Skip to content

عمومی سوالات FAQs

شاید انجیل شریف میں ” خدا کے بیٹے” کے علاوہ کوئی دوسرا خطاب نہیں ہے۔ جس کے بارے میں انجیل مقدس میں اس سے زیادہ ذکر کیا گیا ہو۔ یہ خطاب حضرت عیسیٰ المسیح کو دیا گیا ہے اور انجیل شریف میں بار بار اس کا ذکر ہوا ہے۔ اس اصطلاح کی وجہ سے انجیل شریف کی تحریف کے بارے میں شک کیا جاتا ہے۔ انجیل شریف کی تحریف کے مسئلہ کے بارے میں قرآن شریف (یہاں) سنت (یہاں) اور سائنسی تحریری تنقید (یہاں) کے تحقیقی کی گئی ہے۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ مسئلہ کیا ہے۔ تو اس تحقیقی کی وجہ سے حیرت انگیز نتائیج برآمد ہوئے ہیں۔ کہ انجیل پاک میں رتی بھر بھی تحریف یا تبدیلی نہیں ہوئی۔ لیکن یہ "خدا کے بیٹے” کی اصطلاح سے کیا مطلب ہے؟

کیا یہ خدا کی وحدانیت کے منافی ہے جیسا کہ سورة اخلاص میں بیان ہوا ہے؟ (سورة اخلاص 112)

(سورہ اخلاص 112)

تورات شریف میں بھی خدا پاک کی واحدنیت کادعویٰ کیا گیا ہے۔

جس طرح سورة اخلاص میں زکر آیا ہے۔ حضرت موسیٰ نے یوں اعلان فرمایا۔

‘سن اے اسرائیل! رب ہمارا خدا ایک ہی رب ہے۔ ‘

(استثنا  6:  4)

تو پھر کیسے ہم "خدا کے بیٹے” کے خطاب کو سمجھ سکتے ہیں؟

کئی بار صرف ایک اصطلاح کو سن کر خود سے مطلب نہیں نکال لینا چاہئے۔ اس سے آپ غلط فہمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مغرب میں بہت سارے لوگ ‘جہاد’ کی اصطلاح کے خلاف ہیں۔ جس کو میڈیا پر دیکھایا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس اصطلاح کا مطلب ہے کہ ‘کچھ پاگل لڑاکے’ ‘معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے’ یا کچھ اسی طرح کی ملتی جلیتی بات۔ حقیقت میں سچ تو یہ ہے۔ کہ جو لوگ اس اصطلاح کو سمجھنے کے لیے وقت دیتے ہیں۔ وہ جان جاتے ہیں۔ کہ اس کا مطلب ‘جدوجہد’ یا ‘کوشش’ کرنا ہے۔ اور یہ کوشش یا جدوجہد بہت سارے وسیع پیمانے میں سمجھی جاسکتی ہے۔ لیکن بہت اس بات کو نہیں سمجھتے۔

ہمیں "خدا کے بیٹے” کی اصطلاح کے بارے میں اسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ اس مضمون میں ہم اس اصطلاح کے بارے میں دیکھیں گے۔ کہ یہ کہا سے آئی۔ اس کا کیا مطلب ہے، اور اس کا کیا مطلب نہیں ہے۔ ہم پھر اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ جہاں ہم انجیل شریف کی اس اصطلاح کا جواب دے سکیں گے۔

خدا کے بیٹے’ کی اصطلاح کہاں سے آئی؟

خدا کےبیٹے’ کی اصطلاح کا آغاز انجیل شریف میں سے نہیں ہوا۔ انجیل شریف کے لکھاریوں نے اس اصطلاح کو ایجاد نہیں کیا ہے۔ اور نہ ہی یہ کسی مسیحی کی ایجاد ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سب سے پہلے اس اصطلاح کا استعمال زبور شریف میں ہوا۔ جو کہ حضرت عیسیٰ المسیح کے حواریوں سے 1000 پہلے حضرت داود ؑ پر نازل ہوا تھا۔ آئیں دیکھیں یہ سب سے پہلے کہاں اس کا ذکر نازل ہوا۔

دوسرے ملکوں کے لوگ کیوں اتنا طیش میں آتے ہیں
    اور لوگ کیوں بیکار کے منصوبے بنا تے ہیں؟
ان قوموں کے بادشاہ اور حکمراں،
    خدا اور اس کے منتخب بادشاہ کے خلاف آپس میں ایک ہو جا تے ہیں۔
وہ حا کم کہتے ہیں، “ آؤ خدا کی طرف اوراُس بادشاہ کی جس کو اُس نے چنا ہے ، ہم سب مخالفت کریں۔
    “ آؤ ہم ان بندھنوں کو تو ڑ دیں جو ہمیں قید کئے ہیں اور انہیں پھینک دیں!”
لیکن میرا خدا جو آسمان پر تخت نشین ہے
    اُن لوگوں پر ہنستا ہے۔
5-6 خدا غصّے میں ہے اور وہ ان سے کہتا ہے ،
    “ میں نے اس شخص کو بادشاہ بننے کے لئے منتخب کیا ہے۔
وہ کوہِ مقّدس صیّون پر حکومت کرے گا۔ صیّون میرا خصوصی کوہ ہے۔ ”
    یہی ان حاکموں کو خوفزدہ کرتا ہے۔
اب میں خداوند کے اُس فرمان کو تجھے بتا تا ہوں۔
    خداوند نے مجھ سے کہا تھا، “ آج میں تیرا باپ بنتا ہوں اور توآج میرا بیٹا بن گیا ہے۔
اگر تو مجھ سے مانگے، تو ان قوموں کو میں تجھے دے دوں گا
    اور اس زمین کے سبھی لوگ تیرے ہو جا ئیں گے۔
تیرے پاس ان ملکوں کو نیست و نابود کر نے کی ویسی ہی قدرت ہو گی
    جیسے کسی مٹی کے برتن کو کو ئی لو ہے کے عصا سے چکنا چور کر دے۔”
10 پس اے بادشاہ ہو! تم دانشمند بنو۔
    اے زمین پر عدالت کرنے وا لو، تم اس سبق کو سیکھو۔
11 تم نہا یت خوف سے خداوند کی عبادت کرو۔
12 اپنے آپ کو اس کے بیٹے کا وفادار ظاہر کرو۔
    اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو وہ غضب ناک ہو گا اور تمہیں نیست ونابود کر دے گا۔
جو لوگ خداوند پر توکّل کرتے ہیں وہ خوش رہتے ہیں۔
    لیکن دوسرے لوگوں کو چاہئے کہ ہو شیار رہیں کیوں کہ خدا کا غصّہ آنے وا لے وقت میں جلدی بھڑکے گا۔

(زبُور2)

ہم نے یہاں ‘خداوند’ اور ‘اس کے ممسوح’ کے بارے میں گفتگو دیکھی۔ اسی طرح 7 ویں آیت میں ‘خداوند’ (مثلا خدا/اللہ) نے ممسوح سے کہا۔’ ۔ ۔ ۔ تو میرا بیٹا ہے۔ آج تُو مُجھ سے پَیداہُؤا۔ ‘ اس بات کو 12 ویں آیت میں دوہرایا گیا ہے۔ جہاں ہمیں کہا گیا ہے۔ کہ ‘بیٹے کو چومو۔ ۔ ۔’ چونکہ اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے۔ کہ وہ ‘میرا بیٹا’ ہے۔ اور یہاں ہی سے "اللہ کےبیٹے” کی اصطلاح کا آغاز ہوا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے بیٹے کی اصطلاح کس کو دی گئی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اصطلاح ‘ممسوح’ سے منسوب کی گئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں ‘بیٹے’ کی اصطلاح کو ‘ممسوح’ کے زریعے اس اقتباس میں پیش کیا گیا ہے۔ ہم ‘ممسوح = مسیحا=مسیح=کرائسٹ کو جانتے ہیں۔ دلچسپی کی بات ہے کہ اسی زبور میں ‘مسیح’ کی اصطلاح کا آغاز ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ تاہم ‘اللہ تعالیٰ کے بیٹے” کی اصطلاح کا آغاز اس ایک اقتباس سے شروع ہوا۔ جہاں سے ‘مسیح/کرائسٹ’ کی اصطلاح کا آغاز بھی ہوا۔ یہ کلام حضرت داودؑ کو حضرت عیسیٰ المسیح کی آمد سے 1000 سال پہلے نازل ہوا۔ جو کہ حضرت عیسیٰ المسیح کے بارے میں پیش گوئی تھی۔

اس بات کو مذید جانتے ہوئے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس اصطلاح کو حضرت عیسیٰ مسیح کے خلاف استعمال گیا۔ یہاں درج ذیل گفتگومیں ہم معلوم کریں گے کہ کیسے یہودی راہنما حضرت عیسیٰ مسیح سے اس اصطلاح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ کے عنوان ‘اللہ تعالیٰ کے بیٹے’ کے بارے میں منطقی متبادل

66 دوسرے دن صبح بڑے لوگ کے قائدین اور کاہنوں کے رہنما معلّمین شریعت سب ایک ساتھ مل کر آئے۔ اور وہ یسوع کو عدالت میں لے گئے۔ 67 انہوں نے کہا، “اگر تو مسیح ہے تو ہم سے کہہ۔” تو یسوع نے ان سے کہا، “اگر میں تم سے کہوں کہ میں مسیح ہوں تو تم میرا یقین نہ کرو گے۔ 68 اگر میں تم سے پو چھوں تو تم اس کا جواب بھی نہ دو گے۔ 69 لیکن! آج سے ابن آدم خدا کے تخت کی داہنی جانب بیٹھا رہیگا۔”

70 ان سبھوں نے پو چھا، “تو کیا تو خدا کا بیٹا ہے؟” یسوع نے ان سے کہا، “میرے ہو نے کی بات کو تم خود ہی کہتے ہو۔”

71 تب انہوں نے کہا، “ہمیں مزید اور کیا گواہی چاہئے ؟ کیوں کہ ہم سن چکے ہیں کہ خود اس نے کیا کہا ہے۔”

یہودی راہنماوں نے حضرت عیسیٰ سے سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ ‘مسیح’ہیں؟ (آیت 67) اگر میں کسی کو پوچھو گا۔ کہ ‘کیا آپ Xہیں؟ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مجھے پہلے ہی سے X کے بارے میں معلومات ہیں۔ اوراس سوال سے میں صرف یہ معلوم کر رہا ہوں کہ کیا جس شخص سے میں بات کر رہا ہو وہ کیا X ہی ہے۔ اس طرح یہودی راہنما حضرت عیسیٰ مسیح سے یہ معلوم کر رہے تھے۔ ‘کیا آپ ہی مسیح ہیں؟’ اس کا مطلب یہ کہ اُن کو ‘مسیح’ کے بارے میں پہلے سے تصور یا علم تھا۔ پھر اُنہوں نے اپنے سوال کو ایک اور طریقے سے پوچھا۔ ‘کیا تم اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہو؟’ وہ یہاں پر دونوں اصطلاحات "مسیح’ اور اللہ تعالیٰ کے بیٹے’ مساوی طور پر لیے رہے تھے۔ یہ اصطلاحات ایک سکے کے دواطراف ہیں۔ (حضرت عیسیٰ نے ان دونوں اصطلاح میں سے ایک اور جواب دیا۔ کہ وہ "ابنِ آدم "ہے یہ ایک اور اصطلاح ہے جو حضرت دانیال کی کتاب میں آتی ہے۔ جس کے بارے میں ہم یہاں بات نہیں کریں گے۔ کیونکہ ہم یہاں ‘اللہ کے بیٹے’ کی بات کر رہے ہیں) یہودی راہنماوں نے ‘مسیح اور اللہ تعالیٰ کے بیٹے’ کہا سے دونوں کے درمیان مساوی خیال حاصل کیا؟ یہ خیال اںہوں نے زبور شریف کے باب 2 میں لیا۔ جو حضرت عیسیٰ المسیح کی آمد سے 1000 سال پہلے نازل ہوچکا تھا۔ یہ حضرت عیسیٰ المسیح کے لیے منطقی امکان تھا کہ اگر وہ "اللہ تعالیٰ کے بیٹے’ نہیں تو وہ پھر ‘مسیح’ بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ یہ ہی ایک بات تھی جس کو یہودی راہنماوں نے استعمال کیا جس کو ہم نے اُوپر حوالہ میں پڑھا ہے۔

یہ منطقی ممکن تھا کہ حضرت عیسیٰ "اللہ تعالیٰ کے بیٹے’ اور مسیح’ ہوسکیں۔ ہم یہاں درج ذیل انجیل شریف کے ایک حوالہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ کہ کیسے حضرت عیسیٰ المسیح کے معروف حواری جس کا نام ‘پطرسؑ’ ہے۔ اُن نے حضرت عیسیٰ مسیح کے ایک سوال کا جواب دیا۔

13 یسوع جب قیصر یہ فلپی کے علا قے میں آیا۔تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے پو چھا، “مجھ ابن آدم کو لوگ کیا کہہ کر پکار تے ہیں؟”

14 ماننے وا لوں نے جواب دیا، “بعض تو بپتسمہ دینے والا یوحناّ کے نام سے پکار تے ہیں اور بعض ایلیاہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ اور بعض یر میاہ [] کہہ کر یا نبیوں میں ایک کہہ کر پکا ر تے ہیں۔”15 تب اس نے ان سے پو چھا ، “تم مجھے کیا پکار تے ہو؟” 16 شمعون پطرس نے جواب دیا، “تو مسیح ہے اور تو ہی زندہ خدا کا بیٹا ہے۔” 17 یسوع نے کہا، “اے یونس کے بیٹے شمعون! تو بہت مبارک ہے۔ اس بات کی تعلیم تجھے کسی انسان نے نہیں دی ہے۔بلکہ میرے آسما نی باپ ہی نے ظا ہر کیا ہے کہ میں کون ہوں؟

(متّی16:13-17)

یہاں پطرس ؑ ‘مسیح’ کی اصطلاح کو ‘اللہ تعالیٰ کے بیٹے ‘کو قدرتی طور پر یکجا کردیتا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں اصطلاح ایک ہی زبور میں نازل ہوئیں۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے پطرس ؑ کے اس جواب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کے طور پر قبول کیا۔ کہ حضرت عیسیٰ ہی "مسیح” ہیں اس وجہ سے وہ "اللہ تعالیٰ کے بیٹے” بھی ہیں۔

لیکن یہ ناممکن ہے کہ اس بات میں متضاد بات پائی جائے۔ کہ حضرت عیسیٰ ‘مسیح’ ہوں لیکن وہ ‘خدا کے بیٹے” نہ ہو۔ کیونکہ یہ دونوں اصطلاح کا ایک ہی زریعہ اور ایک ہی مطلب ہے۔ تو پھر اس کی مثال ایسی ہی ہوگی۔ کہ ایک مخصوص ‘دائرہ’ تو ہوسکتا ہے لیکن یہ ‘راونڈ’ نہیں ہوسکتا۔ ایک شکل مربح ہوسکتی ہے لیکن ایک حلقہ نہیں اور نہی روانڈ۔ لیکن اگر وہ ایک دائرہ ہے تو پھر وہ ایک راونڈ بھی ہے۔ راونڈ کا مطلب ہی دائرہ ہے۔ جب یہ کہا جائے۔ کہ فلاں شکل دائرہ تو ہے لیکن راونڈ نہیں۔ تو یہ بات ٹھیک جواب نہیں۔ یا آپ دائرے اور راونڈ کے مطلب کو ٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکے۔ یہ ہی مطلب ‘مسیح’ اور اللہ تعالیٰ کے بیٹے’ کا بھی ہے۔ عیسیٰ مسیح ہی ‘مسیح’ اور خدا کا بیٹا’ بھی ہے۔ (جسطرح پطرس ؑ نے کہا)۔ یا پھر حضرت عیسیٰ دونوں اصطلاحات میں سے کوئی ایک بھی نہیں۔

‘اللہ تعالیٰ کے بیٹے’ کا کیا مطلب ہے؟

تو اس اصطلاح کا کیا مطلب ہے؟ انجیل شریف (نئے عہدنامہ) میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے۔ جب ایک مسیح کے حواری جس کا نام یوسف کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ وہ ابتدائی حواریوں میں سے تھا۔ (یہ فرعون کے محل والا حضرت یوسف ؑ نہیں تھا) اور کیسے اُس کے بارے میں ‘بیٹا ۔ ۔ ۔’ فرمایا ہے۔

36 ایک شخص جس کا نام یوسف اور رسولوں میں اسکو برنباس یعنی “دوسروں کی مدد کر نے والا رکھا۔” وہ لاوی تھا اور وہ کپرس میں پیدا ہوا تھا۔ 37 یوسف کا ایک کھیت تھا اس نے اسکو فروخت کیا اور رقم لاکر مسیح کے رسولوں کو دیدی

(رسولوں4:36-37)

آپ یہاں پر دیکھ سکتے ہیں کہ ‘برنباس’ کا عرفی نام ‘حوصلہ افزائی کا بیٹا’ ہے۔ کیا انجیل شریف یہ کہہ رہی ہے۔ کہ اُس کے باپ کا نام ‘حوصلہ افزائی’ تھا۔ اس لیے اُس کا نام حوصلہ افزائی کا بیٹا’ ہے؟ یقین ایسا نہیں ہے! ‘حوصلہ افزائی’ ایک منفرد تصور ہے۔ جس کی وضاحت کرنیمشکل ہے۔ لیکن یہ دیکھنے میں آسان ہے کہ کسی ایک شخص کی حوصلہ افزائی کرنا۔ جب کوئی یوسفؑ کی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوگا۔ تو یہ کہتا ہے ہوگا۔ دیکھو وہ کیسا حوصلہ مند انسان ہے۔ تاہم حوصلہ افزائی کا کیا مطلب ہے۔ اس طرح سے حضرت یوسفؑ جو ایک حواری تھا۔ ‘حوصلہ افزائی کا بیٹا’ ہے۔ کیونکہ وہ اپنی زندگی سے حوصلہ افزائی کو ظاہر کررہا تھا۔

"اللہ تعالیٰ کو کبھی بھی کسی نے نہیں دیکھا” (یوحنا 1: 18) لہذا اللہ تعالیٰ کے کردار اور فطرت کو سمجھنا نہایت ہی مشکل ہے۔ اور یہ بھی انتہائی مشکل ہے۔ کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنی انکھیوں سے دیکھ سکیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ روح ہے اور روح کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اس طرح انجیل شریف حضرت عیسیٰ المسیح کی زندگی کے بارے میں ہمیں یہ خلاصہ پیش کرتی ہے۔ کہ آپ "کلمہ اللہ” اور اللہ کے بیٹے” ہیں۔

14 کلا م نے انسان کی شکل لیا اور ہم لوگوں میں رہا۔ ہم نے اس کا جلا ل دیکھا۔ جیسا کہ با پ کے اکلوتے بیٹے کا جلا ل۔ کلا م سچا ئی اور فضل سے بھر پور تھا۔ 15 یوحناّ نے اپنے بارے میں لوگوں سے کہا۔ یوحناّ نے واضح کیا کہ “یہ وہی ہے جس کے متعلق میں بات کر رہا تھا وہ جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زیادہ عظیم ہے اسلئے کہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔”

16 کلام سچا ئی اور فضل سے بھر پور تھا اور ہم تمام نے اُس سے زیادہ سے زیادہ فضل پایا۔ 17 شریعت تو موسیٰ کے ذر یعہ دی گئی لیکن فضل اور سچا ئی یسوع مسیح کے ذریعہ ملی۔ 18 کسی نے کبھی بھی خدا کو نہیں دیکھا لیکن اکلوتا بیٹا خدا ہے وہ باپ سے قریب ہے اور بیٹے نے ہمیں بتا یا کہ خدا کیسا ہے۔

(یوحنا1:14,16-18)

ہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور سچائی کو کیسے جان سکتے ہیں؟ ہم نے اس کو حضرت عیسیٰ المسیح کی زندگی میں حقیقی طور پر چلتے پھرتے دیکھا۔ حضرت عیسیٰ المسیح کے حواری آپکی زندگی میں سے اللہ تعالیٰ’کے فضل اور سچائی’ کو جان گئے تھے۔

لیکن شریعت کے احکام میں سے ہم نے اُس کے فضل اور سچائی کو اپنی آنکھیوں سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

بیٹا ۔ ۔ ۔ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے آرہا ہے۔

‘اللہ تعالیٰ کے بیٹے’ کی یہ اصطلاح ہمیں حضرت عیسیٰ مسیح کے بارے میں بہتر سمجھ بخشنے میں مدد کرتا ہے۔ (باپ سے بیٹے)حضرت لوقاؑ کی معرفت انجیل شریف میں حضرت عیسیٰ المسیح کا نسب نامہ لکھا ہے۔ جو حضرت آدمؑ سے جاملتا ہے۔ ہم نے نسب نامہ کو اختتام سے لیتے ہیں۔ جہاں یہ لکھا ہے۔

38 قینان انوس کا بیٹا تھا

انوس سیت کا بیٹا تھا

سیت ابن آدم تھا

اور آدم خدا کا بیٹا تھا۔

(لوقا3:38)

ہم نے یہاں پر پڑھا ہے۔ کہ حضرت آدم ؑ کو "اللہ تعالیٰ کا بیٹا” کہا گیا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ حضرت آدمؑ کا کوئی انسانی والدین نہیں ہیں؛وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ المسیح کے بھی کوئی انسانی والدین نہیں تھے۔ وہ ایک کنواری سے پیدا ہوئے تھے۔ جیسا کہ حضرت یوحنا ؑ کی معرفت انجیل میں لکھا ہے۔ کہ ‘وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے’ تھے۔

قرآن شریف میں سے بیٹے کی مثال

قرآن شریف بھی انجیل پاک کی طرح ہی بیٹے کے لیے مثال دیتا ہے۔ مندرجہ ذیل آیت پر غور کریں۔

آپ سے پوچھتے ہیں کہ وه کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیئے جو مال تم خرچ کرو وه ماں باپ کے لئے ہے اور رشتہداروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے

(سورہ البقرہ 2:215)

یہاں پر لفظ ‘راستہ’  (یا مسافروں) کا لفظی مطلب ‘سڑک کا بیٹا’ ہے۔ اور اس عربی میں اس کو (ابنِ السبیل ) کہا جاتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ لکھاری اور ترجمہ کرنے والا جانتا ہے۔ کہ اس جملے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی سڑک کا بیٹا ہے۔ لیکن اُس کا مقصد یہ کہ واضع کرے۔ کہ وہ ایک مسافر ہے۔ جو لوگ ہر وقت سڑک پر سفر کرتے رہتے ہیں۔

‘اللہ تعالیٰ کے بیٹے کا کیا مطلب ہے۔

‘اللہ تعالیٰ کے بیٹے’ کی اصطلاح کا استعمال بلکل بائبل مقدس جیسا ہی ہے۔ جہاں بھی زبور، اور تورات شریف یا انجیل شریف میں "خدا کے بیٹے” کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کئی ہیں۔ اور اُس کی وجہ سے ایک بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اس طرح کی سمجھ قدیم یونانی مذاہب سے ہے۔ جہاں پر مختلف خدواں کی بیویاں’ تھیں۔’ لیکن بائبل مقدس میں کہی بھی اس طرح کی تعلیم نہیں دی گئی۔ یقینی اس طور پر یہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ جب کہہ گیا تھا۔ کہ حضرت عیسیٰ المسیح ایک کنواری سے پیدا ہوئے۔ جس کا مطلب ہے کسی بھی تعلق کے بغیر۔

خلاصہ

ہم نے مطالعہ کیا تھا۔ کہ حضرت یسعیاہ نے 750 ق م میں یہ پیش گوئی کردی تھی۔ کہ ایک مستقبیل میں خدا خود نشان نخشے گا۔

14 لیکن میرا مالک خدا تمہیں ایک نشان دکھا ئے گا :

دیکھو ! ایک پاکدامن کنواری حاملہ ہوگی اور وہ ایک بیٹے کو جنم دیگی۔
    وہ اپنے بیٹے کا نام عمانوایل رکھے گی۔

(Isaiah7:14)

ایک کنواری سے پیدا ہونے والے بیٹے کا یہ ہی مطلب ہے کہ اُس کا کوئی جنسی /انسانی باپ نہیں ہے۔ ہم نے حضرت جبرایل ؑ کے پیغام میں دیکھا۔ کہ اُنہوں نے حضرت مریم ؑ سے فرمایا کہ "خُدا تعالےٰ کی قُدرت تُجھ (مریمؑ) پر سایہ ڈالے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مریمؑ کے ناپاک تعلق کی وجہ سے ایسا نہیں ہوگا۔ ایسا سوچنا بھی گناہ اور شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے۔ یہ بیٹا مَولُودِ مُقدّس ہو گا۔ یہ بغیر کسی انسانی سوچ و سمجھ کے براہ راست خدا تعالیٰ سے پیدا ہوگا۔ وہ خدا تعالیٰ سے براہ راست آئے گا جیسے اُس کا کلمہ نازل ہوتا ہے۔ جس طرح ہم کلام کرتے ہیں۔ بلکل اُسی طرح اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور حضرت عیسیٰ ؑ المسیح اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہیں۔ اس طرح حضرت عیسیٰ المسیح "خدا تعالیٰ کا بیٹا” اور خدا کا کلمہ ہیں۔

بنی اسرائیل کی تاریخ کو آسانی سے سمجھنے کے لیے میں نےاس کی تاریخ کا ٹائم لائن بنایا ہے۔ ہم اس ٹائم لائن میں بنی اسرائیل کے انبیاء اکرام کو حضرت عیسٰی مسیح کی تاریخ تک رکھیں گے۔

بائبل کے معروف ترین انبیاء اکرام

بائبل کے معروف ترین انبیاء اکرام

اس ٹائم لائن میں ویسٹرن کلینڈر استعمال کیا گیا ہے۔ (یادرکھیں کہ اس میں قبل از مسیح یعنی BC کی تاریخ رکھی گئی ہے) رنگ دار سلاخیں بنیوں کی زندگی یا دور کو ظاہر کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ دونوں اپنی نشانیوں کی نسبت بہت ہی اہم ہیں جن کا ہم نے پہلے ہی مطالعہ کرلیا ہے۔ حضرت داود کی یہ پہچان ہے کہ اُن پر زبور شریف نازل ہوا۔ اور وہ بنی اسرائیل کے پہلے نبی تھے۔ جنہوں نے یروشلیم کو اپنا دارلحکومت بنایا۔ حضرت عیسیٰ مسیح بھی اہم نبی ہیں۔ کیونکہ وہ انجیل شریف کا مرکز ہیں۔

ہم سبز رنگ میں دیکھ سکتے ہیں کہ بنی اسرائیل مصر میں غلام تھی۔

اسرائیل مصر میں فرعون کے غلام

اسرائیل مصر میں فرعون کے غلام

 اس سبز رنگ کا دور اُس وقت شروع ہوتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم کے پڑپوتے حضرت یوسف نے اپنے لوگوں کو مصر میں بلایا۔ لیکن وہ وہاں غلام بن گئے۔ اور حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی سے فسح کی نشانی کے زریعے نکالا۔

اس طرح حضرت موسیٰ کے دور کو پیلے رنگ میں دیکھایا گیا ہے

یروشلم میں بادشاہ کے بغیر اسرائیل کی خود مختارحکومت

یروشلم میں بادشاہ کے بغیر اسرائیل کی خود مختارحکومت

 مصر کی غلامی کے بعد وہ اسرائیل (فلسطین) کی سرزمین پر رہنے لگے۔ حضرت موسیٰ نے اپنی زندگی کے آخرمیں اُن پر برکات اور لعنتوں کا اعلان کیا۔ جب ٹائم لائن کی سبز رنگ دار سلاخ پیلے رنگ کی طرف جاتی ہے۔ تو اس عرصے میں کئی سالوں وہ اسی ملک موعودہ کی سرزمین پر رہے۔ جس کا وعدہ حضرت ابراہیم کی پہلی نشانی میں کیا تھا۔ اس دور میں نہ ہی اُن کے پاس کوئی بادشاہ تھا۔ اور نہ ہی یروشلیم اُن کا دارالحکومت تھا۔

تاہم حضرت داود کے (1000) ایک ہزار قبل مسیح آنے سے بنی اسرائیل کے حالات بدل جاتے ہیں۔

حضرت داود اور ان کے بعد دوسرے بادشاہوں کی یروشلیم میں حکومت

حضرت داود اور ان کے بعد دوسرے بادشاہوں کی یروشلیم میں حکومت

حضرت داود نے یروشلیم کو فتح کیا اور اس کو دارلحکومت بنایا۔ جہاں پر بادشاہ کا محل بنایا گیا۔ حضرت داود کو حضرت سموائیل نے مسح کیا تھا اور اُس کا بیٹا سلیمان اپنی عقل، حکمت اور کامیبوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ حضرت سلیمان نے ایک اعلیٰ شان ہیکل کو یروشلیم میں تعمیر کیا۔ حضرت داود کی نسل نے 400 سال تک حکمرانی کی اور اس دور کو پیلے رنگ میں واضع کیا ہے۔ (1000-600 قبل مسیح) یہ دور بنی اسرائیل کے لیے شاندار تھا۔ اُنہوں نے خدا کی برکات اور وعدوں کو دیکھا۔ وہ دنیا کی طاقت وار قوم تھی۔ اُن کا اعلیٰ درجہ کا سماج اور ثقافت تھی۔ یہ اُس وقت کا دور تھا۔ جب انبیاءاکرام اللہ تعالٰی سے پیغام لیتے اور اُس کو حضرت داود کی زبور شریف میں درج کرتے جاتے۔ جس کو خود حضرت داود نے شروع کیا تھا۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ بہت زیادہ انبیاءاکرام کو بھیجا گیا؟ تاکہ وہ اُن کو انتباہ کرسکیں اور یاد دلائیں کہ حضرت موسیٰ کی بتائیں ہوئیں لعنتیں نازل ہوسکتیں ہیں۔ لیکن بنی اسرائیل نے اُن انبیاء اکرام کی ایک نہ سُنی۔

آخرکار 600 قبل مسیح میں یہ لعنتیں نازل ہوگیئں۔ بابل سے ایک طاقتور بادشاہ نبوکدنظر آیا۔ اور جس طرح حضرت موسیٰ نے لعنتوں کے بارے میں نبوت کی۔ درج زیل نبوت کا مطالعہ کریں۔

49  خداوند دُور سے بلکہ زمین کے کنارے سے ایک قوم کو تجھ پر چڑھالائے گا جیسے عقاب ٹوٹ کر آتا ہے ۔ اُس قوم کی زبان کو تُو نہ سمجھے گا ۔
50 اُس قوم کے لوگ تُرش رو ہونگے جو نہ بڈھوں کا لحاظ کریں گے نہ جوانوں پر تر س کھائیں گے ۔
51  اور وہ تیرے چوپایوں کے بچوں اور تیری زمین کی پیداوار کو کھاتے رہیں گے جب تک تیرا ناس نہ ہو جائے اور وہ تیرے لیے اناج یا مَے یا تیل یا گائے بیل کی بڑھتی یا تیری بھیڑ بکریوں کے بچے کچھ نہیں چھوڑیں گے جب تک وہ تجھ کو فنا نہ کر دیں ۔
52  اور وہ تیرے تمام ملک میں تیرا محاصرہ تیری ہی بستیوں میں کیے رہیں گے جب تک تیری اونچی اونچی فصلیں جن پر تیرا بھروسا ہو گا گِر نہ جائیں ۔ تیرا محاصرہ وہ تیرے ہی اُس ملک کی سب بستیوں میں کریں گے جسے خداوند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے ۔

                                                                                      استثناء 28: 49-52

نبوکدنظر نے یروشلیم کو فتح کیا اور اُس کو جلادیا اور سیلمانی ہیکل کو تباہ کردیا۔ جس کو خود حضرت سلیمان نے بنوایا تھا۔ اُس نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر پوری بابلی حکومت میں بطوراقلیت پھیلا دیا۔ صرف اُس نے غریب اسرائیلیوں کو پیچھے چھوڑدیا۔ اس طرح حضرت موسٰی کی نبوت پوری ہوئی۔

63  تب یہ ہو گا کہ جیسے تمہارے ساتھ بھلائی کرنے اور تُم کو بڑھانے سے خداوند خوشنود ہوا ایسے ہی تمکو فنا کرانے اور ہلاک کر ڈالنے سے خداوند خوشنود ہو گا اور تُم اُس ملک سے اُکھاڑ دِئے جاو گے جہاں تُو اُس پر قبضہ کرنے کو جا رہا ہے ۔
64  اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرےتک تمام قوموں میں پراگندہ کرے گا ۔ وہاں تُو لکڑی اور پتھر کے اور معبودوں کی جنکو تُو ہا تیرے باپ دادا جانتے بھی نہیں پرستش کرے گا ۔                                                                                   اسثناء 28: 63-64

بابل نے فتح کیا اور بابل میں جلاوطن رہے

بابل نے فتح کیا اور بابل میں جلاوطن رہے

70 سال کا عرصہ سُرخ رنگ میں دکھایا گیا ہے۔ جس میں بنی اسرائیل نے غلامی کے طور پر ملکِ موعودہ سے باہر زندگی بسر کی۔

اس کے بعد شاہ فارس خورس نے بابل کو فتح کیا اور وہ دنیا کا طاقتور شخص بن گیا۔ اور اُس نے بنی اسرائیل کو واپس ملکِ موعودہ میں جانے دیا۔

اسرائیل میں واپسی لیکن اسرائیل فارسی سلطنت کا صوبہ بن گیا

اسرائیل میں واپسی لیکن اسرائیل فارسی سلطنت کا صوبہ بن گیا

تاہم اب وہ غلامی سے رہائی کے بعد ایک آزاد ریاست کے طور پر نہیں رہتے تھے۔ بلکہ اسرائیل فارسی سلطنت کی حکومت کا ایک صوبہ بن گیا۔ یہ 200 سال تک ایک صوبہ کے طور پر رہا۔ اور اس کو گلابی رنگ میں دیکھایا گیا ہے۔ اس دور میں ہیکل کی تعمیر کی گئی۔ (یعنی دوسری ہیکل ) اور پرانے عہد نامے کے آخری حصہ کے انبیاءاکرام نے اپنے پیغامات اس دور میں تحریر کئے۔

اور پھر سکندرِاعظم نے فارس (موجودہ ایران) کی حکومت کو فتح کیا۔ اُس نے اسرائیل کو اپنی حکومت کا صوبہ بنالیا۔ جو اگلے 200 سال تک ایک صوبہ کے طور پر رہا۔ اس کو گہرے نیلے رنگ میں واضع کیا گیا ہے۔

اسرائیل یونانی سلطنت کا صوبہ بن گیا

اسرائیل یونانی سلطنت کا صوبہ بن گیا

پھر رومی حکومت نے یونانی حکومت کو فتح کر لیا۔ اور اُنہوں نے ایک عظیم رومی سلطنت کو قائم کیا۔ اسرائیل رومی حکومت کا صوبہ بن گیا۔ اس کو ہلکے پیلے رنگ میں واضع کیا گیا ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ مسیح کا دور ہے۔ اس دور میں آپ اسرائیل میں موجود تھے۔ اس لیے انجیل شریف میں ہم رومی گورنر اور فوجیوں کو دیکھتے ہیں۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ مسیح کے دور میں یہودیوں کی سرزمین پر رومی حکومت کرتے تھے۔

اسرائیل رومی سلطنت کا ایک صوبہ

اسرائیل رومی سلطنت کا ایک صوبہ

تاہم 600 قبل مسیح سے لیکر اسرائیل کبھی بھی آزاد حکومت نہ بن سکا۔ جیسی حضرت داود اور دوسرے اسرائیلی حمکمرانوں نے حکومت کی۔ اُنہوں نے اس بات کو ناپسند کیا اور حضرت عیسیٰ مسیح کے آسمان پر صود فرمانے کے بعد یہودیوں نے رومی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ جنگِ آزادی کا آغاز ہوگیا۔ لیکن یہودیوں نے اس جنگ میں شکست کھائی۔ اس طرح رومیوں نے یروشلیم کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ اور دوسری طرف ہیکل کو آگ سے برباد کردیا۔ اور یہودیوں کو تمام رومی سلطنت میں غلام بنا کر بھیج دیا۔ جبکہ رومی حکومت اتنی بڑی تھی۔ کہ یہودی پوری دنیا میں منتشر ہوگے۔

رومی حکومت نے یروشلیم اور ہیکل کو سن70 ء میں برناد کردیا۔ اور یہودی پوری دنیا میں جلاوطن ہوگئے

رومی حکومت نے یروشلیم اور ہیکل کو سن70 ء میں برناد کردیا۔ اور یہودی پوری دنیا میں جلاوطن ہوگئے

اسی طرح وہ 2000 سال جلاوطنی میں رہے۔ اُن کو منتشر کردیا گیا۔ اور دوسرے ملکوں میں جلاوطن کردیا گیا۔ اور کسی ملک نے ان کو قبول نہ کیا۔ حضرت موسیٰ کے نبوتی کلام جو اُنہوں نے لعنت کے طور پر بیان کئے۔ وہ اُسی طرح پورے ہوئے۔

65  اُن قوموں کے بیچ تجھ کو چین نصیب نہ ہوگا اور نہ تیرے پاوں کے تلوے کو آرام مِلے گا بلکہ خداوند تجھ کو وہاں دل لرزان اور آنکھوں کی دھند لاہٹ اور جی کی کُڑھن دے گا ۔

                                                                                      استثناء 28: 65

تاہم لعنتوں کی نبوت جو حضرت موسیٰ نے کی تھی وہ پوری ہوگی۔ جی ہاں! یہ نہ صرف پوری ہوئیں بلکہ اس کے بارے ہر ایک بات پوری ہوئی۔ یہودیوں کی لعنت ہم غیر یہودیوں کے لیے نشان ٹھہرا۔

24  خداوند مینہ کے بدلے تیری زمین پر خاک اور دھول برسائے گا ۔ یہ آسمان سے تجھ پر پرتی ہی رہے گی جب تک کہ تُو ہلاک نہ ہو جائے ۔
25  خداوند تجھ کو تیرے دُشمنوں کے آگے شکست دلائے گا ۔ تُو اُنکے مقابلہ کے لیے تو ایک راستہ سے جائے گا اور اُنکے سامنے سے سات سات راستوں سے ہو کر بھاگے گا اور سُنیا کی تمام سطنتوں میں تُو مارا مارا ا پھرے گا ۔                         استثناء 28: 24-25

یہ انبیاء اکرام کی تعلیم ہمارے لیے بھی ایک اہم ترین نشان ہے۔ ایک سنجیدہ انتباہ ہے۔ کیونکہ یہ ہمیں بھی خبردار کرتا ہے۔ یقینی طور پر یہ تاریخی سروے 2000 سال کا ہے۔

یہاں کلک کریں اور معلوم کریں کہ کیسے حضرت موسیٰ کی برکات اور لعنتوں کی نبوت ہمارے جدید دور میں پوری ہورہی ہے۔