میں لوہے کی مُضبوطی ہوگی۔
42 اور چُونکہ پاوں کی اُنگلیاں کُچھ لوہے کی اور کُچھ مٹی کی تھیں اس لئے سلطنت کُچھ قوی اور کُچھ ضیعف ہو گئی۔
43  اور جیسا تونے دیکھا کہ لوہا مٹی سے ملا ہُوا تھا وہ بنی آدم سے آمخیتہ ہوں گےلیکن جیسے لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا ویسے ہی وہ بھی باہم میل نہ کھائیں گے۔
44  اور اُن بادشاہوں کے ایّام میں آسمان کا خُدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہو گی بلکہ وہ ان تمام مُملکتوں کو ٹکرے ٹکرے اور نیست کرے گی اور وُہی ابد تک قائم رہے گی۔
45  جیسا تو نے دیکھا کہ وہ پھتر ہاتھ لگائے بغیر ہی پہاڑ سے کاٹا گیا اور اُس نے لوہے اور تابنے اور مٹی اور چاندی اور سونے کو ٹکرے ٹکرے کیا خُدا تعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یقنیی ہے اور اس کی تعبیر یقینی۔

                                                                                      دانی ایل 2: 36-45

  1. یہ بادشاہت ابتدا میں چھوٹی ہوگی ( ایک چٹان سے ایک چھوٹا پتھر کاٹا جائے گا) لیکن یہ چھوٹی حکومت ابد تک قائم رہے گی۔ جس طرح حضرت داود کے زبور 145 میں پیشن گوئی میں بیان کیا گیا ہے۔ اور اس بادشاہت کو کیوں اتنی زیادہ دیر لگ رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ کیوں اتنی آہستہ آہستہ اپنی بادشاہت کو قائم کرے گا؟ جب ہم اس کے بارے سوچتے ہیں۔ تو چند اجزاء ذہین میں آتے ہیں جو سب بادشاہتوں میں پائے جاتے ہیں۔ جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
  • ایک بادشاہ
  • شہری
  • آئین/ شریعت
  • فطرت/ قدرت

آئیں یہاں مثال کے طور پر کینڈا کو لیتے ہیں۔ جہاں میں اس بادشاہت میں رہتا ہوں۔ کینڈا کا موجودہ حکمران جسٹن ٹروٹو ہے۔ جو کہ ہمارا منتخب وزیرِاعظم ہے۔ کینڈا کے شہری ہیں جن میں سے میں ایک ہوں ۔ کینڈا کا آئین ہے۔ جو شہریوں کو اُن کی زمہ داری اور حقوق کا تعین کرواتا ہے۔ کینڈا کی ایک قدرتی ماحول بھی ہے۔ اس معاملے میں یہ ایک مخصوص جگہ پرواقع ہے۔ جس کا ایک طبعی سائز، آب و ہوا اور قدرتی و سائل ہیں۔ ماضی اور حال کے تمام ممالک کے پاس یہ چار اجزاء ہوتے ہیں۔

مجھے اورآپ کو اللہ تعالیٰ اپنی بادشاہت میں دعوت دیتا ہے

یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی ہے۔ جس کو ہم نے ان پیشن گوئیوں کے زریعے جانا ہے۔ کہ اس حکومت کی خاص قسم کی فطرت (قدرتی ماحول) ہے۔ (وہ جلالی اور ابدی ہے) اور ایک آئین (اُس میں سلامتی، امن، قدرت میں ہم آہنگی) ہے۔ اس کے ساتھ دو اور اجزاء ہیں۔ بادشاہ اور شہری جومل کر خدا کی بادشاہی کو بناتے ہیں۔ ہم اگلے مضمون میں بادشاہ کے بارے میں جانیں گے۔ اس لمحے شاید آپ اپنے آپ سے یہ سوال پوچھ رہے ہونگے۔ کہ میں کیسے خدا کی بادشاہی کا شہری بن سکتا ہوں ؟ شاید یہ آپ اس وقت ایک پیاسے شخص کی مانند بنا رہا ہے۔ جس کو آپ بجھانا چاہتے ہیں۔ یہاں پر حضرت یسعیاہ نبی اس پیغام کے زریعے اُن لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جو اُس بادشاہت کے شہری بننا چاہتے ہیں۔

1 اے سب پیاسوں پانی کے پاس آؤ اور وہ بھی جس کے پاس پیسہ نہ ہو۔آؤ مول لو اور کھاؤ۔ہاں آؤ اور دودھ بے زر اور بے قیمت خریدو۔
2 تم کس لئے اپنا روپیہ ٓس چیز کے لئے جو روٹی نہیں اور اپنی محنت اس چیز کے واسطے جو آسودہ نہیں کرتی خرچ کرے ہو؟تم غور سے میری سنو اور وہ چیز جو اچھی ہےکھائو اور تمہاری جان فربہی سے لزت اٹھائے۔
3 کان لگائو اور میرے پاس ائو سُنواور تمہاری جان زندہرہے گی اور مین تم کو ابد عہد یعنی داود کی سچی نعمتیں بخشوں گا۔
4 دیکھو میں نےاُسےامتوں ک لئے گواہ کیا بلکہ امتوں کا پشیوا اور فرما روا۔
5 دیکھ تو ایک ایسی قوم کوجسے تو نہیں جانتا بلائے گااور ایک ایسی قوم جو نہیں جانتی تھی۔ خُداوند تیرے خدا اور اسرایئل کے قدوس کی خاطر تیرے پاس دوڑی آئے گی کیونکہ اُس نے تجھے جلال بخشا ہے۔
6 جب تک خُداوندمل سکتا ہے اس کے طلب ہو۔ جب تک وہ نزدیک ہے اس پکارو۔

                                                                             یسعیاہ 55: 1-6

اللہ تعالیٰ اُن سب کو دعوت دیتا ہے جو اُسکی بادشاہت کے پیاسے ہیں۔ قدیم میں جو محبت حضرت داود کے ساتھ کی گئی۔ اُس کو سب کے ساتھ بڑھائی جائے گی۔ اگر ابھی تک آپ اس دعوت نامہ کو حاصل نہیں کیا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ہے کہ یہ دعوت نامہ آپ کے پاس نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دعوت دے رہا ہے۔ اور وہ چاہتا ہے۔ کہ ہم اُس کی بادشاہت کے شہری بن جائیں۔ تاہم اس لمحے شاید آپ کے پاس سوال ہوں۔ کہ "کیسے” اور "کب "خدا کی بادشاہت آئے گی؟ جس کو زبور شریف میں اگلے مضمون میں پڑھیں گے۔ لیکن یہاں ایک اور سوال ہے۔ اس کا جواب صرف آپ دے سکتے ہیں۔ کیا میں اس آنے والی بادشاہت کا شہری بننا چاہتے ہوں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے