Skip to content

نبی حضرت یوسف کون تھے ؟ انکی نشانیاں کیا تھیں ؟

سورہ یوسف (سورہ 12 – یوسف) نبی حضرت یوسف \جوسف کی کہانی کہتی ہے – نبی حضرت یوسف حضرت یعقوب (جیکب) کے بیٹے تھے ، اور حضرت یعقوب حضرت اسحاق کے بیٹے تھے ، اور حضرت اسحاق نبی حضرت ابراہیم (ابرہام)  کے بیٹے تھے – حضرت یعقوب کے 12 بیٹے تھے ،انمیں سے ایک حضرت یوسف تھے – حضرت یعقوب  یوسف کو اپنے دیگر بیٹوں سے زیادہ چاہتے تھے اس سبب سے یوسف کے 11 بھائیوں نے اس سے حسد کی ، اوراس کے خلاف سازش کی اور اسکے خلاف میں جو انہوں نے منصوبہ باندھا تھا وہی یوسف کی کہانی کا شکل دے دیا – اس کہانی کو حضرت موسیٰ کی تورات میں پہلی بار 0 0 35  سال پہلے لکھا گیا تھا – تورات شریف سے اسکا پورا بیان یہاں پر لکھا گیا ہے – اور سورہ یوسف (سورہ  12 یوسف) کا بیان  یہاں پر ہے – سورہ یوسف ہم سے کہتا ہے یہ صرف معمولی کہانی نہیں ہے بلکہ

‘اے رسول تمھاری نبوت کے لئے یوسف اور انکے بھائیوں کے قصّے کی بابت پوچھنے کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں”

12:7 سورہ یوسف

کہانی میں یوسف اور اسکے بھائی متلاشیوں  کے لئے کون سی نشانیاں ہیں ؟ہم اس کہانی کو تورات شریف اور سورہ یوسف دونوں سے نظر ثانی کرتے ہیں تاکہ ان نشانیوں کو سمجھ سکیں –  

سامنے سجدہ کرنا …؟

ایک صاف نشانی وہ خواب ہے جو یوسف نے اپنے باپ حضرت یعقوب سے کہی جہاں  

وہ وقت یاد کرو جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے ابّا میں نے گیارہ (ستاروں اور سورج اور چاند کو میں نے دیکھا ہے یہ سب مجھے (خواب میں ) سجدہ کر رہے ہیں-

12:4سورہ یوسف

کہانی کے آخر میں ہم حقیقت میں دیکھتے ہیں کہ

(غرض پہنچ کر یوسف نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب کے سب (یوسف کی تعظیم کے واسطے اس کے سامنے سجسدے میں گر پڑے – اس وقت یوسف نے اپنے باپ سے کہا ، اے ابّا ! یہ تعبیر ہے میرے اس پہلے خواب کی کہ میرے پر ور دگار نے اسے سچ کر دکھایا بے شک اسنے میرے ساتھ احسان کیا ہے جب اسنے مجھے قید خانے سے نکالا اور باوجود کہ مجھ میں اور میرے بھائیوں کے بیچ میں شیطان نے فساد ڈال دیا تھا ، اسکے بعد بھی گاؤں میں مجھ سے ملایا اور ہم سبکو شہر میں لے آیا – بیشک میرا پروردگار جو کچھ کرتا ہے اسکی تدبر خوب جانتا ہے  بے شک وہ بڑا واقف کار حکیم ہے –  

12:100 سورہ یوسف

پورے قران شریف میں سجدہ کرنے کو بہت بار ذکر کیا گیا ہے ،مگر وہ سارے سجدے د عا (نماز یا عبادت میں قادر مطلق خدا کے سامنے ، کعبہ میں یا اللہ کے معجزے کے سامنے جیسے مصر کے جادوگروں اور حضرت موسیٰ) کے بیچ  جو کرامات ہوئے ان کے لئے سجدہ کرنے کا حوالہ دیا گیا ہے –  مگر یھاں ایک مستثنیٰ والی بات ہے کہ ایک آدمی (یوسف) کے سامنے سجدہ کرنا – ایک دوسرا ہوبہو واقعہ اس وقت کا ہے جب فرشتوں کو حکم دیا گیا تھا کہ حضرت آدم کے سامنے سجدہ کریں – (سورہ طا حا 116  اور ال اعراف 11)  – مگر فرشتے انسان نہیں تھے ، اور ایک عام دستور (قاعدہ) یہ کہتا ہے کہ بنی انسان صرف اور صرف خداوند کو ہی سجدہ کریں –    

اور تمام امور کی رجوع خدا ہی کی طرف ہوتی ہے اسلئے اے ایماندارو ، رکوع کرو اور صرف اسی کے سامنے سجدے کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور نیکی کرو –

 22:77 سورہ ال حج

حضرت یوسف کی بابت کیا مستثنیٰ تھی کی حضرت یعقوب جو انکے والد تھے ، اور انکی والدہ اور انکے بھائیوں نے حضرت یوسف کے سامنے سجدہ کیا –

ابن آدم

وقت کی لکیر نبی حضرت دانی ا یل اور دیگر زبور کے نبیوں کو دکھا رہا ہے –

اسی طرح بائبل میں ہمکو حکم دیا گیا ہے کہ عبادت میں صرف خداوند کے سامنے سجدہ کریں مگر یہاں پر بھی استثنا کی بات ہے – نبی حضرت دانی ا یل نے ایک رویا حاصل کری تھی جو وقت سے بہت آگے نظر آ رہی تھی کہ خدا کی بادشاہی کا قایم کیا جانا تھا اور اسکے رویا میں اسنے ابن آدم کو دیکھا تھا –  

 

(13)مَیں نے رات کو رویا میں دیکھا اور کیا دیکھتا ہُوں کہ ایک شخص آدم زاد کی مانِند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اور قدِیمُ الایّام تک پُہنچا ۔ وہ اُسے اُس کے حضُور لائے۔
(14)اور سلطنت اور حشمت اور مملکت اُسے دی گئی تاکہ سب لوگ اور اُمّتیں اور اہلِ لُغت اُس کی خِدمت گُذاری کریں ۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہو گی۔

7:13-14دانی ا یل         

رویا میں لوگ ‘ابن آدم’ کے سامنے  سجدہ کرتے ہیں ، جسطرح سے حضرت یوسف کا خاندان حضرت یوسف کے سامنے سجدہ کر رہے تھے –

‘ابن آدم’  ایک لقب ہے جو نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح نے اکثر اپنے لئے استعمال کیا تھا – اسنے جب وہ زمین پر چلتا تھا ، تعلیم دینے میں ، مریضوں کو شفا دینے میں ، اور قدرت پر اختیار جتا نے میں اپنے بڑے اختیار کا کردار نبھایا تھا –مگر وہ ان دنوں میں ‘آسمان کے بادلوں پر’ نہیں آیا تھا – جس طرح سے حضرت دانی ا یل  کے رویا کی پیشین گوئی کی گیئ ہے – یہ اس لئے کہ وہ رویا آگے کو مستقبل کی طرف دیکھا جا رہا تھا ،ماضی میں اسکی پہلی آمد سے لیکر دوسری آمد تک – اور پھر زمیں پر واپس لوٹنے میں تاکہ دججال کو ختم کرے اسےآنا ضروری تھا (جسطرح حضرت آدم کو پہلے سے ہی بتایا گیا تھا)اور خدا کی بادشاہی قایم کرنی تھی –

انکی پہلی آمد کنواری مریم سے پیدا ہونا لوگوں کو چھٹکارا دینے کے لئے تھا تاکہ خدا کی بادشاہی کے شہری بن سکیں – مگر اسکے باوجود بھی اسنے نبوت کی کہ کس طرح ابن آدم اپنی دوسری آمد میں بادلوں پر اپنے لوگوں کو دوسرے لوگوں سے جدا کریگا  – اسنے پیش بینی کی کہ تمام قومیں اسکے سامنے سجدہ کر رہے ہیں جسطرح سے یوسف کے بھائی خود سے یوسف کے سامنے سجدہ کئے تھے – یھاں وہ بات ہے جو مسیح نے تعلیم دی تھی –   

(31)جب اِبنِ آدم اپنے جلال میں آئے گااور سب فرِشتے اُس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بَیٹھے گا۔
(32)اور سب قَومیں اُس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دُوسرے سے جُدا کرے گا جَیسے چرواہا بھیڑوں کو بکرِیوں سے جُدا کرتا ہے۔
(33)اور بھیڑوں کو اپنے دہنے اور بکرِیوں کو بائیں کھڑا کرے گا۔
(34)اُس وقت بادشاہ اپنے دہنی طرف والوں سے کہے گا آؤ میرے باپ کے مُبارک لوگو جو بادشاہی بِنایِ عالَم سے تُمہارے لِئے تیّار کی گئی ہے اُسے مِیراث میں لو۔
(35)کیونکہ مَیں بُھوکا تھا ۔ تُم نے مُجھے کھانا کِھلایا ۔ مَیں پِیاسا تھا ۔ تُم نے مُجھے پانی پِلایا ۔ مَیں پردیسی تھا۔ تُم نے مُجھے اپنے گھر میں اُتارا۔
(36)ننگا تھا ۔ تُم نے مُجھے کپڑا پہنایا ۔ بِیمار تھا ۔ تُم نے میری خبر لی ۔ قَید میں تھا ۔ تُم میرے پاس آئے۔
(37)تب راستباز جواب میں اُس سے کہیں گے اَے خُداوند! ہم نے کب تُجھے بُھوکا دیکھ کر کھانا کِھلایا یا پِیاسا دیکھ کر پانی پِلایا؟۔
(38)ہم نے کب تُجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اُتارا؟ یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا؟۔
(39)ہم کب تُجھے بِیمار یا قَید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟۔
(40)بادشاہ جواب میں اُن سے کہے گا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب تُم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائِیوں میں سے کِسی ایک کے ساتھ یہ سُلُوک کِیا تو میرے ہی ساتھ کِیا۔
(41)پِھر وہ بائیں طرف والوں سے کہے گا اَے ملعُونو میرے سامنے سے اُس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ جو اِبلِیس اور اُس کے فرِشتوں کے لِئے تیّار کی گئی ہے۔
(42)کیونکہ مَیں بُھوکا تھا ۔ تُم نے مُجھے کھانا نہ کِھلایا ۔ پِیاسا تھا ۔ تُم نے مُجھے پانی نہ پِلایا۔
(43)پردیسی تھا تُم نے مُجھے گھر میں نہ اُتارا ۔ ننگا تھا ۔ تُم نے مُجھے کپڑا نہ پہنایا ۔ بِیمار اور قَید میں تھا ۔ تُم نے میری خبر نہ لی۔
(44)تب وہ بھی جواب میں کہیں گے اَے خُداوند! ہم نے کب تُجھے بُھوکا یا پِیاسا یا پردیسی یا ننگا یا بِیمار یا قَید میں دیکھ کر تیری خِدمت نہ کی؟۔
(45)اُس وقت وہ اُن سے جواب میں کہے گا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب تُم نے اِن سب سے چھوٹوں میں سے کِسی کے ساتھ یہ سلُوک نہ کِیاتو میرے ساتھ نہ کِیا۔
(46)اور یہ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زِندگی۔

25:31-46 متی

حضرت یوسف اور حضرت عیسیٰ ال مسیح

مستثنیٰ کے ساتھ جو دیگر بنی آدم جو خود کے سامنے سجدہ کرینگے ، حضرت یوسف اور حضرت عیسیٰ ال مسیح بھی ہوبہو انھیں نمونے کے واقعات سے گزرے – ذیل کے خاکے میں غور کریں کہ ان دونوں کی زندگیاں کن کن طریقوں سے مشابہت رکھتی تھیں –

حضرت یوسف کی زندگی میں واقعا ت حضرت عیسیٰ ال مسیح کی زندگی میں واقعات
اسکے بھائی جو اسرا ئیل کے 12 قبیلے بنکر ابھرے تھے ، انہوں یوسف سے نفرت کی اور اسکا انکار کیایہودی لوگ انہیں قبیلوں سے نکلے تھے –ایک قوم ہونے پر بھی عیسیٰ ال مسیح سے نفرت کی اور اسکو مسیحا ہونے سے انکار کیا
یوسف اپنے بھائیوں کے مستقبل کے سجدے کا اعلان اپنے باپ اسرائیل (یعقوب) سے کرتا ہے (یعقوب کا نام خدا کے زریعے دیا گیا تھا) –عیسیٰ ال مسیح اپنے بھائیوں کی مستقبل کے سجدے کی بابت (اپنےذاتی بھائیوں) بنی اسرئیل سے پیش بینی کرتے ہیں –(مرقس 62 :14)
یوسف کو اسکے باپ یعقوب کے زریعے اسکے بھائیوں کے پاس بھیجا جاتا ہے مگر وہ اسکا انکار کر اسکے خلاف سازش کرتے ہیں کہ اسکی جان لے لیں حضرت عیسیٰ ال مسیح کو اسکے باپ (آسمانی باپ) کے زریعے اپنے یہودی بھائیوں کے پاس بھیجا گیا "مگر اسکے اپنوں نے اسے قبول نہیں کیا ” (یوحننا 11 :1) – اور انہوں نے "اسکی جان لینے کے لئے اسکے خلاف سازش کی "(یوحننا 53 :11)  
انہوں اسکو زمیں کے گے گڑھے میں پھینک دیاعیسیٰ ال مسیح زمیں کے اندر عالم ارواح میں گئے –
یوسف کو بیچا گیا اور غیر ملکی سوداگروں کے ہاتھوں سونپا گیاعیسیٰ ال مسیح کو بیچا گیا اور غیر قوموں کے ہاتھوں اسکا کام تمام کرنے کے لئے سونپا گیا  
اسکو اپنے مقام سے بہت دور لے جایا گیا تاکہ اسکے بھائیوں اور باپ کے زریعے مرا ہوا سمجھا جاۓبنی اسرائیل اور اسکے یہودی بھائیوں نے سوچا کہ عیسیٰ ال مسیح کا وجود نہیں رہا اور اب وہ مر گئے ہیں
یوسف نے ایک خادم کی طرح خود کو حلیم کیاعیسیٰ ال مسیح نے ایک خادم کی صورت اختیار کی اور خود کو اتنا حلیم کیا کہ موت  بلکہ صلیبی موت تک سہہ  لیا (فلپپیوں 7:2)  
یوسف پر گناہ کا جھوٹا الزام لگایا گیا یہودیوں نے ال مسیح پر’کئی طرح کے جھوٹے الزام  لگاۓ (مرقس 3:15)  
یوسف کو قید خانے میں ایک غلام کی طرح بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ پہلے سے ہی کچھ قیدیوں کو ته خانے کی تاریکی سے آزاد کئے جانے کی پیش بینی کرتا ہے – (نان بائی)حضرت عیسیٰ ال مسیح کو بھیجا گیا تھا کہ شکستہ دلوں کو تسلّی دے ، قیدیوں کیلئے رہائی، تاریکیوں میں رہنے والوں کے لئے روشنی اور اسیروں کے لئے آزادی کا اعلان کرے ….(یسعیا ہ 1 :61)
یوسف کو مصر کے تخت پر بٹھایا گیا اور اسے مصر کے کل اختیارات سے نوازا گیا جو صرف فرعون کو حاصل تھے  -جو لوگ اسکے سامنے سے گزرتے تھے اسکو سجدہ کرتے تھے –  "اسی واسطے خدا نے بھی اسے (مسیح کو) بہت سر بلند کیا اور اسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلی ہے  تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا ٹکے خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمیںیوں کا  خواہ انکا جو زمین کے نیچے ہیں …(فلپپیوں  11 -10 :2 )  
اسکے بھائیوں کی طرف سے جبکہ ابھی بھی انکار کیا گیا تھا اور مرا ہوا سمجھا گیا تھا ، قومیں اناج کے لئے یوسف کے پاس آتی تھیں کہ وہ انھیں روٹی مہیا کرےمصلوبیت کے بعد جبکہ اسکو مرا ہوا سمجھکر اپنے ذاتی بھائیوں سے انکار کیا گیا قومیں عیسیٰ ال مسیح کے پاس زندگی کی روٹی کے لئے آتی ہنن اور صرف وہی اکیلا انھیں وہ روٹی مہیا کر سکتا ہے –
یوسف اپنے دھوکہ دیے جانے کی بابت اپنے بھائیوں سے کہتا ہے –(پیدائش 20 : 50)عیسیٰ ال مسیح کہتے ہیں اپنے یہودی بھائیوں کے زریعے دھوکہ دیا جانا یہ خدا کی مرضی کے مطابق ہے جس سے بہت سی زندگیاں بچائی جاینگی –(یوحننا 24 :5)
اسکے بھائی اور قومیں یوسف کے سامنے سجدہ کرتی ہیں –ابن آدم کی بابت دانی ا یل کی نبوتیں کہتی ہیں کہ "تمام قومیں اور ہر زبان کے لوگ اسکی عبادت کرینگے –”

کئی نمونے —کئی نشانیاں

تورات شریف سے تقریباً تمام قدیم انبیاء کی زندگیاں نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح کے نمونے پر قائم تھیں –ان نمونوں کو انکے آمد سے صدیوں سال پہلے قایم کیا گیا تھا –اسکو اس طرح سے کیا گیا تھا تاکہہم کو ظاہر کرے کہ مسیح کی آمد حقیقت میں خدا کے منصوبے کے مطابق تھا –یہ کوئی انسانی خیال کے مطابق نہیں تھا کیونکی بنی انسان پہلے سے ہی مستقبل کی باتوں کو نہیں جانتا –

حضرت آدم سے شرو ع کرتے ہوئے ، جس میں مسیح کی بابت پیش بینی کی گیئ تھی –بائبل کہتی ہے کہ حضرت آدم

…ایک نمونہ بطور ہیں اسکے جو آنے والا تھا (مثال بطور حضرت عیسیٰ ال مسیح)

(14)تَو بھی آدم سے لے کر مُوسیٰ تک مَوت نے اُن پر بھی بادشاہی کی جنہوں نے اُس آدم کی نافرمانی کی طرح جو آنے والے کا مثِیل تھا گُناہ نہ کِیا تھا۔

5:14 رومیوں

حا لا ںکہ یوسف اپنے بھائیوں کی طرف سے سجدے قبول کرنا ختم کرتا ہے ، یہ ایک انکاری ہے ، قربانی اور اپنے بھائیوں کی طرف سے بیگانگی ، یہی تھے جو اسکی زندگی میں زور دیا گیا تھا – اور اس اہمیت کو مسیح کی قربانی میں بھی نبی حضرت ابراہیم کی قربانی کے ساتھ دیکھا گیا ہے –یوسف کے بعد حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے اسرائیل کے بارہ قبیلے بن جاتے ہیں اور نبی حضرت موسیٰ کے زریعے مصر میں رہنمائی کئے جاتے ہیں –اور جس طریقے سے حضرت موسیٰ نے رہنمائی کی اور بنی اسرائیل نے قربانیوں کو انجام دیا وہ سب نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح کی قربانی کا ایک نمونہ اور پیش بینی کی تفصیل تھی دراصل تورات شریف میں نشانیوں کی تفصیلیں جو مسیح کے آنے صدیوں سال پہلے لکھ گئے تھے – اسکے علاوہ زبور اور دیگر نبیوں کی کتابیں بھی مستقبل کی تفصیلیں تھیں جو مسیح کے آنے کے صدیوں سل پہلے لکھی گیئ تھیں – انمیں دکھ اٹھانے والے خادم کی نبوت جسے انکاری کے ساتھ زور دیا گیا ہے – جبکہ کوئی بھی بنی انسان صدیوں سال بعد ہونے والی مستقبل کو نہیں معلوم کر سکتا –ان نبیوں کو ان کی تفصیل کی بابت کیسے علم ہوا جب تک کہ خدا کے زریعے الہام نہیں دیا گیا تھا تو عیسیٰ ال مسیح کی انکاری اور انکی قربانی بھی خدا کے منصوبے میں ضرور شامل تھی –    

ان نمونوں یا نبوتوں میں سے اکثر مسیح کی پہلی آمد تعلّق رکھتے ہیں جہاں اسنے خود کو پیش کیا تاکہ ہم اپنے گناہوں سے چھڑا ے جا سکیں  اور خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے قابل ہو سکیں –

مگر یوسف کا نمونہ بھی بہت آگے چلکر نظر آتا ہے جب بادشاہی کو پہلے دیا جاےگا اور عیسیٰ ال مسیح زمین پر لوٹنے کے وقت تمام قومیں اسکے سامنے سجدہ کرینگے – جبکہ ابھی ہم آج  کے زمانے میں جی رہے ہیں جب ہمکو خدا کی بادشاہی کے لئے دعوت دی جا رہی تو اس بیوقوف شخص کی مانند  نہ  بنے جو سورہ ال معراج میں بیان کیا گیا ہے جس نے ایک چھڑانے کی تلاش میں در لگا دی اور انصاف کے دن تک کا انتظار کیا –اور اسوقت بہت در ہو چکی تھی –سو آپ کے لئے مسیح کی زندگی کی پیش کش کی بابت ابھی اور زیادہ سیکھن –

مسیح نے سکھایا کہ اسکی دوسری آمد اس طرح سے واقع ہوگی –

(1)اُس وقت آسمان کی بادشاہی اُن دس کُنوارِیوں کی مانِند ہو گی جو اپنی مشعلیں لے کر دُلہا کے اِستِقبال کو نِکلِیں۔
(2)اُن میں پانچ بیوُقُوف اور پانچ عقلمند تِھیں۔
(3)جو بیوُقُوف تِھیں اُنہوں نے اپنی مشعلیں تو لے لِیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لِیا۔
(4)مگر عقلمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی کُپِّیوں میں تیل بھی لے لِیا۔
(5)اور جب دُلہا نے دیر لگائی تو سب اُونگھنے لگِیں اور سو گئِیں۔
(6)آدھی رات کو دُھوم مچی کہ دیکھو دُلہا آ گیا! اُس کے اِستقبال کو نِکلو۔
(7)اُس وقت وہ سب کُنوارِیاں اُٹھ کر اپنی اپنی مشعل دُرُست کرنے لگِیں۔
(8)اور بیوُقُوفوں نے عقلمندوں سے کہا کہ اپنے تیل میں سے کُچھ ہم کو بھی دے دو کیونکہ ہماری مشعلیں بُجھی جاتی ہیں۔
(9)عقلمندوں نے جواب دِیا کہ شاید ہمارے تُمہارے دونوں کے لِئے کافی نہ ہو ۔ بِہتر یہ کہ بیچنے والوں کے پاس جا کر اپنے واسطے مول لے لو۔
(10)جب وہ مول لینے جا رہی تِھیں تو دُلہا آ پُہنچا اور جو تیّار تِھیں وہ اُس کے ساتھ شادی کے جشن میں اندر چلی گئِیں اور دروازہ بند ہو گیا۔
(11)پِھر وہ باقی کُنوارِیاں بھی آئِیں اور کہنے لگِیں اَے خُداوند! اَے خُداوند! ہمارے لِئے دروازہ کھول دے۔
(12)اُس نے جواب میں کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ مَیں تُم کو نہیں جانتا۔
(13)پس جاگتے رہو کیونکہ تُم نہ اُس دِن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو۔
(14)کیونکہ یہ اُس آدمی کا سا حال ہے جِس نے پردیس جاتے وقت اپنے گھر کے نَوکروں کو بُلا کر اپنا مال اُن کے سپُرد کِیا۔
(15)اور ایک کو پانچ توڑے دِئے ۔ دُوسرے کو دو اور تِیسرے کو ایک یعنی ہر ایک کو اُس کی لِیاقت کے مُطابِق دِیا اور پردیس چلا گیا۔
(16)جِس کو پانچ توڑے مِلے تھے اُس نے فوراً جا کر اُن سے لین دین کِیا اور پانچ توڑے اَور پَیدا کر لِئے۔
(17)اِسی طرح جِسے دو مِلے تھے اُس نے بھی دو اَور کمائے۔
(18)مگر جِس کو ایک مِلا تھا اُس نے جا کر زمِین کھودی اور اپنے مالِک کا رُوپیَہ چُھپا دِیا۔
(19)بڑی مُدّت کے بعد اُن نَوکروں کا مالِک آیا اور اُن سے حِساب لینے لگا۔
(20)جِس کو پانچ توڑے مِلے تھے وہ پانچ توڑے اَور لے کر آیا اور کہا اَے خُداوند! تُو نے پانچ توڑے مُجھے سپُرد کِئے تھے ۔ دیکھ مَیں نے پانچ توڑے اَور کمائے۔
(21)اُس کے مالِک نے اُس سے کہا اَے اچّھے اور دِیانتدار نَوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دِیانتدار رہا ۔ مَیں تُجھے بُہت چِیزوں کا مُختار بناؤں گا ۔ اپنے مالِک کی خُوشی میں شرِیک ہو۔
(22)اور جِس کو دو توڑے مِلے تھے اُس نے بھی پاس آ کر کہا اَے خُداوند تُو نے دو توڑے مُجھے سپُرد کِئے تھے ۔ دیکھ مَیں نے دو توڑے اَور کمائے۔
(23)اُس کے مالِک نے اُس سے کہا اَے اچّھے اور دِیانتدار نَوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دِیانتدار رہا ۔ مَیں تُجھے بُہت چِیزوں کا مُختار بناؤں گا ۔ اپنے مالِک کی خُوشی میں شرِیک ہو۔
(24)اور جِس کو ایک توڑا مِلا تھا وہ بھی پاس آکر کہنے لگا اَے خُداوند مَیں تُجھے جانتا تھا کہ تُو سخت آدمی ہے اور جہاں نہیں بویا وہاں سے کاٹتا ہے اور جہاں نہیں بکھیرا وہاں سے جمع کرتا ہے۔
(25)پس مَیں ڈرا اور جا کر تیرا توڑا زمِین میں چُھپا دِیا ۔ دیکھ جو تیرا ہے وہ مَوجُود ہے۔
(26)اُس کے مالِک نے جواب میں اُس سے کہا اَے شرِیر اور سُست نَوکر! تُو جانتا تھا کہ جہاں مَیں نے نہیں بویا وہاں سے کاٹتا ہُوں اور جہاں مَیں نے نہیں بکھیرا وہاں سے جمع کرتا ہُوں۔
(27)پس تُجھے لازِم تھا کہ میرا رُوپیَہ ساہُوکاروں کو دیتا تو مَیں آکر اپنا مال سُود سمیت لیتا۔
(28)پس اِس سے وہ توڑا لے لو اور جِس کے پاس دس توڑے ہیں اُسے دے دو۔
(29)کیونکہ جِس کے پاس ہے اُسے دِیا جائے گا اور اُس کے پاس زِیادہ ہو جائے گا مگر جِس کے پاس نہیں ہے اُس سے وہ بھی جو اُس کے پاس ہے لے لِیا جائے گا۔
(30)اور اِس نِکمّے نَوکر کو باہر اندھیرے میں ڈال دو ۔ وہاں رونا اور دانت پِیسنا ہو گا۔

25:1-30متی

ان نمونوں یا نبوتوں میں سے اکثر مسیح کی پہلی آمد تعلّق رکھتے ہیں جہاں اسنے خود کو پیش کیا تاکہ ہم اپنے گناہوں سے چھڑا ے جا سکیں  اور خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے قابل ہو سکیں –

مگر یوسف کا نمونہ بھی بہت آگے چلکر نظر آتا ہے جب بادشاہی کو پہلے دیا جاےگا اور عیسیٰ ال مسیح زمین پر لوٹنے کے وقت تمام قومیں اسکے سامنے سجدہ کرینگے – جبکہ ابھی ہم آج  کے زمانے میں جی رہے ہیں جب ہمکو خدا کی بادشاہی کے لئے دعوت دی جا رہی تو اس بیوقوف شخص کی مانند  نہ  بنے جو سورہ ال معراج میں بیان کیا گیا ہے جس نے ایک چھڑانے کی تلاش میں در لگا دی اور انصاف کے دن تک کا انتظار کیا –اور اسوقت بہت در ہو چکی تھی –سو آپ کے لئے مسیح کی زندگی کی پیش کش کی بابت ابھی اور زیادہ سیکھن –

مسیح نے سکھایا کہ اسکی دوسری آمد اس طرح سے واقع ہوگی –   

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے