Skip to content

خواب دیکھنے وا لایوسف

37 یعقوب ملک کنعان میں سکونت پذیر ہوا۔اُس کا باپ بھی اُسی ملک میں رہتا تھا۔ یعقوب کی خاندانی تاریخ درج ذیل ہے۔

یو سف سترہ سال کا کڑیل جوان تھا۔ بھیڑ بکریاں پالنا اُس کا پیشہ تھا۔ اپنے بھا ئیوں یعنی بلہا ہ اور زلفہ کے بیٹوں کے ساتھ بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔ یو سف اپنے باپ کو اپنے بھا ئیوں کی بُری حرکتوں کے با رے میں کہہ دیا۔ اسرائیل ( یعقوب ) چونکہ بہت زیادہ عمر کو پہنچا تھا کہ یوسف پیدا ہو ئے جس کی وجہ سے اسرائیل اپنے دوسرے بیٹوں کی بہ نسبت یوسف سے زیادہ محبت کر تا تھا۔ یعقوب نے اپنے اس بیٹے کے لئے ایک بہت ہی خوبصورت قسم کا عبا بنوا یا۔ یوسف کے بھا ئیوں نے یہ محسوس کیا کہ ہما رابا پ ہم لوگوں سے زیادہ یوسف سے محبت کر تا ہے اس لئے وہ لوگ اس سے نفرت کر نے لگے۔ وہ لوگ کبھی یو سف کو اچھی باتیں نہیں کہتے۔

ایک دن یوسف نے ایک خاص قسم کا خواب دیکھا۔ جب یوسف نے اُس خواب کو اپنے بھا ئیوں سے بیان کیا تو ، اُنہوں نے اُس سے اور بھی زیادہ جلنا اور حسد کرنا شروع کیا۔

یو سف نے اُن سے کہا کہ مجھے ایک خواب دکھا ئی دیا ہے۔ کہ ہم سب کے سب کھیت میں گیہوں کے پلندے باندھ رہے تھے۔ تب میرا پُلندا اُٹھ کھڑا ہوا۔ پھر میرے پُلندے کے اطراف تمہا رے پُلندے گھیرا بنا یا اور میرے پلندے کے سامنے سب جھک کر سجد ہ ریز ہوئے۔

اُس کے بھا ئیوں نے کہا کہ تیرا یہ خیال ہے کہ تو بادشاہ بن کر ہم پر حکومت چلا ئے گا۔ کیا یہی مطلب ہے تمہا را ؟ ان لوگوں نے اس کے خواب اور وہ جو کہا اس کی وجہ سے اور بھی زیادہ نفرت کر نے لگے۔

اُس کے بعد یوسف کو ایک اور خواب نظر آیا۔ یو سف نے اُس خواب کے با رے میں بھی اپنے بھائیوں سے بیان کیا۔ یو سف نے اُن سے کہا کہ مجھے ایک اور خواب نظر آیا ہے۔ جس میں ایک سورج ، چاند اور گیارہ ستارے میرے سامنے جھک کر مجھے سجدہ کر تے ہیں۔

10 یوسف اپنے باپ کو اس خواب کے با رے میں معلوم کرایا۔ لیکن اُس کے باپ نے اُسے ڈانٹ دیا اور کہا کہ یہ کیسا خواب ہے ؟ اور پو چھا کہ میرا ، اور تیری ماں اور تیرے بھا ئیوں کا تیرے سامنے جھک کر سجدہ کر نے کی بات پر کیا تو یقین رکھتا ہے ؟ 11 یوسف کے بھا ئیوں کو اُس سے حسد ہو گیا۔ لیکن یوسف کا باپ ان خوابوں کے بارے میں گہرائی سے غور وفکر کر نے لگے۔

12 ایک دن یوسف کے بھا ئی اپنے باپ کی بھیڑ بکریاں چَرانے کے لئے سکم کو گئے۔ 13 اسرائیل (یعقوب ) نے یوسف سے کہا کہ سکم کو چلا جا ، کیوں کہ وہاں تیرے بھا ئی میری بھیڑ بکریوں کو چرا رہے ہیں۔

یوسف نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے میں جا رہا ہوں۔

14-15 اسرائیل نے کہا کہ تیرے بھا ئیوں اور بھیڑ بکریوں کی خیریت دریافت کر کے آ اور مجھے سُنا ، اِس طرح اُس نے اُس کو حبرون کی وا دی سے سکم کو بھیج دیا۔ سکم میں یوسُف کو راستہ بھٹکتے کھیتوں میں گھو متے پھر تے ہو ئے کسی نے دیکھ لیا ، اور پو چھا کہ کیا ڈھونڈ رہا ہے ؟

16 یو سف نے کہا کہ میں اپنے بھا ئیوں کی تلا ش میں ہوں۔ اور اُس سے پو چھا کہ وہ اپنی بھیڑ بکریوں کو کہاں چرا رہے ہیں؟

17 اِس پر اُس نے اُس کو جواب دیا کہ وہ یہاں سے چلے گئے ہیں۔ اور میں نے اُن کو یہ کہتے سُنا ہے کہ چلو ہم دوتان کو چلیں گے۔ جس کی وجہ سے یوسف اُن کو ڈھونڈ تے ہو ئے دوتان کو گیا اور وہاں پر اُن کو دیکھا۔

یوسف کو غلامی کے لئے بیچا گیا

18 یوسف کے بھا ئیوں نے یو سف کو دور سے آتے ہو ئے دیکھا۔ اور پھر اُن لو گوں نے اُس کو قتل کر نے کی ایک تدبیر سوچی۔ 19 وہ آپس میں کہنے لگے کہ وہ دیکھو خوابوں کا دیکھنے وا لا یوسف یہاں پر آرہا ہے۔ 20 اُنہوں نے آپس میں گفتگو کی کہ اُس کو قتل کر نے کا یہی ایک مناسب و موزوں وقت ہے۔ اُس کو قتل کر کے ایک خشک کنویں میں ڈھکیل دیں گے۔ اور ہم اپنے باپ سے یہ کہدیں گے کہ ایک خونخوار درندے اُس کو پھاڑ کر کھا گیا۔ اور آپس میں یہ کہنے لگے کہ ہم دیکھیں گے کہ کس طرح اُس کے سارے خواب پو رے ہو نگے۔

21 لیکن روبن اس کی مدد کرنا چاہا اس لئے اس نے ان لوگوں سے کہا ، “اُس کو قتل نہ کرو۔ 22 اور اُنسے کہا ، اس کا خون مت بہاؤ۔ اسے خشک کنواں میں ڈھکیل دو ، لیکن اُسے تکلیف نہ دو۔” اس نے ارادہ کیا کہ یوسف کو کنواں سے نکال کر اسے اس کے باپ کے حوالے کر دیں گے۔ 23 جب یو سف آیا تو اُس کے بھا ئیوں نے اس کو پکڑ لیا اور اُس کے عبا کو پھاڑ ڈا لے۔ 24 اور سوکھے ہو ئے کنویں میں اُس کو ڈھکیل دیا۔

25 جب یو سف کنویں میں تھا تو ، اُس کے بھا ئی کھانا کھا نے بیٹھ گئے۔ جب وہ آنکھ اُٹھا کر دیکھے تو جلعاد سے مصر کو اسمٰعیلی تاجروں کا ایک قافلہ جا رہا ہے۔اُن کے اُونٹ مختلف قسم کے خوشبودار مصالحے اور قیمتی اشیاء سے لدے جا رہے تھے۔ 26-27 تب یہوداہ نے اپنے بھا ئیوں سے کہا کہ اگر ہم اپنے بھا ئی کوقتل کر کے اُس کی موت کو چھپا ئیں تو ہمیں کیا فا ئدہ ہو گا ؟ اگر ہم ان اسمٰعیلی تا جروں کے ہا تھوں اُسے بیچ دیں تو ہمیں کچھ زیادہ ہی فائدہ ہو گا۔ اور کہا کہ ہمارے بھا ئی کے قتل کے الزام کا گناہ بھی ہمارے سر نہ ہو گا۔ چونکہ وہ ہما را بھا ئی ہے۔ تمام بھا ئیوں نے اُسے مان لیا۔ 28 جب مدیان کے کچھ تاجر وہاں قریب پہنچے تو بھا ئیوں نے یوسف کو کنویں سے نکا لا اور اسے اسمٰعیلی تاجروں کو بیس چاندی کے سکّہ میں بیچ دیا۔ تب تاجر لوگ یوسف کومصر لے گئے۔

29 جب روبن کنویں کے پاس واپس لوٹ کر آیا تو یوسف کو وہاں نہ پایا تو وہ افسوس کر تے ہو ئے اپنے کپڑے پھا ڑ لئے۔ 30 روبن اپنے بھا ئیوں کے پاس جا کر کہا کہ لڑ کا کنویں میں نہیں ہے۔ اور اب میں کیا کروں؟ 31 تب اُنہوں نے ایک بکری کو ذبح کیا اور بکری کے خون کو یوسف کے خوبصورت جبّہ پر ڈال دیا۔ 32 پھر اُنہوں نے اُس جُبّہ کو اپنے باپ کے پاس ایک پیغام کے ساتھ بھیج دیا کہ انہوں نے یہ جُبّہ پا یا ہے اور دریافت کیا یہ یوسف ہی کا جُبّہ ہے ؟

33 باپ نے اُس جُبّہ کو دیکھ کر اُس کی شناخت کر لی اور کہا ، “ہاں یہ یوسف ہی کا ہے۔” کو ئی جنگلی جانور اُس کو کھا گیا ہے۔ 34 ما رے غم کے اپنے کپڑوں کو پھا ڑ لیا اور ٹا ٹ اوڑھ لیا اور بہت دنوں تک غم میں ڈوبا رہا۔ 35 یعقوب کے بیٹے اور بیٹیاں اسے تسّلی دینے کی کو شش کی لیکن اسے تسّلی نہ ہو ئی۔ یعقوب نے کہا ، “مجھے اپنے بیٹے کا میری موت تک افسوس رہے گا۔” اس لئے اس نے ما تم کرنا جا ری رکھا۔

36 مدیان کے تاجروں نے یوسف کو مصر میں بیچ دیئے۔ ان لوگوں نے اُس کو فرعون کے محافظین کے سردار فوطیفار کو فروخت کر دیا۔

یہوداہ اور تمر

38 اُس زمانے میں یہوداہ اپنے بھا ئیوں کو چھو ڑ کر حیرہ کے پا س زندگی گذارنے کے لئے چلا گیا۔ اور حیرہ عد لام گاؤں کا تھا۔ یہوداہ نے وہاں پر کنعان کی ایک لڑکی کو دیکھ کر اُ س سے شادی کی۔ اور اُس لڑکی کے باپ کا نام سُوع تھا۔ وہ ایک بچہ کو جنم دی۔ اُنہوں نے اُس کو عیر کانام دیا۔ اُس کے بعد اُس نے پھر ایک اور بچہ کو جنم دیا۔ اُنہوں نے اُس بچہ کا نام اونان رکھا۔ جب اُس کو تیسرا بچہ پیدا ہوا تو وہ اُس کا نام سیلہ رکھا۔ جب وہ بچہ پیدا ہوا تو یعقوب ، کزیب میں سکونت پذیر تھا۔

یہوداہ نے اپنے پہلو ٹھے بیٹے عیر کے لئے ایک دوشیزہ کا انتخاب کر لیا جس کا نام تمر تھا۔ لیکن عیر بہت سی بدکاریوں میں مبتلا ہو نے کی وجہ سے خداوند نے اُس کو مار دیا۔ تب یہوداہ نے عیر کے بھا ئی اونان سے کہا کہ جا ، اور تیری بیوہ بھا بھی کے لئے تو بحیثیت شوہر بن۔ مزید کہا کہ تجھ سے اُس کو پیدا ہو نے وا لی اولاد تیرے بھا ئی عیر کی اولا د کہلا ئے گی۔

تمر سے پیدا ہو نے وا لی اپنی اولاد ، اپنی نہ ہو نے کی بات اُونان کو معلوم تھی جس کی وجہ سے وہ اُس سے ہمبستر ہو نے کے با وجود بھی نطفہ کو (رحم میں داخل ہو ئے بغیر) با ہر زمین پر گراتا تھا۔ 10 یہ بات خداوند کی نظر میں بُری تھی، جس کی وجہ سے اُس نے اونان کو بھی مار دیا۔ 11 تب یہوداہ نے اپنی بہو تمر سے کہا ، “تو اپنے میکے جا اور وہیں پر رہ۔” لیکن یہ بھی کہا کہ میرے بیٹے سیلہ کے با لغ ہو نے تک کسی سے شادی نہ کرنا اور یہوداہ اس بات کو سوچ کر ڈرا ہوا تھا کہ سیلہ بھی اپنے بڑے بھا ئی کی طرح مر جا ئے گا۔ جس کی وجہ سے تمر اپنے میکے چلی گئی۔

12 ایک عرصہ بعد یہوداہ کی بیوی ، سُوع کی بیٹی فوت ہو گئی۔ یہوداہ پر ماتم کے دن گذرجانے کے بعد، اپنے عدلامی دوست حیرہ کے ساتھ اپنی بھیڑوں کے بال کتروانے کے لئے تِمنا گاؤں کو گیا۔ 13 کسی شخص نے تمر کو کہا کہ اس کا خسر اپنے بھیڑوں کا اُون کاٹنے کے لئے تمنا چلا گیا ہے۔ 14 تمر ہمیشہ بیوگی کے کپڑے ہی پہنا کر تی تھی۔ لیکن اب وہ دوسرے ہی کپڑے پہن کر اور اپنے چہرے پر نقاب ڈال کر تِمنا کے قریب واقع عینیم کے راستے پر بیٹھ گئی۔ تب تک یہوداہ کے بیٹے سیلہ کے جوان ہو نے کا علم تمر کو ہو چکا تھا۔ لیکن یہوداہ اس کی شادی اپنے بیٹے سے کروا نے پر غور نہیں کر رہا تھا۔

15 یہوداہ جب اس راستے پر سفر کر رہا تھا تو اُس کو دیکھا اور سمجھا کہ کو ئی فاحشہ عورت ہے۔( کیوں کہ وہ فاحشہ عورت کی طرح اپنے مُنہ پر نقاب ڈال لی تھی ) 16 جس کی وجہ سے یہوداہ اُس کے قریب جا کر اُس سے پو چھا ، “برائے مہربانی مجھے اپنے ساتھ مباشرت کر نے دے۔”( یہوداہ کو اس بات کا علم نہ تھا کہ وہ اس کی بہو تمر ہے ) اُس نے اِس سے پو چھا، “توُ مجھے کیا دیگا ؟”

17 یہوداہ نے جواب دیا ، “میں تجھے اپنے ریوڑ سے ایک بھیڑ کے بچے کو بھیج دوں گا۔

اُس نے کہا ، “ٹھیک ہے لیکن پہلے تو بکری کا بچہ بھیجنے تک مجھے کچھ رکھنے کے لئے دے۔

18 تب یہوداہ نے پوچھا ، “تو کیا چاہتی ہے کہ میں تجھے دوں؟”

تمر نے جواب دیا ، “تیری وہ مُہر جو تو خطوط پر لگاتا ہے اور اُس کا دھا گہ اور اپنی لا ٹھی بھی دیدے۔ یہوداہ نے اُن تمام چیزوں کو اُسے دیدیا۔ یہوداہ اُس سے مباشرت کیا۔ اور وہ حاملہ ہو ئی۔ 19 تمر گھر گئی اور چہرے سے نقاب اٹھا ئی اور پھر بیوگی کے کپڑے پہن لی۔

20 یہوداہ ایک بھیڑ کا بچہ اپنے دوست حیرہ کے ذریعے عینیم کو بھیج دیا اور یہ بھی کہا کہ وہ مُہر اور لا ٹھی بھی اس سے واپس لا نا۔ لیکن وہ اسے نہ پا سکا۔ 21 اس نے عینیم گاؤں کے چند لوگوں سے پو چھا ، “وہ ہیکل وا لی فاحشہ عورت کہا ں ہے جو راستے کے کنا ر ے بیٹھی تھی۔

اِس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہاں کو ئی ایسی ہیکل وا لی فاحشہ عورت نہیں رہتی ہے۔”

22 اِسوجہ سے وہ یہوداہ کے پاس واپس آکر کہا کہ مجھے اُس فاحشہ عورت کا سر اغ نہ ملا۔ اور اس نے یہ بھی بتا یا ، “وہاں کے مردوں نے مجھ سے کہا کہ یہاں کو ئی ہیکل وا لی فاحشہ عورت نہیں رہتی۔”

23 اُس بات پر یہوداہ نے کہا ، “وہ اُن چیزوں کو اپنے پاس ہی رکھ لے۔ اور لوگوں کا ہم کو دیکھ کر ہنسنا مجھے پسند نہیں حالانکہ میں نے اُس کو بھیڑ دینے کی کوشش کی تھی۔

تمر کا حاملہ ہو نا

24 تین ماہ گذرنے کے بعد کسی نے یہوداہ کو واقف کرایا کہ تیری بہو تمر حرامکا ری کے ذریعے حاملہ ہو ئی ہے۔ تب یہوداہ نے کہا کہ اُس کو گھسیٹ کر لے جا ؤ اور جلا دو۔

25 وہ سارے مرد تمر کو قتل کر نے کے لئے اُس کے پاس گئے۔ لیکن اُس نے خسر سے یہ پیغام کہہ کر بھیجا ، “ان چیزوں کو دیکھو اور مجھے بتا کہ یہ سب چیزیں کس کی ہیں؟ یہ مُہر اور یہ دھا گہ اور یہ لاٹھی۔ ان ساری چیزوں کا مالک جو ہے اس نے ہی مجھے حاملہ کیا ہے۔ کس کا ہے ؟”

26 یہوداہ نے اُن اشیاء کی شناخت کر لی۔ اور وہ جو کچھ کہہ رہی ہے صحیح ہے لیکن میں نے ہی غلطی کی ہے۔ اور کہا کہ میرے وعدے کے مطا بق میرا بیٹا سیلہ اس کو دینا چاہئے تھا۔ لیکن یہوداہ اُس کے بعد پھر اُس کے ساتھ ہم بستر نہ ہوا۔

27 تمر کے لئے وضع حمل کے دن قریب ہو ئے۔ اور دایہ نے یہ محسوس کیا کہ اُس کے دو بچے ہو نے وا لے ہیں۔ 28 جب اُسے وضع حمل ہورہا تھا تو ایک بچے نے اپنا ہاتھ آگے باہر بڑھا یا تو دایہ نے اُس بچے کے ہا تھ کو سُرخ دھا گہ باندھا اور کہا کہ یہ پہلا ہے۔ 29 لیکن اُس بچے نے اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ لیا۔ تب پھر دوسرا بچہ پہلے پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے دائی نے کہا ، “توُ نے با ہر آنے کے لئے اپنے آپ کے لئے جگہ بنا ئی۔” جس کی وجہ سے انہوں نے اُس بچے کا نام“فارص ” رکھا۔ 30 پھر اُس کے بعد دوسرا بچہ دنیا میں آیا۔ اس بچے کے ہا تھ میں سُرخ دھا گہ تھا۔ جس کی وجہ انہوں نے اُسے “زراح” کا نام دیا۔

مصر میں یوسف کا فوطیفار کو بیچا جانا

39 یوسف کو خریدنے وا لے اسمٰعیلی اُس کو مصر میں لا ئے اور اُس کو فرعون کے محافظین کے سردار فوطیفار کو بیچ دیا۔ لیکن خداوند کی مدد اور نصرت سے یوسف ترقی کر تا گیا۔ وہ اپنے مصری مالک فوطیفار کے گھر قیام کیا۔

خدا وند کا یوسف کے ساتھ رہکر اُس کو ہر کام میں کامیابی کے ساتھ سر انجام دلا نے کی تائید کو فوطیفار نے محسوس کیا۔ فوطیفار ، یو سف کے بارے میں بہت مطمئن تھا اور اُس کو ایک خاص خادم کی حیثیت دیدی۔ اور گھر کے سارے مسائل و ضروریات کے حل کے لئے اُس کو مختار کا درجہ دیا۔اور اپنی ساری جائیداد کی نگرانی کے لئے اُس کو مختار اعلیٰ بنا لیا۔ فو طیفار نے جب یوسف کو گھر کا مختار اور جائیداد کا ایک ذمّہ دار بنایا تو خدا وند نے فوطیفار کا گھر بار اُس کی فصلوں اور اُس کی جائیداد میں خیر و بر کت ڈال دی۔ اس لئے فوطیفار نے ہر قسم کی ذمّہ داری یوسف کو سونپ دی اور سوائے اپنے کھا نے پینے کے کسی اور چیز سے تعلق نہ رکھا۔

یوسف کا فوطیفار کی بیوی کو انکار کر نا

یوسف بہت خوبصورت اور دیکھنے میں بہت اچھا تھا۔

ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ یوسف کے مالک کی بیوی نے یوسف پر نگاہ ڈا لی اور کہی ، “آؤ اور میرے ساتھ ہمبستری کرو۔”

لیکن یوسف نے اس بات سے انکار کیا۔ اور اس نے ان سے کہا کہ میرا مالک تو گھر کی ساری ذمّے داریاں میرے سپرد کر خُود بے فکر ہو گئے ہیں۔ میرا مالک تو اپنے گھر کی تمام تر ذمّے داریاں مجھے سونپ دینے کے با وجود بھی اپنی عزیز اور چہیتی بیوی آپ کو میرے حوالے نہیں کیا ہے۔ اور پھر جواب دیا کہ ایسی صورت میں ایسا بڑا گناہ کر کے میں خدا کو کیسے ناراض کروں۔

10 وہ عورت روزانہ اسے تنگ کر نے لگی۔ لیکن یوسف اس سے ہم بستری کر نے سے انکار کر تا رہا۔ 11 ایک دن یوسف اپنے کسی کام سے گھر میں چلا گیا۔ اس وقت اس گھر میں صرف وہی اکیلا ایک آدمی تھا۔ 12 اُس کے مالک کی بیوی اُس کے جبّہ کو پکڑ لی اور کہنے لگی کہ آجا اور میرے ساتھ ہم بستری کر۔ فوراً یوسف اپنے جبّہ کو وہیں پر چھو ڑ کر بھاگ گئے۔

13 جب اس عورت نے دیکھا کہ یوسف اپنا جبّہ اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر گھر سے باہر بھاگ گئے تو۔ 14 وہ گھر کے باہر جو نو کر تھے اُن کو بلوائی ،اور کہی ، “دیکھو ہمیں ذلیل و رُسوا کر نے کے لئے اِس عبرانی غلام کو یہاں لا یا گیا تھا۔ وہ میرے پاس مجھ سے ہم بستری کر نے آیا تھا لیکن میں زور زور سے چیخ و پکار لگا ئی۔ 15 میری چیخ و پکار سے خوف زدہ ہو کر وہ اپنے جبّہ ہی کو چھو ڑ کر بھاگ گیا۔ 16 اُس نے اُس جبّہ کو اپنے شوہر اور یو سف کا ما لک فوطیفار کے آنے تک رکھا تھا۔ 17 جب اُس کا شو ہر آیا تو ، اس نے اسی طرح کہنے لگی کہ تو نے جس عبرا نی نو کر کو اپنے پاس رکھا ہے ، اُس نے تو مجھ پر جبراً عزت لوٹنے کے لئے حملہ کیا۔ 18 اُس نے کہا کہ جیسے ہی میں زور زور سے چلّا نے لگی تو وہ اپنے جبّہ ہی کو چھو ڑ کر بھا گ گیا۔

یو سف کو قید کی سزا

19 یو سف کا مالک اپنی بیوی کی باتیں سُن کر بہت غُصّہ ہوا۔ 20 بادشاہ کے دُشمنوں کی سزا کے لئے ایک قید خا نہ بنایا گیا تھا۔ اور فوطیفار نے یوسف کو اُسی قید خا نے میں ڈلوادیا۔ اُس دن سے یو سف وہیں پر رہا۔

21 لیکن خدا وند نے یوسف کے ساتھ رہ کر اُس کے ساتھ کرم و عنایت کی۔ چند دن گزر نے کے بعد جیل کا داروغہ یو سف کو چاہنے لگا۔ 22 اُس نے تمام قیدیوں کو یو سف کی تحویل میں دیدیا۔وہاں پر جو کُچھ بھی کر نا ہو تا یو سف ہی اُس کو کر واتا۔ 23 محافظوں کے سردار نے یو سف نے جو کیا تھا اس پر کچھ بھی دھیان نہ دیا۔ خدا وند یو سف کے ساتھ اور اسکے سارے کا موں کو کا میابی سے کر وا رہا تھا۔