Skip to content

عمومی سوالات FAQs

تورات شریف سے حضرت اسمعیل کے حالات

حضرت اسمعیل کے ساتھ جو ہوا اس کے بارے میں مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ حضرت موسٰی کے وسیلے سے تورات 3500 سال پہلے لکھی گئی اور اس بات کی وضاحت میں ہماری مدد کرتی ہے۔کہ حضرت اسمعیل کی زندگی کو سمجھ سکیں ۔ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا تھاکہ وہ اُس کو برکت دے گا اور اُس کی نسل کو سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کردے گا۔( اس وعدہ کو یہاں پڑھیں) حضرت ابراہیم نے اپنی دونوں بیویوں سے دو بیٹوں کو حاصل پایا۔ لیکن ان کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا اور حضرت ابراہیم حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل کو دور بھجنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ جھگڑا دو مراحل میں واقعہ ہوا۔ پہلا واقعہ حضرت اسمعیل کی پیدائش کے بعد اور حضرت اضحاق کی پیدائش سے پہلے واقع ہو۔ براہ مہربانی یہاں پڑھیں کہ تورات شریف اسکے بارے میں کیا کہتی ہے۔ اور کیسے اللہ تعالٰی نے حضرت ہاجرہ کو  محفوظ کیا اور حضرت اسمعیل کو اپنی برکت عطا کی۔

(حضرت ہاجرہ اور حضرت اسٰمعیل (پیدایش کی کتاب 16 باب

1 اور ابرام کی بیوی ساری کے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ اُس کی ایک مصری لونڈی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا۔

2 اور ساری نے ابرام سے کہا دیکھ خداوند نے مجھے تو اولاد سے محروم رکھا ہے سو تو میری لونڈی کے پاس جا شائد اُس سے میرا گھر آباد ہو اور ابرام نے ساری کی بات مانی ۔

3 ابرام کو ملک کنعان میں رہتے دس برس ہوگئے تھے جب اُس کی بیوی ساری نے اپنی مصری لونڈی اُسے دی کہ اُس کی بیوی بنے۔

4 اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی اور جب اُسے معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہوگئی تو اپنی بی بی کو حقیر جاننے لگی۔

5 تب ساری نے ابرام سے کہا کہ جو ظلم مجھ پر ہوا وہ تیری گردن پر ہے۔ میں نے اپنی لونڈی تیرے آغوش میں دی اور اب جو اُس نے آپ کو حاملہ دیکھا تو میں اُس کی نظروں میں حقیر ہوگئی۔ سو خداوند میرے اور تیرے درمیان انصاف کرے۔

6 ابرام نے ساری سے کہا کہ تیری لونڈی تیرے ہاتھ میں ہے جو تجھے بھلا دکھائی دے سو اُس کے ساتھ کر ۔ تب ساری اُس پر سختی کرنے لگی اور وہ  اُس کے پاس سے بھاگ گئ۔

7 اور وہ خداوند کے فرشتہ کو بیابان میں پانی کے ایک چشمہ کے پاس ملی ۔ یہ وہی چشمہ ہے جو شور کی راہ پر ہے۔

8 اور اُس نے کہا اے ساری کی لونڈی ہاجرہ تو کہاں سے آئی اور کدھر جاتی ہے؟ اُس نے کہا کہ میں اپنی بی بی ساری کے پاس سے بھاگ آئی ہوں۔

9 خداوند کے فرشتہ نے اُس سے کہا کہ تو اپنی بی بی کے پاس لوٹ جااور اپنے کو اُس کے قبضہ میں کردے ۔

10 اور خداوند کے فرشتہ نے اُس کے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاوں گا یہاں تک کہ کثرت کے سبب سے اُس کا شمار نہ ہو سکے گا۔

11 اور خداوند کے فرشتہ نے اُس سے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا ہوگا۔ اُس کا نام اسمعیل رکھنا اس لیے کہ خداوند نے تیرا دُکھ سن لیا۔

12 وہ گورخر کی طرح آزادمرد ہوگا۔ اُس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اُس کے خلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بسارہے گا۔

13 ہاجرہ نے خداوند کا جس نے اُس سے باتیں کیں اتاایل روئی نا رکھا یعنی اے خداوند تو بصیر ہے کیونکہ اُس نے کہا کیا میں نے یہاں بھی اپنے دیکھنے والے کو جاتے ہوئے دیکھا۔

14 اسی سبب سے اُس کنوئیں کا نام بیرلحی روئی پڑگیا ۔ وہ قادس اور برد کے درمیان ہے۔

15 اور ابرام سے ہاجرہ کے ایک بیٹا ہوا اور ابرام نے اپنے اُس بیٹے کا نام ہاجرہ سے پیدا ہوا اسمعیل رکھا۔

16 اور جب ابرام سے ہاجرہ کے اسمعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا۔

ہم ان آیات میں دیکھتے ہیں۔ کہ حضرت ہاجرہ ایک نبیہ تھی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بات کرتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اپنے بیٹے کا نام اسماعیل رکھنا اور اللہ تعالیٰ نے اُس سے وعدہ کیا کہ وہ اسماعیل کو شمار میں بہت بڑھا دے گا۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کرنے اور وعدہ ملنے کی وجہ سے حضرت ہاجرہ اپنی مالکن کے پاس واپس آجاتی ہے اور جھگڑا تھوڑی دیر کے لیے روک جاتا ہے۔

جھگڑا دوبارہ بڑھتا ہے

لیکن جب 14 سال بعد حضرت اضحاق حضرت سارہ کے گھر پیدا ہوا تو یہ جھگڑا پھر سے شروع ہوگیا۔ ہم اس کو تورات میں پڑھ سکتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا۔

پیدایش 21: 8-21

8 اور وہ لڑکا بڑھا اور اُس کا دودھ چھرایا گیا اور اضحاق کے دودھ چھڑانے کے دن ابرام نے بڑی ضیافت کی ۔

9 اور سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصری کا بیٹا جو اُس کے ابرہام سے ہوا تھا ٹھٹھے مارتا ہے۔

10 تب اُس نے ابرام سے کہا کہ اس لونڈی کو اور اُس کے بیٹے کو نکال دے کیونکہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اضحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا۔

11 پر ابرہام کو اُس کے بیٹے کے باعث یہ بات نہایت بُری معلوم ہوئی۔

12 اور خدا نے ابرہام سے کہا کہ تجھے اس لڑکے اور اپنی لونڈی کے باعث بُرا نہ لگے۔ جو کچھ سارہ تجھ سے کہتی ہے تو اُس کی بات مان کیونکہ اضحاق سے تیری نسل کا نام چلے گا۔

13 اور اس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا اس لیے کہ وہ تیری نسل ہے۔

14 تب ابرہام نے صبح سویرے اُٹھ کر روٹی اور پانی کی ایک مشک لی اور اُسے ہاجرہ کو دیا بلکہ اُسے اُس کے کندھے پر دھر دیا اور لڑکے کو بھی اُس کے حوالہ کرکے اُسے رخصت کردیا۔ سو وہ چلی گئی اور بیرسبع کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی۔

15 اور جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو اُس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا۔

16 اور آپ اُس کے مقابل ایک تیر کے ٹپے پر دور جا بیٹھی اور کہنے لگی کہ میں اس لڑکے کا مرنا تو نہ دیکھوں۔ سو وہ اُس کے مقابل بیٹھ گئی اور چلا چلا کر رونے لگی۔

17 اور خدا نے اُس لڑکے کی آواز سنی اور خدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجرہ کو پکارہ اور اُس سے کہا اے ہاجرہ تجھ کو کیا ہوا؟ مت ڈر کیونکہ خدا نے اُس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اُس کی آواز سن لی ہے۔

18 اُٹھ اور لڑکے کو اُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیونکہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بناوں گا۔

19 پھر خدا نے اُس کی آنکھیں کھولیں اور اُس نے پانی سے بھرلیا اور لڑکے کو پلایا۔

20 اور خدا اُس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑا ہوا اور بیابان میں رہنے لگا اور تیرانداز بنا۔

اور وہ فاران کے بیابان میں رہتا تھا اور اُس کی ماں نے ملک مصر سے اُس کے لیے بیوی لی۔

ہم یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت سارہ ( اُسکا نام ساری سے سارہ میں  تبدیل ہوگیا) حضرت ہاجرہ کے ساتھ ایک گھر میں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ اور اُس نے مطالبہ کیا کے حضرت ہاجرہ کو دور بھیج دیا جائے۔ حضرت ابراہیم کے لیے یہ بہت مشکل تھا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا کہ وہ حضرت ہاجرہ کو اور حضرت اسمعیل کو برکت دے گا۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے حضرت ہاجرہ پر ظاہر پر ہوا اور اُس نے اُسکی آنکھیں کھولیں تاکہ بیابان میں پانی کو دیکھ سکے اور وعدہ کیا کہ وہ اسمعیل کو بڑی قوم بنائے گا۔ تورات شریف ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے یہ قوم نے ترقی کرنا شروع کردی۔ ہم حضرت اسمعیل کے بارے میں حضرت ابراہیم کی وفات کے وقت پڑھتے ہیں۔

پیدایش 25: 8-18

8 تب ابرہام نے دم چھوڑ دیا اور خوب بڑھاپے میں نہایت ضعیف اور پوری عمر کا ہوکر وفات پائی اور اپنے لوگوں میں جاملا۔

9 اور اُس کے بیٹے اضحاق اور اسمعیل نے مکفیلہ کے غار میں جو ممرے کے سامنے جتی صحر کے بیٹے عفرون کے کھیت میں ہے دفن کیا۔

10 یہ وہی کھیت ہے جسے ابرہام نے بنی جت سے خریدا تھا۔ وہیں ابرہام اور اُس کی بیوی سارہ دفن ہوئے۔

11 اور ابرہام کی وفات کے بعد خدا نے اُس کے بیٹے اضحاق کو برکت بخشی اور اضحاق بیرلحی روئی کے نزدیک رہتا تھا۔

12 یہ نسب نامہ ابرہام کے بیٹے اسمعیل کا ہے جو ابرہام سے سارہ کی لونڈی ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوا۔

13 اور اسمعیل کے بیٹوں کے نام یہ ہیں۔ یہ نام ترتیب وار ان کی پیدایش کے مطابق ہیں۔ اسمعیل کا پہلوٹھا نبایوت تھا۔ پھر قیدار اور اوبئیل اور میسام ۔

14 اور مشماع اور دومہ اور مسا۔

15 حدد اور تیما اور یطور اور نفیس اور قدمہ

16 یہ اسمعیل کے بیٹے ہیں اور ان ہی کے ناموں سے ان کی بستیاں اور چھاونیاں نامزد ہوئیں اور یہی بارہ اپنے اپنے قبیلہ کے سردار ہوئے۔

17 اور اسمعیل کی کل عمر ایک سو سینتیس برس کی ہوئی تب اُس نے دم چھوڑ دیا اور وفات پائی اور اپنے لوگوں میں جاملا۔

18 اور اُس کی اولاد حویلہ سے شور تک جو مصر کے سامنے اُس راستہ پر ہے جس سے اسور کو جاتے ہیں آباد تھی۔ یہ لوگ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بسے ہوئے تھے۔

ہم نے دیکھا کہ حضرت اسمعیل  نے لمبے عرصہ زندگی گذاری اور اُس کے بیٹوں نے بارہ قبیلعے بنائے۔ اللہ تعالٰی نے اُس کو برکت دی جسکا اُس نے وعدہ کیا تھا۔

میرے بہت سارے دوست، جب کبھی حضرت ابراہیم کی قربانی کے واقعہ کی بات کرتے ہیں۔ تو ہر بار وہ زور دیتے ہیں۔ کہ حضرت ابراہیم کا بڑا بیٹا جو حضرت ہاجرہ سے پیدا ہوا۔ جسکا نام حضرت اسماعیل کی قربانی گزرانی گئی۔ تاہم میں نے جب قرآن شریف کی آیت کو پڑھا توحیران ہوگیا۔ جب میں نے اسی آیت کو اپنے دوستوں کو پڑھنے کو کہا تو وہ بھی پڑھ کر حیران سے ہوگئے۔ اس آیت میں ایسا کیا لکھا ہے؟ جو سب حیران ہوگے۔ حضرت ابرہیم کی تیسری نشانی کے اہم واقعہ میں ہم نے پڑھا اور پاک کتابوں میں سے جو حوالہجات پیش کئے گے۔ ان میں سے ایک خاص آیت کو میں نے یہاں پیش کیا ہے۔

سورۃ الصافات 37: 102

پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے۔ کہا میرے باپ کی جیئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے، اللہ نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔

آپ اس حوالے میں دیکھ سکتے ہیں۔ کہ حضرت ابراہیم کی قربانی کے واقعہ میں اس کے بیٹے کا نام بیان نہیں کیا گیا۔ تو اس طرح مسلہ مبہم ہو جاتا ہے۔ جب کوئی مسلہ یا چیز مبہم ہو جاتی ہے۔ تو بہترین حال یہ ہے کہ تحقیق اور مطالعہ کیا جائے۔ جب آپ ہورے قرآن شریف میں حضرت اسماعیل کے نام کی تحقیق کرتے ہیں۔ تو پورے قرآن شریف میں کُل 12 بار حضرت اسماعیل کا نام آیا ہے۔

  • دو بار حضرت اسماعیل کا ذکر اُن کے والد کے ساتھ آیا پے۔  2:125،127
  • پانچ بار حضرت اسماعیل کا ذکر اُن کے بھائی اور والد کے ساتھ آیا ہے۔ 2:140، 2:136، 2:133، 4:163، 3:84
  • پانچ بار ان کا ذکر انبیاء اکرام کے ساتھ ذکرآیا ہے۔ 6:86، 14:39، 19:54، 21:85، 38:48
  • جہاں دو بار حضرت اسماعیل کا ذکر ان کے والد کے ساتھ آیا ہے تو وہاں دعا کا ذکر ہے۔ قربانی کا ذکر نہیں ہے۔

سورۃ البقرہ    2:125،127

اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لیے مربع اور امان بنایا اور ابرہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناوٰ اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف کرنے والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجدہ والوں لے لیے۔  125

اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے میرے رب اس شہر کو امان والا کررے اور اس کے رہنے والوں کو طرح طرح کے پھلوں سے روزی دے جو ان میں سے اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائیں فرمایا اور جو کافر ہوا تھوڑا برتنے کو اسے بھی دوں گا پھر اسے عذاب دوزخ کی طرف مجبور کردوں گا اور بہت بری جگہ ہے پلٹنے کی۔ 127

لہذا قرآن شریف نے کھبی حضرت اسماعیل کا نام لیکر یہ نہیں کہا۔ کہ حضرت اسماعیل ہی قربان ہونے کے لیے آزمائے گے۔ وہاں صرف بیٹا کہا کر ذکر کیا گیا ہے۔ تو پھر کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت اسماعیل ہی قربانی کے لیے آزمائے گے؟

حضرت ابراہیم کے بیٹے کی قربانی کی تفسیر:

یوسف علی کو قابلِ اعتماد قرآن شریف کی تفسیر کرنے والا اور ترجمہ کرنے والا مانا جاتا ہے۔ اس کی تفسیر کے چند نوٹ یہاں پر موجود ہیں۔ جس میں حضرت ابراہیم کے بیٹے کی قربانی کا ذکر ہے۔

4071

یہ شام اور فلسطین کی زرخیز زمین تھی۔ اسلامی روایات کے مطابق پہلا حضرت اسماعیل تھا۔ اس نام کی جڑ سمیاہ سے ہے۔ جسکا مطلب سننا  ہے۔ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم کی دعا سن لی تھی۔ حضرت ابراہیم کی عمر 86 برس کی تھی۔ جب حضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔  پیدایش کی کتاب 16:16

4076

ہمارے ترجمہ کا یہودیوں اور عسیائیوں کے پرانے عہدنامے کا ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت اضحاق اس وقت پیدا ہوئے جب حضرت ابراہیم 100 برس کے تھے۔ پیدایش کی کتاب 2:15 اور حضرت اسماعیل کی پیدایش کے وقت حضرت ابراہیم 86 برس کے تھے۔ پیدایش کی کتاب 16:16 تو حضرت اضحاق کی پیدایش پر حضرت اسماعیل 14 برس کے تھے۔ ان 14 برسوں میں صرف حضرت اسماعیل ہی حضرت ابراہیم کے بیٹے تھے۔ اُس وقت حضرت اضحاق حضرت ابراہیم کا بیٹا نہیں تھا۔ پرانے عہد نامے میں قربانی کے بارے میں یوں لکھا ہے۔

  پیدایش کی کتاب 22:2

تب آس نے کہا کہ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لیکر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاونگا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔

پہلے نوٹ میں یوسف علی نے صرف اس بات کو بنیاد بنایا ہے کہ یہ ایک اسلامی روایت ہے۔ اُس نے قرآن شریف میں سے کوئی حوالہ نہیں دیا۔

اُس نے اپنے دوسرے نوٹ میں۔ اس بات پر غور کیا کہ ” اپنے اکلوتے بیٹے کو جو تیرا بیٹا ہے۔        پیدایش کی کتاب 22:2 اور اسماعیل 14 برس کا تھا اس لیے حضرت اسماعیل ہی کو قربانی کے لیے پیش کیا ہوگا۔ لیکن یہاں یوسف علی اس بات کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ پچھلے باب میں پیدایش کی کتاب 21 میں حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کو خاندان میں جھگڑا ہونے کی وجہ سے دور بھیج دیا تھا۔ اس  جھگڑے کے بارے میں یہاں تفصیل سے پڑھیں۔ کلیک کریں

حضرت ابراہیم کے بیٹے کی قربانی کے لیے تورات کی گواہی۔

لہذا قرآن شریف خاص طور پر بیان نہیں کرتا کہ کس بیٹے کو قربانی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ لیکن تورات شریف میں اس کا ذکر بڑھے واضح انداز سے ہوا ہے۔ آپ اس حوالے میں دکھ سکتے ہیں۔ اس ایک باب میں کُل 6 بار حضرت اضحاق کے نام کا ذکر ہوا ہے۔ 22:2،3،7،6 اور 2 بار 9 ویں ایت میں۔

حضرت محمد، توریت شریف کی حمایت کرتے ہیں:

جو تورات شریف آج ہمارے پاس موجود ہے۔ اسی تورات کو حضرت محمد کی حمایت حاصل ہے۔ جسکا ذکر ایک احدیث میں بڑا واضح آیا ہے۔

عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے: یہودیوں کا ایک گروپ آیا اور رسول اللہ کو دعوت دی … انہوں نے کہا کہ: ‘ابو القاسم، ہمارے لوگوں میں سے ایک کسی عورت سے زنا کا ارتکاب کیا ہے. تاکہ ان پر فیصلہ سنیا جائے۔ اللہ کے رسول کے لئے ایک تکیا رکھا گیا۔ وہ اس پر بیٹھ گئے اور آپ نے کہا کہ. "توریت لے آؤ”:. اس کے بعد تورات کو لایا گیا. اس کے بعد انہوں نے اپنے نیچے سے تکیا لیکر اس پر تورات کو رکھ دیا: اور یوں کہا ” میں تجھ پر اور جس نے تجھ کو نازل کیا ہے ایمان رکھتا ہوں”

سنن ابوداود کتاب 38، نمبر 4434

حضرت عیسٰی مسیح، توریت شریف کی حمایت کرتے ہیں

جوتورات شریف آج ہمارے پاس موجود ہے۔ حضرت عیسٰی مسیح نے بھی اسی تورات شریف کی حمایت کی ہے۔ جس کو ہم نے میری ایک پوسٹ میں دیکھا ” کس طرح انہوں نے اعادہ کیا کہ پہلی کتابیں ہمارے لئے سب سے اہم تھیں"اس مضمون میں اس کی طرف سے ایک حوالے میں حضرت عیسٰی کا کہنا ہے کہ

متی 5 : 18-19

کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلیگا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑیگا اور یہی آدمیوں کو سکھائیگا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائیگا لیکن جو اُن پر عمل کریگا اور اُنکی تعلیم دیگا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائیگا۔

انتباہ! تورات سے بڑھ کر کوئی روایت نہیں

یہ کبھی بھی روا نہیں ہوگا کہ ایک ہلکی سی روایت کے لیے حضرت موسٰی کی تورات کو برطرف کردیا جائے۔ حقیقت میں حضرت عیسٰی مسیح یہودیوں پر سخت تنقید کرتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی روایات کو تورات شریف سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ حضرت عیسٰی مسیح کا یہودی رہنماوں کے ساتھ اختلاف یہاں اسی حوالے میں دیکھ سکتے ہیں۔

متی 15 : 3-8

اس نے جواب میں اُن سے کہا کہ تم اپنی روایت سے خدا کا حکم کیوں ٹال دیتے ہو؟۔ کیونکہ خدا نے فرمایا ہے تو اپنے باپ کی اور اپنی ماں کی عزت کرنا اور جو باپ یا ماں کو بُرا کہے وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ مگر تم کہتے ہو کہ جو کوئی باپ یا ماں سے کہے کہ جس چیز کے تجھے مجھ سے فائدہ پہنچ سکتا تھا وہ خدا کی نذر ہو چکی۔ تو وہ اپنے باپ کی عزت نہ کرے۔ پس تم نے اپنی روایت سے خدا کا کلام باطل کردیا۔ اے ریاکارو یسعاہ نے تہمارے حق میں کیا خوب نبوت کی کہ۔ یہ امت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر انکا دل مجھ سے دور ہے۔

نبی انتباہ یا ورننگ کرنا بڑا واضع ہے کہ روایت کے لیے اللہ لعالیٰ کے پیغام کو بر طرف نہیں کرنا چاہئے۔

آج بحیرہ مردار کے صحیفۓ تورات شریف کی صداقت پیش کرتے ہیں

مندرجہ ذیل تصویر سے ہمیں تورات شریف کے ابتدائی مسودات کی تاریخوں کا پتا چلتا ہے۔ ( اہم اصول میں سے ایک جو متنی تنقید میں استمال کیا جاتا ہے جس سے ہم یہ تعین کرسکتے ہیں کہ ایک کتاب کی معتبریت کیا ہے؟ یہاں پر آپ میری ایک پوسٹ ملاظہ فرمائیں) بحیرہ مردار کے مسودات کی تاریخ 200 ق م ہے۔ جسکا مطلب ہے کہ دونوں انبیاء اکرام یعنی حضرت محمد  اور حضرت عیسٰی مسیح با لکل اسی تورات کا حوالہ دے رہے تھے۔ جس تورات شریف کو آج ہم پڑھتے ہیں۔

یہ ہی ایک معیار ہے کہ ہم واپس مقدس کتابوں کو پڑھیں۔ اس طرح ہم ایک بنیاد قائم کرسکتے ہیں۔ جو کچھ ابنیاء اکرام نے ارشاد فرمایا ہے اس کو جانیں۔ اس کی بجائے ہم اپنی قیاس آرئیوں کے جھگڑے میں نہ پڑھیں۔