Skip to content

From Books

موسیقی کے ہدایت کا ر کے لئے ایمت،ہشتمر [a] کے سُر پر داؤد کا نغمہ

22 اے میرے خدا! اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا!
    مجھے بچا نے کے لئے تو کیوں بہت دور ہے ؟
    میری مدد کی پکار سننے کے لئے تو بہت دُورہے۔
اے میرے خداوند! میں دن کو پکارتا ہوں
    پر تو جواب نہیں دیتا، اور میں رات بھر تجھے پکارتا رہا۔

اے خدا! تو مقدّس ہے۔ تو بادشاہ کے جیسے حکمران ہے۔
    اسرائیل کی توصیف تیرا تخت ہے۔
ہما رے باپ دادا نے تجھ پر توّکل کیا،ہاں!
    اے خدا ، انہوں نے توّکل کیا اور توُ نے اُن کو بچایا۔
اے خدا ، ہما رے باپ دادا نے تجھے مدد کو پکا را اور وہ اپنے دشمنوں سے بچ نکلے۔
    انہوں نے تجھ پر اعتماد کیا اور وہ مایوس نہیں ہو ئے۔
تو کیا میں سچ مچ میں کو ئی کیڑا ہوں انسان نہیں
    جو لوگ مجھ سے شرمندہ ہوا کرتے ہیں اور مجھ سے حقارت کر تے ہیں؟
جو بھی مجھے دیکھتا ہے میری ہنسی اُڑا تا ہے۔
    وہ مجھ پر اپنے سر کو ہلا تے ہیں اور اپنی زبان با ہر نکالتے ہیں۔ [b]
وہ مجھ سے کہتے ہیں، “ اپنی مدد کے لئے تو خداوند کو پکا ر۔
    شاید وہ تجھے بچائے۔ اگر وہ تجھے بہت چاہتا ہے وہ تجھ کو بچا لیگا!”

اے خدا، سچ تو یہ ہے کہ صرف تو ہی ہے جس کے بھروسے میں ہوں
    توُ نے مجھے اُس دن سے ہی سنبھالا ہے جب سے میرا جنم ہوا۔
تو نے مجھے اطمینان اور تشفی دی تھی۔
    جب میں ابھی اپنی ماں کا دودھ ہی پیتا تھا۔
10 ٹھیک اُسی د ن سے جب سے میں پیدا ہوا ہوں توُ میرا خدا رہا ہے۔
    جیسے ہی میں اپنی ماں کی کوکھ سے با ہر آیا تھا، مجھے تیری دیکھ بھا ل میں رکھ دیا گیا تھا۔

11 پس اے خدا! مجھے مت بھول۔
    مصیبت قریب ہے، اور کو ئی بھی شخص میری مدد کے لئے نہیں ہے۔
12 میں اُن لوگوں سے گھِرا ہوں جو طاقتور سانڈوں جیسے طاقتور ہیں۔
13 وہ اُن شیر ببّر جیسے ہیں۔ جو کسی جانور کو چیر رہے ہوں
    اور دھا ڑتے ہوں اور اُن کے منہ نہایت کھلے ہو تے ہیں۔

14 میری قوّت زمین پر پانی کی طرح بہہ گئی۔
    میری سب ہڈیاں اکھڑ گئی ہیں۔ میرا حوصلہ ختم ہو چکا ہے۔
15 میرا منہ ٹھیکری کی مانند خشک ہو گیا ہے۔
    میری زبان میرے اپنے ہی تالو سے چپک رہی ہے۔
    تو نے مجھے موت کے گردو غبار میں ملا دیا ہے۔
16 میں چاروں طرف“ کتّوں ” سے گھِرا ہوا ہوں۔
    بدکا روں کے گروہ نے مجھے گھیِر لیا ہے۔
    انہوں نے میرے ہا تھوں اور پیروں کو شیر کی طرح چیر دیا ہے۔
17 مجھ کو میری ہڈیاں دکھا ئی دیتی ہیں۔
    وہ مجھے گھورتے ہیں۔
    یہ مجھ کو نقصان پہنچا نے کو تاکتے رہتے ہیں۔
18 وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹ رہے ہیں۔
    وہ میری پو شاک پر قرعہ ڈال رہے ہیں۔

19 اے خداوند! توُ مجھ کو مت چھوڑ۔
    تومیری قوّت ہے۔ میری مدد کر۔ اب تو تا خیر نہ کر۔
20 اے خداوند! میری جان کو تلوار سے بچا۔
    توُ اُن کتّوں سے میری قیمتی جان کی حفا ظت کر۔
21 مجھے شیر ببر کے منہ سے بچا
    اور سانڈ کے سینگوں سے میری حفا ظت کر۔

22 اے خداوند! میں اپنے بھا ئیوں میں تیرے نام کا اظہا ر کروں گا۔
    میں تیری ستائش عظیم جماعت میں کرو ں گا۔
23 خداوند سے ڈرنے وا لے اے سب لوگو ! اس کی ستا ئش کرو۔
    اور اے یعقوب کی نسل! خداوند کی تعظیم کرو۔
    اے بنی اسرائیلیو! خداوند سے ڈرو اور اس کی تعظیم کرو۔
24 کیوں کہ خداوند ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جومصیبت میں ہو تے ہیں۔
    خداوند اُن سے نہ ہی شرمندہ ہے اور نہ ہی نفرت کرتا ہے۔
    اگر لوگ مدد کے لئے خداوند کو پکا ريں تو وہ خود کو اُن سے کبھی نہیں چھپا ئے گا۔

25 اے خداوند میری ستا ئش عظیم اجتماع میں صرف تجھ سے ہی آتی ہے۔
    اُن سب کے سامنے جو تیری عبادت کرتے ہیں،
    میں اُن باتوں کو پورا کروں گا جن کو کرنے کا میں نے عہد کیا تھا۔
26 حلیم لوگ کھا ئیں گے اور سیر ہوں گے۔
    تم لوگ جو خداوند کی تلاش میں آئے ہو اُس کی ستا ئش کرو۔
    تمہا را دل ابد تک خوش رہے۔
27 تمام لوگ جو دُورممالک میں رہتے ہوں وہ خداوند کو یاد کریں
    اور اس کی طرف لوٹ آئیں روئے زمین کی تمام قومیں خداوندکی عبادت کریں۔
28 کیونکہ خداوند بادشاہ ہے۔
    وہ تما م قوموں پر حاکم ہے۔
29 مضبوط اور صحت مند لوگ کھا چکے ہیں اور خدا کے آگے سجدہ کر چکے ہیں
    در اصل وہ لوگ جو مریں گے اور وہ جو بہت پہلے ہی مر چکے ہیں خدا کے آگے سجدہ کریں گے۔
30 اور مستقبل میں ہماری نسل خداوند کی خدمت کرے گی۔
    لوگ ہمیشہ ہما رے مالک کی با بت کہیں گے۔
31 خدا نے جو بھلا ئی کی ہے
    تمام نسلیں اپنے بچّوں کو اُسے کہیں گے۔

یسوع کا یروشلم میں شاہا نہ داخلہ

21 یسوع اور اسکے شاگرد یروشلم کی طرف سے سفر کرتے ہو ئے زیتون کے پہاڑ کے نزدیک بیت فگے کو پہنچے۔ وہاں یسوع نے اپنے دونوں شا گردوں کو بلا کر کہا، “تم اپنے سامنے نظر آنے والے شہر کو جاؤ۔ جب تم اس میں داخل ہو گے تو وہاں پر بندھی ہو ئی ایک گدھی پاؤگے۔ اور اس گدھی کے ساتھ اسکا بچہ بھی ہو گا۔ انہیں کھو ل کر میرے پاس لے آؤ۔ اگر تم سے کو ئی یہ پو چھے کہ ان گدھوں کو کھو ل کر کیوں لے جا رہے ہو تو کہنا کہ مالک کو ان گدھوں کی ضرورت ہے اور وہ ان گدھوں کو بہت جلد ہی واپس لوٹا دیگا۔ یہ کہہ کر انہوں نے ا ن لوگوں کو بھیج دیا۔”

یہ اسلئے ہوا کہ جو پیشین گوئی نبی کے ذریعے دی گئی تھی پوری ہو جائے:

“صیّون شہر سے کہہ دو۔
    تیرا بادشاہ اب تیرے پاس آرہا ہے
وہ بہت ہی عاجزی سے گدھے پر سوار ہو کر آرہا ہے۔
    ہاں وہ جوان گدھے پر بیٹھ کر آرہا ہے۔ جو پیدائش سے ہی کام کر نے والا جانور ہے۔” [a]

یسوع کے کہنے کے مطابق وہ شاگرد گئے گدھی اور اسکے بچے کو یسوع کے پاس لا ئے۔ وہ اپنے جبّوں کو انکے اوپر ڈالدیا۔ تب یسوع اس پر سوار ہو کر یروشلم چلے گئے۔ بہت سارے لوگ اپنے جبّوں کو یسوع کی خاطر راستے پر بچھا نے لگے۔ اور بعص لوگ درختوں سے شگوفے اور نئی کونپلیں توڑ لائے اور راہ پر پھیلا دیئے۔ بعض لوگ یسوع کے آگے اور بعض لوگ یسوع کے پیچھے چلتے آرہے تھے۔ اور ان لوگوں نے اس طرح نعرے لگانے لگے:

“ابن داؤد کی تعریف و بڑائی کرو
    ,خداوند کے نام پر آنے والے کو خدا کی نظر و کرم ہو۔ [b]

آسمانی خدا کی حمد و ثنا کرو!”

10 جب یسوع یروشلم میں داخل ہو ئے تو سارے شہر کے لوگ پریشان ہو گئے ا ن میں ہلچل مچ گئی اور دریافت کر نے لگے کہ “یہ کون آدمی ہے؟”

11 یسوع کے پیچھے پیچھے چلنے والے ہجوم نے جواب دیا، “یہی یسوع ہے، یہ گلیل علاقے کے ناصرت نام کے گاؤں کا نبی ہے۔”

یسوع ہیکل کو گئے

12 یسوع ہیکل کے اندر چلے گئے۔ وہاں پر خرید و فروخت کر نے والے تمام لوگوں کو اس نے وہاں سے بھگا دیا۔ سِکّوں کا صرّافہ کر نے والوں کو اور کبوتر فروخت کر نے والوں کے میز گرا دیئے۔ 13 یسوع نے وہاں پر موجود لوگوں سے کہا، “میرا گھر عبادت گاہ کہلائے گا۔” [c] اسی طرح صحیفوں میں لکھا ہوا ہے، “لیکن تم ہیکل کو چوروں کے غار کی طرح بنا دیتے ہو۔” [d]

14 چند اندھے اور لنگڑے لوگ ہیکل میں یسوع کے پاس آئے۔ یسوع نے انکو شفاء دی۔ 15 اعلی کاہنوں اور معلّمین شریعت نے یہ سب دیکھا۔ ان لوگوں نے یسوع کے معجزے اور ہیکل میں چھوٹے چھو ٹے بچّوں کو یسوع کی تعریف میں گن گاتے ہو ئے دیکھا۔ چھوٹے بچے پکار رہے تھے “داؤد کے بیٹے کی تعریف ہو” ان سب کی وجہ سے کاہن اور معلّمین شریعت غصّہ سے بھڑک اٹھے۔

16 اعلی کاہنوں اور معلّمین شریعت نے یسوع سے پو چھا، “یہ چھو ٹے بچے جو باتیں کہہ رہے ہیں کیا انکو تو نے سنا ؟” یسوع نے جواب دیا، “ہاں تو نے چھو ٹے اور معصوم بچوں کو تعریف کرنا سکھا یا ہے۔” [e] جو بات صحیفوں میں مذکور ہے۔ اور پوچھا کہ کیا تم صحیفہ پڑھتے نہیں ہو ؟”

17 تب اس نے اس جگہ کو چھو ڑ دیا اور بیت عنیاہ کو چلے گئے اور یسوع نے اس رات وہیں پر قیام کیا۔

یسوع نے ایمان کی قوّت کو بتایا

18 دوسرے دن صبح یسوع شہر کو واپس جا رہے تھے کہ انکو بھوک لگی۔ 19 انہوں نے راستے کے کنارے ایک انجیر کا درخت دیکھا اور اسکے میوہ کو کھانے کے لئے درخت کے قریب گئے۔ لیکن درخت میں صرف پتّے ہی تھے۔ اس وجہ سے یسوع نے اس درخت سے کہا، “اس کے بعد تجھ میں کبھی پھل پیدا نہ ہوں۔” اسکے فوراً بعد انجیر کا درخت خشک ہو گیا۔

20 شاگردوں نے اس منظر کو دیکھ کر بہت تعجب کیا اور پو چھنے لگے یہ انجیر کا درخت اتنی جلدی کیسے سوکھ گیا؟”

21 یسوع نے جوابدیا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم شک و شبہ کے بغیر ایمان لاؤ جس طرح میں نے اس درخت کے ساتھ کیا ہے ویسا ہی تمہارے لئے بھی کرنا ممکن ہو سکے گا اس سے اور زیادہ بھی کر ناممکن ہو گا۔ اگر تم اس پہاڑ سے کہو کہ تو جاکر سمندر میں گر جا اگر پختہ ایمان سے کہا جائے تو ایسا بھی ضرور ہو گا۔ 22 جو کچھ بھی تم دعا میں مانگو گے وہ تمہیں ملیگا اگر تمہارا ایمان پختہ ہے۔”

یہودی قائدین کا یسوع کے اختیار کے بارے میں شبہ کر نا

23 یسوع ہیکل میں چلے گئے۔ یسوع جب وہاں تعلیم دے رہے تھے تو سردار کاہنوں اور لوگوں کے بڑے بڑے رہنما یسوع کے پاس آئے اور وہ یسوع سے پو چھنے لگے “تو ان تمام باتوں کو کس کے اختیارات سے کر رہا ہے ؟ اور یہ اختیار تجھے کس نے دیا ہے ؟ ہمیں بتا”

24 یسوع نے کہا، “میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔اگر تم نے اسکا جواب دیا تو میں تم کو بتا دونگا کہ میں کس کے اختیارات سے انکو کر رہا ہوں۔ 25 اگر ہم کہتے ہیں کہ کیا یوحنا کو بپتسمہ دینے کا اختیار خدا سے یا کسی انسان سے ملا ہے؟ مجھے بتاؤ۔”

کاہن اور یہودی قائدین یسوع کے سوال سے متعلق آپس میں باتیں کر نے لگے کہ اگر یہ کہیں کہ یوحنا کو بپتسمہ دینے کا اختیار خدا سے ملا ہے تو وہ پو چھے گا کہ ایسے میں تم اس پر ایمان کیوں نہیں لائے ؟ 26 “اگر یہ کہیں کہ وہ انسان سے ملا ہے تو لوگ ہم پر غصّہ کریں گے۔ اسلئے کہ ان سبھوں نے یوحنا کو ایک نبی تسلیم کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ان سے ڈریں۔ اسطرح وہ آپس میں باتیں کر نے لگے۔”

27 تب انہوں نے جواب دیا، “یو حنا کو کس نے اختیار دیئے ہمیں نہیں معلوم” پھر یسوع نے کہا ، “میں ان تمام باتوں کو کس کے اختیارات سے کرتا ہوں وہ تمہیں نہیں بتاؤنگا!

دولڑکوں سے متعلق یسوع کی کہی ہوئی تمثیل

28 “اس کے بارے میں تم کیا سمجھتے ہو۔ایک آدمی کے دو بیٹے تھے۔ وہ آدمی پہلے بیٹے کے پاس گیا اور کہا کہ بیٹا آج تو انگور کے باغ میں جا کر کام کر۔

29 “اس پر بیٹے نے جواب دیا، میں نہیں جا ؤں گا۔لیکن پھر بعد میں ارادہ بدل کر کام پر چلا گیا۔

30 “باپ نے پھر دوسرے بیٹے کے پاس جاکر کہا کہ بیٹا آج تو انگور کے باغ میں جاکر کام کر۔ تب بیٹے نے کہا، اے میرے ابّا ٹھیک ہے میں جاکر کام کرتا ہوں۔ لیکن وہ بیٹا کام پر گیا ہی نہیں۔

31 “ان دونوں میں سے کون باپ کا فرماں بردار ہوا” ؟ تب یہودی قائدین نے جواب دیا، “پہلا بیٹا” تب یسوع نے ان سے کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ محصول وصول کر نے والوں اور طوائفوں کو تم برے لوگ تصور کرتے ہو۔ لیکن وہ تم سے پہلے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونگے۔ 32 تم کو زندگی کے صحیح طریقے اور ڈھنگ سکھا نے کے لئے یو حنا آئے تھے۔ لیکن تم تو یوحنا پر ایمان نہ لائے۔ جیسا کہ تم محصول وصول کرنے والوں اور فا حشاؤں کو ایمان لاتے ہو ئے تم دیکھ چکے ہو- لیکن اسکے با وجود بھی تم اپنے اندر تبدیلی لانا اور ایمان لانا نہیں چاہتے۔ اور ان پر ایمان لانے سے انکار کر تے ہو-

خدا کے خاص بیٹے کی آمد

33 “ا س کہا نی کو سنو! ایک آدمی کا اپنا ذاتی باغ تھا۔اور وہ اپنے باغ میں انگور کی فصل لگا ئی۔ باغ کے اطراف دیوار تعمیر کی انگور کی مئے تیار کروا نے کے لئے گڑھے کھد وا یا اور نگرا نی کے لئے مچان بنو ایا۔وہ اس باغ کو چند کسانوں کو ٹھیکہ پر دیا اور دوسرے ملک کو چلا گیا۔ 34 جب انگور کی فصل توڑ نے کا وقت آیا تو اس نے نوکروں کو اپنا حصہ لا نے کیلئے کسا نوں کے پاس بھیجا۔

35 تب ایسا ہوا کہ ان باغبانوں نے ان نوکروں کو پکڑ لیا اور ایک کی تو پٹائی کی اور دوسرے کو مار دیا اور تیسرے نوکر کو پتھر پھینک کر مار دیا *۔ 36 اس لئے اس نے پہلے جتنے نوکروں کو بھیجا تھا ان سے بڑھ کر نوکروں کو ان باغبانوں کے پاس بھیجا۔ لیکن باغبانوں نے جس طرح پہلی مرتبہ کیا تھا اسی طرح دوسری مرتبہ ان نوکروں کو بھی ایسا ہی کیا۔ 37 تب اس نے سمجھا کہ یقیناً باغبان میرے بیٹے کی عزت کریں گے اسلئے اس نے اپنے بیٹے ہی کو بھیجا۔

38 لیکن جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں باتیں کرنے لگے یہ تو باغ کے مالک کا بیٹا ہے۔ یہ باغ تو اسی کا ہوگا۔ اسلئے اگر ہم اسکو مار دیں تو یہ باغ ہمارا ہی ہوگا۔ 39 اسطرح باغبانوں نے بیٹے کو پکڑ کر باغ سے باہر کھینچ کر لایا اور اسکو قتل کر دیا۔

40 “ان حالات میں جب باغ کا مالک خود آئیگا تو وہ ان کسانوں کا کیا کریگا ؟”

41 یہودی کاہنوں اور قائدین نے کہا، “یقیناً وہ ان ظالموں کو ماریگا اور اپنا باغ دوسرے کسانوں کو ٹھیکہ پر دیگا۔ تا کہ موسم پر اسکا حصّہ دیں سکیں۔”

42 یسوع نے ان سے کہا یقیناً تم نے اس بات کو صحیفو ں میں پڑھا ہے:

گھر کی تعمیر کرنے والے نے جس پتّھر کو ردّ کیا وہی پتھّر میرے کو نے کا پتھّر بن گیا۔
یہ کام خدا وند نے کیا۔ اور یہ ہمارے لئے حیرت کا باعث ہے۔ [f]

43 “اسی وجہ سے میں تم سے جو کہتا ہوں وہ یہ کہ خدا کی بادشاہت تم سے چھین لی جائیگی اس خدا کی بادشاہت کو خدا کی مرضی کے مطابق کام کر نے والوں کو دی جائیگی۔ 44 جو شخص اس پتھّر پر گریگا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگا۔ اور اگر پتھّر اس شخص پر گریگا تو یہ اس شخص کو کچل ڈالیگا۔”

45 سردار کاہنوں اور فریسیوں نے یسوع کی کہی ہوئی کہانیوں کو سنا تو ان لوگوں نے جانا کہ یسوع ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ 46 انہوں نے یسوع کو قید کرنے کی تدبیر تلاش کی لیکن وہ لوگوں سے گھبراکر گرفتار نہ کر سکے۔ کیوں کہ لوگ یسوع پر ایک نبی ہو نے کے ناطے ایمان لا چکے تھے۔

کھانے پر مدعو کئے گئے لوگوں سے متعلق کہانی

22 یسوع نے دیگر چند چیزوں کو لوگوں سے کہنے کے لئے تمثیلوں کا استعمال کیا۔ “آسمان کی بادشاہی ایک ایسے بادشاہ کی مانند ہے جو اپنے بیٹے کی شادی کی ضیافت کی تیاری کرے۔ اس بادشاہ نے اپنے نوکروں کو ان لوگوں کو بلا نے کے لئے بھیجا جنہیں شادی کی ضیافت کے لئے دعوت دیئے گئے تھے۔ لیکن وہ لوگ ضیا فت میں شریک ہو نا نہیں چاہا۔

“تب بادشاہ نے مزید چند نوکروں کو بلا کر کہا کہ ان لوگوں کو تو میں نے پہلے ہی بلایا تھا۔ ان سے کہو کھا نے کی ہر چیز تیار ہے۔ میں نے فربہ بیل اور گائے ذبح کر وائی ہے۔ اور سب کچھ تیار ہے اور ان سے یہ کہلا بھیجا کہ شادی کی دعوت کے لئے وہ آئیں۔

“نوکر گئے اور لوگوں کو آنے کے لئے کہا۔ لیکن ان لوگوں نے نوکروں کی بات نہیں سنی۔ ایک تو اپنے کھیت میں کام کر نے کے لئے چلا گیا۔ اور دوسرا اپنی تجارت کے لئے چلا گیا۔ اور کچھ دوسرے لوگوں نے ان نوکروں کو پکڑا مارا پیٹا،اور ہلاک کردیا۔ تب بادشاہ بہت غصّہ ہوا اور اپنی فوج کو بھیجا ان قاتلوں کو ختم کروایا اور ان کے شہر کو جلایا۔

“پھر بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ شادی کی ضیافت تیار ہے۔ اور میں نے جن لوگوں کو ضیافت میں دعوت دیا ہے وہ دعوت کے اتنے زیادہ اہل نہیں ہیں۔ اور اس نے کہا کہ گلی کے کو نے کونے میں جا کر تم نظر آنے والے تمام لوگوں کو ضیافت کے لئے دعوت دو۔ 10 اسی طرح نوکر گلی گلی گھو م کر نظر آنے والے تمام لوگوں کو اچھے برے کی تخصیص کئے بغیر تمام کو جمع کرکے اسی جگہ پر بلا لا ئے جہاں ضیافت تیار تھی۔ اور وہ جگہ لوگوں سے پُر ہو گئی۔

11 “تب بادشاہ تمام لوگوں کو دیکھنے کے لئے اندر آئے جو کھا رہے تھے۔ بادشاہ نے ایک ایسے آدمی کو بھی دیکھا کہ جو شادی کے لئے نا مناسب لبا س پہنے ہوئے تھا* 12 اور پو چھا، اے دوست تو اندر کیسے آیا؟ تم نے تو شادی کے لئے موزو و مناسب پو شاک نہیں پہن رکھّی ہے۔ لیکن اس نے کو ئی جواب نہ دیا۔ 13 تب بادشاہ نے چند نوکروں سے کہا اسکے ہاتھ پیر باندھکر اسکو اندھیرے میں اس جگہ پر جہاں وہ تکالیف میں مبتلا ہوگا اپنے دانتوں کو پیسے گا پھینک دو۔

14 “ہاں ضیافت میں تو بہت سے لوگوں کو دعوت دی گئی ہے لیکن منتخب کردہ کچھ ہی افراد ہیں۔”

چند یہودی قائدین کا یسوع کو فریب دینے کی کو شش کرنا

15 تب فریسی وہاں سے نکل گئے جہاں یسوع تعلیم دے رہے تھے۔ وہ منصوبے بنا رہے تھے کہ یسوع کو غلط کہتے ہو ئے پکڑ لیں۔ 16 فریسیوں نے یسوع کو فریب دینے کے لئے کچھ لوگوں کو بھیجا۔ انہوں نے اپنے کچھ پیرو کاروں کو روانہ کیا اور بعض لوگوں کو جو ہیرودی نامی گروہ سے تھے۔ ان لوگوں سے کہا، “اے آقا! ہم جانتے ہیں کہ تو فرمانبردار شخص ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا کی راہ کے بارے میں تو نے حق کی تعلیم دی ہے۔ تو خوفزدہ نہیں ہے کہ دیگر لوگ تیرے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ سب انسان تیرے لئے مساوی ہیں۔ 17 پس تو اپنا خیال ظا ہر کر۔کہ قیصر کو محصول دینا صحیح ہے یا غلط۔” 18 یسوع ان لوگوں کی مکّاری وعیاری کو جان گئے۔ اس وجہ سے اس نے ان سے کہا کہ تم ریا کار ہو مجھے غلطی میں پھنسا نے کی تم کیوں کو شش کرتے ہو ؟ 19 محصول میں دیا جانے والا ایک سکّہ مجھے دکھلاؤ۔ “تب لوگوں نے ایک چاندی کا سکہ انہیں دکھایا۔ 20 تب اس نے ان سے پو چھا ، “سکّے پر کس کی تصویر ہے اور کس کا نام ہے ؟”

21 پھر لوگوں نے جواب دیا، “وہ توقیصر کی تصویر اور اسکا نام ہے۔” تب یسوع نے ان سے کہا، “قیصر کی چیز قیصر کو دے دو اور جو خدا کا ہے خدا کو د ے دو۔”

22 یسوع کی کہی ہو ئی باتوں کو سننے والے وہ لوگ حیرت زدہ ہو کر وہاں سے چلے گئے۔

چند صدوقیوں کا یسوع کو فریب دینے کی کو شش کر نا

23 اسی دن چند صدوقی یسوع کے پاس آئے (صدوقیوں کا ایمان ہے کہ کو ئی بھی شخص مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں ہو تا۔) صدوقیوں نے یسوع سے سوال کیا۔ 24 ان لوگوں نے کہا، “ا ے آقا! موسٰی نے کہا اگر کوئی شادی شدہ شخص مرجائے اور اسکی کوئی اولاد نہ ہو تب اسکا بھائی اس عورت سے شادی کرے اور پھر مرے ہو ئے بھا ئی کے لئے بچّے کرے۔ 25 ہمارے یہاں سات بھا ئی تھے پہلا شادی ہونے کے بعد مرگیا اس کے بچے نہیں تھے۔ اس لئے اسکی بیوی کی اس کے بھائی کے ساتھ شادی ہو ئی۔ 26 تب دوسرا بھا ئی بھی مر گیا۔ اسی طرح تیسرا بھا ئی بھی اسی طرح باقی تمام سات بھائی بھی مر گئے۔ 27 ان تمام کے بعد بالآخر وہ عورت بھی مر گئی۔ 28 لیکن ان سات بھائیوں نے بھی اس سے شادی کی۔ تب انہوں نے پو چھا کہ جب وہ مرکر دوبارہ زندہ ہونگے تو وہ عورت کس کی بیوی کہلا ئے گی۔

29 یسوع نے ان سے کہا، “تم نے جو غلط سمجھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ مقدس صحیفے کیا کہتے ہیں اور خدا کی قدرت و طاقت کے بارے میں تم نہیں جانتے۔ 30 عورتیں اور مرد جب دوبارہ زندگی پائیں گے تو وہ ( دوبارہ ) شادی نہ کریں گے وہ سب آسمان میں فرشتوں کی طرح ہونگے۔ 31 مرے ہو ئے لوگوں کی دوبارہ زندگی سے متعلق خدا نے کہا۔ 32 کیا تم نے صحیفوں میں نہیں پڑھا میں ابراہیم کا خدا ہوں اسحٰق کا خدا اور یعقوب کا بھی خدا ہوں کیا تم نے اس بات کو نہ پڑھا ہے؟ اور کہا کہ اگر یہی بات ہے تو خدا زندوں کا خدا ہے نہ کہ مردوں کا۔”

33 جب لوگوں نے یہ سنا تو اسکی تعلیم پر حیران و ششدر ہو گئے۔

انتہائی اہم ترین حکم کونسا ہے؟

34 جب فریسیوں نے سنا کہ یسوع نے اپنے جواب سے صدوقیوں کو خاموش کر دیا ہے تو وہ سب صدوقی ایک ساتھ جمع ہو ئے 35 شریعت موسٰی میں بہت مہارت رکھنے والا ایک فریسی یسوع کو آزمانے کے لئے پوچھا۔ 36 فریسی نے کہا، “اے استاد توریت میں سب سے بڑا حکم کونسا ہے ؟”

37 یسوع نے کہا، “تجھ کو اپنے خداوند خدا سے محبت کر نا چاہئے۔ تو اپنے دل کی گہرائی سے اور تو اپنے دل و جان سے اور تو اپنے دماغ سے اسکو چاہنا۔ [a] 38 یہی پہلا اور اہم ترین حکم ہے۔ 39 دوسرا حکم بھی پہلے کے حکم کی طرح ہی اہم ہے۔ تو دوسروں سے اسی طرح محبت کر جیسا خود سے محبت کر تےہو۔ [b] 40 اور جواب دیاکہ تمام شریعتیں اور نبیوں کی تمام کتابیں انہیں دو احکامات کے معنی اپنے اندر لئے ہو ئے ہیں۔”

یسوع کا فریسیوں سے کیا ہوا سوال

41 فریسی جب ایک ساتھ جمع ہو کر آئے تو یسوع نے ان سے سوال کیا۔ 42 “مسیح کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ اور وہ کس کا بیٹا ہے ؟” فریسیوں نے جواب دیا، “مسیح داؤد کا بیٹا ہے۔”

43 تب یسوع نے فریسیوں سے پو چھا، “اگر ایسا ہی ہے تو داؤد نے اسکو خدا وند کہہ کر کیوں پکا را ؟ داؤد نے مقدس روح کی قوت سے بات کی تھی۔ داؤد نے یہ کہا ہے۔

44 خداوند خدا نے میرے خداوند کو کہا
میری داہنی جانب بیٹھ
    میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں تلے ذلیل و رسوا کرونگا۔ [c]

45 داؤد نے مسیح کو خداوند کہہ کر پکا را ہے۔ ایسی صورت میں کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ داؤد کا بیٹا ہے۔”

46 یسوع کے سوال کا جواب دینا فریسیوں میں سے کسی کے لئے ممکن نہ ہو سکا۔ اسی لئے اس دن سے یسوع کو فریب دینے کے لئے سوال کرنے کی کو ئی ہمت نہ کر سکا۔

یسوع کا مذہبی قائدین پر تنقید کرنا

23 تب یسوع نے وہاں موجود لوگوں سے اور پنے شاگردوں سے کہا۔ “معلمین شریعت اور فریسیوں کو حق ہے کہ تجھ سے کہے کہ شریعت موسیٰ کیا ہے ؟ اس وجہ سے تم کو ان کا اطا عت گذار ہو نا چا ہئے۔ اور ان کی کہی ہو ئی باتوں پر عمل کر نا چا ہئے۔ لیکن ان لوگوں کی زندگی پیروی کی جا نے کے لئے قابل عمل مثا ل نہیں ہے۔وہ تم سے جو باتیں کہتے ہیں اس پر وہ خود عمل نہیں کر تے۔ وہ تو دوسروں کو مشکل ترین احکا مات دے کر ان پر عمل کر نے کے لئے ان لوگوں پر زبر دستی کر تے ہیں۔ اور خود ان احکا مات میں سے کسی ایک پر بھی عمل کر نے کی کوشش نہیں کر تے۔

“وہ صرف ایک مقصد سے اچھے کام اس لئے کر تے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کو دیکھیں وہ خاص قسم کے چمڑے کی تھیلیاں جس میں صحیفے رکھے ہوتے ہیں جن کو وہ باندھ لیتے ہیں۔ اور وہ ان تھیلیو ں کے حجم کو بڑھا تے ہو ئے جا تے ہیں۔لوگو ں کو دکھا نے کے لئے وہ اپنے خاص قسم کی پو شاکوں کو اور زیا دہ لمبے سلوا تے ہیں۔ وہ فریسی اور معلمین شریعت کھا نے کی دعوتوں میں یہودی عبادت گاہوں میں بہت خاص اور مخصوص جگہوں پر بیٹھنے کی تمنا کر تے ہیں۔ با زاروں کی جگہ وہ لوگوں سے عزت و بڑا ئی پا نے کی آرزو کر تے ہیں۔ اور لوگوں سے معلم کہلوا نے کے متمنی ہو تے ہیں۔

“لیکن تم معلم کہلوا نے کو پسند نہ کرو۔ اس لئے کہ تم سب آپس میں بھا ئی اور بہنیں ہو اور تم سب کا ایک ہی معلم ہے۔ اس دنیا میں تم کسی کو باپ کہہ کر مت پکا رو۔ اس لئے کہ تم سب کا ایک ہی باپ ہے اور وہ آسمان میں ہے۔ 10 اور تم ہا دی بھی نہ کہلا ؤ اس لئے کہ تمہا را ہا دی صرف مسیح ہی ہے۔ 11 ایک خا دم کی طرح تمہا ری خدمت کر نے وا لا شخص ہی تمہا رے درمیان بڑا آدمی ہے۔ 12 خود کو دوسروں سے اعلیٰ وارفع تصور کر نے وا لا جھکا یا جا ئے گا۔ اور جو اپنے آپ کو کمتر اور حقیر جانے گا وہ با عزت (اونچاو ترقی یافتہ ) بنا دیا جا ئے گا۔

13 “اے معلمین شریعت اور اے فریسیو! یہ تمہا رے لئے برا ہے۔ تم منا فق ہو۔ تم لو گوں کے لئے آسمان کی بادشاہت میں دا خل ہو نے کے راستے کو مسدود کر تے ہو۔ تم خود داخل نہیں ہو ئے اور تم نے ان لوگوں کو بھی روک دیا جو داخل ہو نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 14 (اے معلمین شریعت اور فریسیو میں تمہارا کیا حشر بتاؤنگا۔تم تو ریاکار ہو۔ “اس لئے تم بیواؤں کے گھروں کو چھین لیتے ہو اور تم لمبی دعا کرتے ہو تا کہ لوگ تمہیں دیکھیں – اس لئے تم کو سخت سزا ہوگی ۔”) [a]

15 “اے معلمین شریعت اے فریسیو! میں تمہا را انجام کیا بتا ؤں تم تو ریا کار ہو تمہا ری (بتا ئی ہوئی ) راہوں کی پیر وی کرنے والوں کی ایک ایک کی تلا ش میں تم سمندروں کے پار مختلف شہروں کے دورے کر تے ہو۔ اور جب اس کو دیکھتے ہو تو تم اس کو اپنے سے بد تر بنا دیتے ہو اور تم نہا یت برے ہو جیسے تم جہنم سے وابستہ ہو۔

16 اے معلمین شریعت اور اے فریسیو!تمہا رے لئے برا ہو گا۔ تم تو لوگوں کو راستہ بتا تے ہو لیکن تم خود اندھے ہو۔ تم کہتے ہو کہ اگر کوئی شخص ہیکل کے نام کے استعمال پر وعدہ لیتا ہے تو اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں۔ اور اگر کوئی ہیکل میں پا ئے جا نے وا لے سونے پر وعدہ لے تو اس کو پورا کرنا چاہئے۔ 17 تم اندھے بیوقوف ہو! کونسی چیز عظیم ہے، سونا یا ہیکل؟ وہ سونا صرف ہیکل کی وجہ سے مقدس ہوا اس لئے ہیکل ہی عظیم ہے-

18 اگر کو ئی قربان گاہ کی قسم کھائے تو کہتے ہو کہ اس کی کو ئی اہمیت ہی نہیں ہے اور اگر کوئی قربان گاہ پر پا ئی جانے وا لی نذر کی چیز پر قسم کھا ئے تو کہتے ہو اس کو پوری کرنی چاہئے۔ 19 تم اندھے ہو تم کچھ نہیں سمجھ تے۔کونسی چیز اہم ہے ؟ نذر یا قربان گاہ؟ نذر میں قربا ن گاہ کی وجہ سے پا کی پیدا ہو تی ہے۔ اس وجہ سے قربان گا ہ ہی عظیم ہے۔ 20 اگر کوئی قربان گاہ کی قسم کھا تا ہے تو گویا قربا ن گاہ اور اس پر جو کچھ نذر کے لئے رکھا ہے اس کی قسم لینے کے برا بر ہے۔ 21 اگر کو ئی ہیکل کی قسم کھا تا ہے تو حقیقت میں وہ ہیکل کی اور اس میں رہنے وا لے کی قسم کھا تا ہے۔ 22 جو آسمان کی قسم کھا تا ہے تو یہ خدا کے عرش اور اس عرش پر بیٹھنے وا لے کی قسم کھا نے کے برا بر ہوگا۔

23 “اے معلمین شریعت اے فریسیو!یہ تمہارے لئے برا ہے! تم ریا کار ہو۔تم اپنی ہر چیز کا یہاں تک کہ پو دینہ، سونف اور زیرے کے پودوں میں بھی قریب قریب دسواں حصہ خدا کو دیتے ہو۔لیکن تم نے شریعت کی تعلیم میں اہم ترین تعلیمات کو یعنی عدل و انصاف ،رحم وکرم اور اصلیت کو ترک کر دیا ہے۔تمہیں خود ان احکا مات کے تا بع ہو نا ہو گا۔اب جن کاموں کو کر رہے ہو انہیں پہلے ہی کرنا چاہئے تھا۔ 24 تم لوگوں کی ر ہنما ئی کر تے ہو۔لیکن تم ہی اندھے ہو۔تم تو پینے کے مشروبات میں سے چھوٹے مچھر کو نکا ل کر بعد میں خود اونٹ کو نگل جا نے وا لو ں کی طرح ہو۔

25 “اے معلمین شریعت ،اے فریسیو! یہ تمہا رے لئے براہے۔تم ریا کا ر ہو۔ تم اپنے بر تن و کٹوروں کے با ہری حصے کو دھو کر صاف ستھرا تو کر تے ہو لیکن انکا اندرونی حصہ لا لچ سے اور تم کو مطمئن کر نے کی چیزوں سے بھرا ہے۔ 26 اے فریسیو تم اندھے ہو پہلے کٹو رے کے اندرونی حصہ کو اچھی طرح صاف کر لو۔ تب کہیں جا کر کٹو رے کے با ہری حصہ حقیقت میں صاف ستھرا ہوگا۔

27 “اے معلمین شریعت اے فریسیو!یہ تمہا رے لئے بہت برا ہے! تم ریا کا ر ہو۔تم سفیدی پھرائی ہو ئی قبروں کی ما نند ہو۔ ان قبروں کا بیرونی حصہ تو بڑا خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔لیکن اندرونی حصہ مردوں کی ہڈیوں اور ہر قسم کی غلاظتوں سے بھرا ہو تا ہے۔ 28 تم اسی قسم کے ہو۔ تم کو دیکھنے والے لوگ تمہیں اچھا اور نیک تصور کرتے ہیں۔ لیکن تمہارا باطن ریا کاری اور بد اعمالی سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔

29 “اے معلمیں شریعت ،اے فریسیو! یہ تمہارے لئے بہت برا ہے! کہ تم ریا کار ہو۔ تم نبیوں کے مقبرے تعمیر کرتے ہو۔ اور تم قبروں کے لوگوں کے لئے تکریم ظاہر کرتے ہو۔ جنہوں نے نفیس زند گی گزاری ہے۔ 30 اور تم کہتے ہو کہ اگر ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں ہو تے تو نبیوں کے قتل و خون میں انکے مدد گار نہ ہو تے۔ 31 اس لئے تم قبول کرتے ہو کہ ان نبیوں کے قاتلوں کی اولاد تم ہی ہو۔ 32 تمہارے باپ دادا ؤں سے شروع کیا ہوا وہ گناہ کا کام تم تکمیل کو پہنچاؤگے۔

33 “تم سانپوں کی طرح ہو۔ اور تم زہریلے سانپوں کے نسل سے ہو! لیکن تم خدا کے غضب سے نہ بچ سکو گے۔ تم سبھوں پر ملزم ہو نے کی مہر لگے گی اور سب جہنم میں گھسیٹے جاؤگے۔ 34 میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں تمہارے پاس نبیوں عالموں اور معلمین کو بھیجو نگا اور تم ان میں سے بعض کو قتل کرو گے۔ اور بعض کو صلیب پر چڑھا ؤ گے۔ اور چند دوسروں کو تمہارے یہودی عبادت گاہوں میں کوڑے ماروگے۔ اور انکو ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو بھگاؤ گے۔

35 اس وجہ سے سطح زمین پر تمام راستبازوں کے کئے گئے قتل کے الزام میں تم قصور وار ٹھہرو گے۔ ہابل جو ایمان دار تھا اس سے لیکر برکیاہ کے بیٹے زکریاہ تک کے قتل کا الزام تمہارے سر آئیگا اسے ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا گیا تھا۔ 36 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس دور میں تم سبھوں پر جو کہ اب رہ رہے ہو یہ سب الزامات عائد ہو تے ہیں۔

یسوع کا یروشلم کے لوگوں پر تاکید کرنا

37 “اے یروشلم اے یروشلم! تو نے نبیوں کو قتل کیا ہے۔ خدا نے جن لوگوں کو تیرے پاس بھیجا انکو پتھّروں سے مار کر تو نے قتل کیا ہے۔ کئی مرتبہ میں تیرے لوگوں کی مد کرنا چا ہا۔ جس طرح مرغی اپنے چوزوں کو اپنے پروں تلے چھپا لیتی ہے۔ اسی طرح مجھے بھی تیرے لوگوں کو یکجا کر نے کی آرزو تھی۔ لیکن تو نے یہ نہیں چاہا۔ 38 دیکھو! تمہارا گھر پوری طرح خالی ہو جائیگا۔ 39 میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم اب سے دوبارہ مجھے نہ دیکھ سکو گے جب تک تم یہ نہ کہو مبارک ہے وہ شخص جو خدا وند کے نام پر آتے ہیں۔” [b]

د س کنواری لڑکیوں سے متعلق تمثیل

25 اس دن آسمان کی بادشاہت کی مثال ایسی ہوگی کہ دس کنواریاں اپنے چراغ لئے ہوئے دولہے سے ملاقات کے لئے گئیں۔ ان میں سے پانچ احمق تھیں۔ اور دیگر پانچ عقلمند تھیں۔ وہ جو کم عقل لڑ کیاں تھیں اپنے ساتھ مشعلوں کے ضرورت کے مطابق تیل نہ لائیں۔ اور جو عقلمند لڑکیاں تھیں وہ اپنی مشعلوں کے لئے حسب ضرورت تیل ساتھ لے لیں۔ دولہے کی تشریف آوری میں تا خیر ہو ئی۔ وہ سب تھک کر اونگھتے ہوئے سو گئیں۔

“کسی نے اعلان کیا کہ آدھی رات گزرنے پر دولہا آرہا ہے! آجاؤ اور اس سے ملاقات کرو۔

“تب تمام لڑ کیاں ہوشیاری سے اپنی تمام مشعلیں تیار کر لیں۔ کم عقلمند لڑ کیاں عقلمند لڑکیوں سے کہنے لگیں کہ تمہارے تیل میں سے تھوڑا سا ہمیں بھی دے دو اس لئے کہ ہماری مشعلوں میں تیل ختم ہو گیا ہے۔

عقلمند لڑکیوں نے جواب دیا کہ نہیں ہمارے پاس جو تیل ہے وہ ہمارے اور تمہارے لئے کافی نہ ہوگا۔ اور کہا کہ دکان کو جاکر تھوڑا تیل اپنے لئے خرید لو۔

10 “تب پانچ کم عقلمند لڑکیاں تیل خرید نے کے لئے چلی گئیں۔ جب وہ جا رہی تھیں کہ دولہا آ گیا۔ وہ لڑکیاں جو نکلنے کے لئے تیار تھیں دولہے کے ساتھ دعوت میں چلی گئیں۔ پھر بعد دروازہ بند کر دیا گیا۔

11 “کم عقلمند لڑکیاں آئیں اور کہنے لگیں کہ جناب جناب اندر جانے کے لئے ہمارے واسطے دروازہ کھولدو۔

12 لیکن دولہے نے جواب دیا، “میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں کہ تم کون ہو یہ میں نہیں جانتا۔

13 “اس وجہ سے تم ہمیشہ تیار رہو۔ اسلئے کہ ابن آدم کے آنے کا دن یا وقت تو تم نہیں جانتے۔

تین نوکروں سے متعلق تمثیل

14 “آسمانی بادشاہت ایک ایسے آدمی سے مشابہ ہے کہ جو اپنے گھر کو چھو ڑ کر دوسرے مقام پر کسی سے ملاقات کرنے کے لئے سفر کرتا ہو وہ آدمی سفر پر نکلنے سے پہلے اپنے نوکر سے بات کر کے اپنی جائیداد کی نگرانی کرنے کے لئے کہا ہو۔ 15 وہ ان نوکروں کی استطاعت کے مطابق انکو کتنی ذمہ داری دی جائے اسکا اس نے فیصلہ کر لیا۔ اس نے ایک نوکر کو پانچ توڑے [a] اور دوسرے کو دو توڑے دیا۔ تیسرے نوکر کو ایک توڑا دیا۔ پھر وہ دوسری جگہ چلا گیا۔ 16 جس نوکر نے پانچ توڑے لیا تھا اس نے فوراً اس رقم کو تجارت میں لگایا۔ اور اس سے مزید پانچ توڑے نفع کمایا۔ 17 اور جس نوکر نے دو توڑے پایاتھا اسی طرح اس نے بھی اس رقم کو کار وبار میں لگایا۔ اور دو توڑے کا منافع کمایا۔ 18 لیکن جس نے ایک توڑا پایا تھا وہ چلا گیا اور زمین میں ایک گڑھا کھودا اور اپنے آقا کی رقم کو چھپا کر رکھ دیا۔

19 “ایک عرصہ دراز کے بعد مالک گھر آیا اور اپنی دی ہو ئی رقم کے بارے میں اپنے نوکروں سے حساب پو چھا۔ 20 وہ نوکر جس نے پانچ توڑے پائے تھے اس نے مزید پانچ توڑے اپنے مالک کے سامنے لائے اور کہنے لگا کہ میرے مالک تم نے مجھ پر اعتماد کر کے پانچ توڑے دیئے تھے تو میں نے اس کو کاروبار میں شامل کیا اور دیکھو پانچ تورے میں نے کمائے ہیں۔

21 “مالک نے کہا کہ تو ایک اچھا اور قابل بھروسہ نوکر ہے۔ اس چھو ٹی سی رقم کو اچھے انداز سے استعمال میں لا یا ہے۔ اس وجہ سے میں تجھے اس سے بھی ایک بڑا کام دونگا۔ اور تو بھی میری خوشی میں شریک ہو جا۔

22 “پھر دو توڑے والا نوکر اپنے مالک کے پاس آکر کہنے لگا کہ میرے مالک! تو نے مجھے صرف دو توڑے دیئے تھے میں نے اس رقم کو استعمال کیا اور اس سے مزید دوتوڑے کمایا ہوں۔

23 “مالک نے جواب دیا کہ تو بھی ایک قابل اعتماد اچھا نوکر ہے۔ تو نے اس چھو ٹی سی رقم کو ایک اچھے انداز میں خرچ کیا۔ اس کی وجہ سے میں تجھے اس سے بھی ایک برا کام دونگا۔ اس لئے تو میری خوشحالی میں شامل ہو جا۔

24 “تب ایک توڑا پا نے والا نوکر اپنے مالک کے پاس آکر کہتا ہے کہ اے میرے مالک! تو ایک سخت آدمی ہے۔ تو ایسی جگہ سے پا تا ہے جہاں تو بویا ہی نہیں ہے۔ اور جہاں تخم ریزی نہیں کر تا ہے وہاں سے فصل کو کاٹتا ہے۔ 25 اس وجہ سے میں نے گھبراکر تیری رقم کو زمین میں چھپا دیا ہے۔ اور کہا کہ تو نے مجھے جو رقم دے رکھی تھی وہ یہاں ہے اسکو لے لے۔

26 “اس پر مالک نے کہا کہ تو ایک سست و لا پرواہ اور برا نوکر ہے اور کیاتجھے یہ بات معلوم نہیں ہے کہ میں تخم ریزی نہ کرنے کی جگہ سے فصل پاتا ہوں اور جہاں بیج نہیں بوتا ہوں وہاں سے فصل کاٹتا ہوں۔ 27 اس لئے تجھے چاہئے تھا کہ تو میری رقم کو سود پر دیتا۔ تب اصل رقم کے ساتھ میں سود بھی پا لیتا۔

28 “تب مالک نے اپنے دوسرے نوکروں سے کہا کہ اس سے وہ ایک توڑا لے لو اور اس کو دیدو جس نے پانچ توڑے پا ئے ہیں۔ 29 اپنے پاس کی رقم جو کام میں لا تا ہے ہر ایک کو بڑھا کر دیا جائیگا اور جس کسی نے اسکا استعمال نہ کیا تو اس آدمی کے پاس جو بھی رقم ہو گی اسے چھین لی جائیگی۔ 30 پھر اس نوکر کے بارے میں یہ حکم دیا کہ بیکار کے نوکر کو باہر اندھیرے میں دھکیل دو جہاں لوگ تکلیف کا ماتم کرتے ہوئے اپنے دانتوں کو پیستے ہونگے۔

ابن آدم سے سب کے لئے دیا جانے والا فیصلہ

31 “ابن آدم دوبارہ آئیگا۔ وہ عظیم جلال کے ساتھ آئیگا۔ انکے تمام فرشتے انکے ساتھ آئینگے۔ وہ بادشاہ ہے اور عظیم تخت پر جلوہ فگن ہوگا۔ 32 تمام لوگ زمین پر ابن آدم کے سامنے جمع ہونگے۔ ایک چرواہا جس طرح اپنی بھیڑوں کو بکریوں سے الگ کرتا ہے ٹھیک اسی طرح وہ انکو الگ کریگا۔ 33 ابن آدم بھیڑوں کو اپنی داہنی جانب اور بکریوں کو اپنی بائیں جانب کھڑا کرے گا

34 “تب بادشاہ اپنی داہنی جانب وا لے لوگوں سے کہے گا کہ آؤ میرے با پ نے تمہا رے لئے بڑی بر کتیں دی ہیں۔ آؤ اور خدا نے تم سے جس سلطنت کو دینے کا وعدہ کیا ہے اس کو پا لو۔ وہ سلطنت قیام دنیا کے وجود سے ہی تمہا رے لئے تیار کی گئی ہے۔ 35 تم اس سلطنت کو حا صل کرو۔ کیوں کہ میں بھو کا تھا۔ اور تم لوگوں نے کھا نا دیا۔میں پیاسا تھا اور تم نے مجھے کچھ پینے کے لئے دیا۔ میں جب اکیلا گھر سے دور تھا تو لوگوں نے مجھے اپنے گھر مہمان بنا یا۔ 36 اور میں بغیر کپڑوں سے تھا تو تم نے مجھے پہننے کے لئے کچھ دیا میں بیمار تھا اور تم نے میری بیمار پرسی کی۔ میں قید میں تھا اور تم مجھے دیکھنے کے لئے آئے۔

37 “تب نیک اور سچے لوگ کہیں گے اے ہمارے خداوند تجھے بھوکا دیکھ کر ہم نے کب تجھے کھا نا دیا ؟ اور تجھے پیا سا دیکھ کر ہم نے تجھے کب پانی دیا۔ 38 اور تجھے تنہا وطن سے دور دیکھ کر ہم نے کب تجھے مہمان بنایا اور کب تجھے بغیر کپڑوں کے دیکھ کر پہننے کے لئے کچھ دیئے۔ 39 ہم نے کب تجھے بیمار دیکھا یا قید میں اور تیری خاطر مدد کی۔

40 “تب بادشاہ جواب دیگا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم یہاں میرے بندوں کے ساتھ جو کچھ کر تے ہو گویا کہ وہ میرے ساتھ کر نے کے برابر ہے۔

41 پھر بادشاہ نے اپنی داہنی جانب کے لوگوں سے کہا کہ میرے پاس سے دور ہو جاؤ۔ خدا نے تمہیں سزا دینے کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا ہے۔ آ گ میں جاؤ جو ہمیشہ جلا ئیگی۔ وہ آ گ شیطان اور اسکے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی تھی۔ 42 کیوں کہ میں بھوکا تھا اورتم لوگوں نے مجھے کھا نا نہ دیا۔ اور تم چلے گئے۔ اور میں پیاسا تھا تم لوگوں نے مجھے پینے کے لئے کچھ نہ دیا۔ 43 میں تنہا تھا، اور گھر سے دور تھا اور تم لوگوں نے مجھے اپنے گھر میں مہمان نہ ٹھہرایا۔ اور میں کپڑوں کے بغیر تھا لیکن تم لوگوں نے مجھے پہنے کے لئے کچھ نہ دیا۔ میں بیمار تھا اور قیدخانے میں تھا اور تم نے میری طرف نظر نہ اٹھا ئی۔

44 “تب ان لوگوں نے جواب دیا اے خدا وند ہم نے کب دیکھا کہ تو بھو کا اور پیاسا تھا ؟ اور تو کب اکیلا اور گھر سے دور تھا ؟ یا کب ہم نے تجھے بغیر کپڑوں کے یا بیما ر یا قید میں دیکھا ؟ تجھے ان تما م با توں کو دیکھ نے کے با وجود بھی ہم تیری مدد کئے بغیر کب گئے۔ ؟

45 “تب بادشا ہ انہیں جواب دے گا میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ تم نے یہاں میرے بے شمار بندوں کے لئے کچھ کر نے سے انکا ر کیا تو میرے لئے بھی انکار کیا۔

46 “پھر برے لوگ وہاں سے نکل جا ئیں گے۔ اور انہیں روزانہ سزا ملتی رہے گی لیکن نیک و راستباز لوگ ہمیشگی کی زندگی پا ئیں گے۔”

یسوع کی دعا شاگردوں کے لئے

17 جب یسوع یہ ساری باتیں کہہ چکے تو اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھا کر کہا!” اے باپ! وہ وقت آگیا ہے کہ بیٹے کو جلا ل عطا کر تا کہ بیٹا تمہیں جلا ل دے سکے۔ تم نے بیٹے کو ہر بشر پر اختیا ر دیا تا کہ میں ان کو ابدی زندگی دے سکو ں جن کو تو نے میرے حوا لہ کیا ہے۔ اور یہی ابدی زندگی ہے کہ آدمی تجھے جان سکے کہ تو ہی سچا خدا ہے اور یسوع مسیح کو جان سکے جسے تو نے بھیجا ہے۔ وہ کام جو تو نے میرے ذمہ کیا تھا میں وہ ختم کیا۔ اور تیرے جلا ل کو زمین پر ظا ہر کیا۔ اور اب اے باپ اپنے ساتھ مجھے جلا ل دے اور اسی جلا ل کو دے جو دنیا بننے سے پہلے تیرے ساتھ مجھے حا صل تھا۔

“تو نے مجھے دنیا میں سے چند آدمیوں کو دیا میں نے تیرے بارے میں انہیں بتا یا میں نے یہ بھی بتا یا کہ تو کون ہے وہ آدمی تیرے ہی تھے جو تو نے مجھے دیئے تھے۔ انہوں نے تیری تعلیمات پر عمل کیا۔ اب انہوں نے یہ جان لیا کہ جو کچھ تو نے مجھے دیا وہ تیری ہی طرف سے تھا۔ “جو تو نے مجھے دیا تھا، اسی تعلیما ت کو میں نے ان لوگوں کو دی۔ انہوں نے تعلیما ت کو قبول کیا۔ اور سچ مانا کہ میں تیری ہی طرف سے آیا ہوں اور ایمان لا ئے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے۔ ان کے لئے میں دعا کرتا ہو ں۔ میں دنیا کے لوگوں کے لئے دعا نہیں کرتا لیکن میں ان کے لئے دعا کرتا ہو ں جو تو نے مجھے دیا کیوں کہ وہ تیرے ہیں۔ 10 جو کچھ میرے پا س ہے وہ تیرا ہی ہے جو کچھ تیرا ہے وہ میرا ہے اور انہی کی وجہ سے یہ لوگ میرے جلا ل کو لا تے ہیں۔

11 آئندہ میں دنیا میں نہ ہوں گا اب میں تیرے پاس آرہا ہوں اور اب یہ لوگ دنیا میں رہیں گے مقدس باپ انہیں محفوظ رکھ اپنے نام کے وسیلہ سے جو تو نے مجھے بخشا ہے تا کہ وہ متفق ہو ں جیسا کہ ہم متفق ہیں۔ 12 میں نے تیرے اس نام کے وسیلے سے جب تک رہا ان کی حفا ظت کی اور ان کو بچا ئے رکھا ان میں سے ایک آدمی نہیں کھو یا سوا ئے ایک جس کا انتخاب ہلا کت کے لئے تھا۔ وہ اس لئے ہلا ک ہوا تا کہ صحیفوں کا لکھا پورا ہو۔

13 “اب میں تیرے پاس آرہا ہوں لیکن میں ان چیزوں کے لئے جب تک میں دنیا میں ہو ں دعا کرتا رہو ں تا کہ ان لوگوں کو میری خوشی حا صل ہو۔ 14 میں نے تیرا کلام (تعلیمات) انہیں پہنچا دیا اور دنیا نے ان سے نفرت کی۔ دنیا نے ان سے اس لئے نفرت کی کہ وہ ا س دنیا کے نہیں جیسا کہ میں اس دنیا کا نہیں۔

15 میں یہ نہیں کہتا کہ تو انہیں دنیا سے اٹھا لے بلکہ میں یہ کہتا ہو ں کہ تو انہیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھ۔ 16 جیسا کہ میں اس دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں۔ 17 تو انہیں سچا ئی سے اپنی خدمت کے لئے تیار کر تیری تعلیمات سچ ہیں۔ 18 میں نے انہیں دنیا میں بھیجا جس طرح تو نے مجھے بھیجا۔ 19 میں اپنے آپ کو خدمت کے لئے تیار کررہا ہو ں۔ یہ ان ہی کے لئے کررہا ہو ں تا کہ وہ میری سچی خدمت کر سکیں۔

20 “میں ان لوگوں کے لئے دعا کر تا ہو ں بلکہ میں ان تمام لوگوں کے لئے دعا کر تا ہو ں جو ان کی تعلیمات سے مجھ پر ایمان لا ئے۔ 21 اے باپ! میں دعا کرتا ہو ں کہ تمام لوگ جو مجھ پر ایمان لا ئے ایک ہو ں جس طرح میں تجھ میں ہوں اور میں دعا کرتا ہو ں کہ وہ بھی ہم میں متفق ہو جا ئیں۔ تا کہ دنیا ایمان لا ئے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے۔ 22 میں نے انہیں وہی جلال دیا ہے جسے تو نے مجھے دیا تھا۔ میں نے انہیں یہ جلا ل دیا تا کہ وہ ایک ہو سکیں جیسے تو اور میں ایک ہیں۔ 23 میں ان میں ہوں اور تو مجھ میں ہے تا کہ وہ تمام با لکل ایک ہو جا ئیں اور دنیاجان لے کہ تو نے مجھے بھیجا ہے۔اور تو نے ان سے ایسی محبت کی جس طرح مجھ سے۔

24 “اے باپ! میں چا ہتا ہو ں کہ جن لوگوں کو تو نے مجھے دیا ہے وہ میرے ساتھ ہر جگہ رہیں جہاں میں رہتا ہو ں تا کہ وہ میرے جلا ل کو دیکھیں جو تو نے مجھے دیا ہے کیوں کہ تو دنیاکے وجود کے پہلے سے مجھے عزیز رکھتا ہے۔ 25 اے اچھے باپ دنیا نے تجھے نہیں جانا لیکن میں تجھے جانتا ہو ں اور یہ لوگ جانتے ہیں کہ تو نے مجھے بھیجا ہے۔ 26 میں نے انہیں بتا یا ہے کہ تو کیا ہے اور لگا تار بتا تا رہوں گا کہ جو محبت تجھ کو مجھ سے ہے وہ انہیں ہو اور میں ان میں رہوں۔”