Skip to content

‘ال کتاب’- کتاب مقدّ س کا پیغام کیا ہے ؟

ال کتاب (بائبل) کے لفظی معنی ہیں ایک ‘خاص کتاب’– تاریخ میں سب سے پہلے بائبل کی تحریر تھی جسکی کتاب کی شکل میں اشاعت ہوئی جو آج ہم دیکھتے ہیں – بائبل دنیا کے اونچے درجے کی کتاب ہے جسکی وسعت میں تمام لوگ اور زمیں کے قبیلے شامل ہیں – د نیا  کے کئی ایک اقوام پر بائبل کا ایک گہرا تا ثر شروع سے ہی رہا ہے – اسلئے کہ اسکو موجودہ زمانے کے زیادہ سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے اور یہ کررہ زمیں پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے – مگر یہ کتاب بھی دیگر کتابوں کی طرح ایک پیچیدہ کہانی کے ساتھ لمبی کتاب ہے – اسلئے ہم میں سے بہت ہیں اس کتاب کے موضوع کو نہ  جانتے اور نہ سمجھتے ہیں یہ تحریر بائبل کی ایک کتاب سے ایک جملے کو لیگا تاکہ اس اونچے درجے کی کتاب سے کہانی کو سمجھاۓ – نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح کے کام –         

بائبل اس لئے دی گئی تھی کہ ہمارے مستقبل میں ایک حقیقی پریشانی سے مخاطب کراۓ – اس پریشانی کو سورہ ال مجادلہ (سورہ 58 — حججتی  عورت) میں آنے والے اس انصاف کے دن کی بابت بتاتے ہوئے سمجھایا گیا ہے –

 جس دن اللہ ان سب لوگوں کو (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھائے گا پھر انہیں اُن کے اعمال سے آگاہ فرمائے گا، اللہ نے (ان کے) ہر عمل کو شمار کر رکھا ہے حالانکہ وہ اسے بھول (بھی) چکے ہیں، اور اللہ ہر چیز پر مطّلع (اور آگاہ) ہےo

58:6-7سورہ ال – مجادلہ

 (اے انسان!) کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ اُن سب چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، کہیں بھی تین (آدمیوں) کی کوئی سرگوشی نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ (اللہ اپنے محیط علم و آگہی کے ساتھ) اُن کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی پانچ (آدمیوں) کی سرگوشی ہوتی ہے مگر وہ (اپنے علمِ محیط کے ساتھ) اُن کا چھٹا ہوتا ہے، اور نہ اس سے کم (لوگوں) کی اور نہ زیادہ کی مگر وہ (ہمیشہ) اُن کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوتے ہیں، پھر وہ قیامت کے دن انہیں اُن کاموں سے خبردار کر دے گا جو وہ کرتے رہے تھے، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہےo

سورہ ال – مجادلہ ہم سے کہتا ہے کہ ہمارے بارےمیں کوئی ایسی پوشیدہ بات نہیں ہے جسے الله نہ جانتا ہو ، اور وہ اس حکمت کو ہم پر انصاف کرنے کے لئے استعمال کریگا –   

سورہ ال قیامہ (سورہ 75 قیامت )اس دن کو (موت سے زندہ ہونے) کا دن کہلاتا ہے اور خبردار کرتا ہے کہ بنی انسان کو الله کے حضور زندگی میں جو کام اس نے کئے تھے اس کی بابت سوال جواب کے لئے پیش کیا جائے گا – 

 اُس وقت انسان پکار اٹھے گا کہ بھاگ جانے کا ٹھکانا کہاں ہےo

 ہرگز نہیں! کوئی جائے پناہ نہیں ہےo

 اُس دن آپ کے رب ہی کے پاس قرارگاہ ہوگیo

 اُس دن اِنسان اُن (اَعمال) سے خبردار کیا جائے گا جو اُس نے آگے بھیجے تھے اور جو (اَثرات اپنی موت کے بعد) پیچھے چھوڑے تھےo

 بلکہ اِنسان اپنے (اَحوالِ) نفس پر (خود ہی) آگاہ ہوگاo

 اگرچہ وہ اپنے تمام عذر پیش کرے گاo

75:10-15سورہ ال – قیامہ

سو ہم کیا کرتے ہیں اگر ہماری زندگیوں میں ایسے ارادے اور برے کام سرزد  ہو جاتے ہیں جن سے ہم شرمندہ ہو جاتے ہیں ؟ بائبل کا پیغام ان لوگوں کے لئے ہے جو ان باتوں کا احساس رکھتے ہیں یا جن کو اس بات کی پرواہ ہے –

کتاب کا پیغام     


ہم نے حضرت عیسیٰ المسیح کی زندگی کے آخری ہفتے کا جائزہ لیا۔ اس کے بارے انجیل مقدس میں درج ہے کہ وہ ہفتے کے چھٹے دن صلیب پر مصلوب ہوئے۔ اور وہ دن مبارک جمعہ کہلاتا ہے۔ اور آپ اتوار والے دن وہ مُردوں میں سے جی اُٹھے۔ اِس کے بارے میں تورات، زبور اور صحائف انبیاہ میں پیشگوئی پہلے سے نبیوں نے درج کردی تھی۔ لیکن یہ سب کچھ کیوں واقعہ ہوا اور آج یہ تمہارے اور میرے زندگی کے لیے کیوں اتنا اہم ہے؟ اور یہاں ہم اس بات کو سمجھنے کے کوشش کریں گے کہ حضرت عیسیٰ المسیح نے ہمارے لیے کیا پیش کیا۔ اور کیسے ہم اللہ تعالیٰ کے رحم اور معافی کو حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ ہمیں سورة الفاتح کو بھی سمجھنے میں مدد دے گا۔ جب اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی جاتی ہے کہ "ہمیں سیدھا راستہ دیکھا” اور "مسلم” کا مطلب ہے "جو اطاعت یا تعاعب” ہوگیا ہو۔ اور کس طرح یہ سب مذہبی رسمیں وضو، زکوة، اور ہلال کھانا سب اچھا ہے لیکن پھر بھی قیامت والے دن یہ سب ناکافی ہیں؟

بری خبر: انبیاہ اکرام نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ رشتے کے بارے میں کیا کہا ہے؟

یوں اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا، اللہ کی صورت پر۔ اُس نے اُنہیں مرد اور عورت بنایا۔ پیدائش 1:27

یہاں پر "صورت” سے مراد جسمانی معنی نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے معنی ہیں کہ ہم جذباتی ، ذہنی ، معاشرتی اور روحانی طور پر کام کرنے کے انداز میں اللہ تعالیٰ کی عکاسی کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق یا رشتہ قائم کرنے کے لیے پیدا کئے گے تھے۔ ہم اس رشتے یا تعلق کو اس سلائیڈ میں دیکھ سکتےہیں۔ اس سلائیڈ میں خالق جو کہ لامحدود حاکم ہے اس کو اُوپر لکھا گیا ہے۔ اس طرح مرد اور عورت کو سلائیڈ کے نیچے رکھا گیا ہے۔ کیونکہ ہم محدود مخلوق ہیں۔ اور اس میں رشتے کو تیر کے ذریعے دیکھایا گیا ہے۔

جب ہم اللہ تعالیٰ کی صورت پر پیدا کئے گے تھے۔ لوگوں کو اپنے خالق کے ساتھ رشتہ قائم کرنے کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا کردار کامل ہے۔ وہ پاک ہے۔ اس لیے زبور شریف میں کہا گیا ہے

کیونکہ تُو ایسا خدا نہیں ہے جو بےدینی سے خوش ہو۔ جو بُرا ہے وہ تیرے حضور نہیں ٹھہر سکتا۔ مغرور تیرے حضور کھڑے نہیں ہو سکتے، بدکار سے تُو نفرت کرتا ہے۔     

    زبور 5: 4-5

حضرت آدم نے صرف ایک نافرمانی کی۔ صرف ایک۔ اور اللہ تعالیٰ کی تقدیس نے حضرت آدم کو انصاف کے لیے طلب کیا ہے۔ تورات شریف اور قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اس کے نافرمانی کی وجہ سے حضرت آدم فانی ہوگے اور اللہ تعالیٰ کی پاک حضوری میں نکال دیا۔ جب کبھی ہم گناہ کرتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے نافرمانی جس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی صورت پر بنا اور ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ تو دراصل ہم اس رشتے کو توڑ دیتے ہیں۔ اس لیے یہ نافرمانی ایک سخت چٹان کی مانند ہمارے اور خدا (خالق) کے درمیان ایک دیوار بن جاتی ہے۔  

ہمارے گناہ ہمارے اورہمارے پاک خدا کے درمیان ایک ٹھوس رکاوٹ پیدا کرتے ہیں

گناہوں کی دیوار کو نیکیوں کے ساتھ گرانا

ہم میں سے بہت سے لوگ مذہبی نیک کاموں کے ذریعے اس بڑی دیوار کو گرانا چاہتے ہیں۔ یا پھر ایسے نیک کام کرتے ہیں کے اُن کے بدلے اللہ تعالیٰ اور انسان کے درمیان جدائی ختم ہوجائے۔ نماز، روزہ، زکوة، حج، صدقہ دینا اور مسجد جانا ان سب کاموں کے وسیلے ہم اس گناہوں کی دیوار کو گرانا چاہتے ہیں۔ اُمید یہ ہوتی ہے کہ ہمارے مذہبی نیک کاموں کے وسیلے ہمارے گناہ کام ہوجائیں گے؟ اگر ہم اتنے نیک کام کمالیں کے ہمارے سارے گناہوں کو منسوخ کردیا جائے اور پھر یہ اُمید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے اور مغفرت عطا فرمائے۔

ہم اللہ اور ہمارے درمیان گناہ کی دیوار کو کے نیک اعمال وسیلے چھیدنے کی کوشش کرتے ہیں

لیکن ہمیں گناہوں کو معاف کروانے کے لیے کتنی زیادہ نیک کام کمانے ہونگے؟ اس بات کا کیا یقین ہے کہ ہماری نیکیاں کافی ہونگی تماتر گناہوں کو معاف کروانے کے لیے اور اُس دیوار کو گرا دے جو ہمارے اور حالق کے درمیان کھڑی ہے؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ ہم نیک کوشش جو ہم کرتے ہیں وہ کافی ہے؟ دراصل ہم کو ان تمام تر باتوں میں کوئی یقین نہیں ہے۔ ہم اس لیے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ قیامت روز ہمارے لیے کافی ہوں۔

ان تمام تر نیک نیت اور نیک کاموں کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ ہم پاک بھی رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نماز سے پہلے جاںفشانی کے ساتھ وضو کرتے ہیں۔ ہم ہر طرح سے کوشش کرتے ہیں کہ ہم لوگوں، اور اُن چیزوں سے دور رہیں جن سے ہم ناپاک ہوسکتے ہیں۔ لیکن حضرت یسعیاہ نے ایک بات کا ہم پر یہ انکشاف کیا کہ۔

ہم سب ناپاک ہو گئے ہیں، ہمارے تمام نام نہاد راست کام گندے چیتھڑوں کی مانند ہیں۔ ہم سب پتوں کی طرح مُرجھا گئے ہیں، اور ہمارے گناہ ہمیں ہَوا کے جھونکوں کی طرح اُڑا کر لے جا رہے ہیں۔  یسعیا 64: 6

یہاں نبی ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم سب چیزوں سے پرہیز کریں تو بھی ہم ناپاک ہوجاتے ہیں۔ ہمارے گناہوں ہمارے تمام تر "نیک یا راستی” کے کاموں کو ناپاک بنادیتے ہیں جس طرح ایک گندا کپڑا خون سے لت ہو۔ یہ ایک بُری خبر ہے۔ لیکن اور بھی خراب ہوجاتی ہے۔

بدترین خبر: گناہ اور موت کی طاقت

حضرت موسیٰ  نے شریعت کا واضع قانون متعارف کروایا۔ کہ احکام کی کامل اطاعت کرنی ہوگی۔ شریعت میں کہیں بھی ایسا نہیں لکھا کہ تم "بیشتر احکام” پر عمل کرسکتے ہو اور باقی جو چُھوٹ جائیں اُن کو رہنے دو۔ درحقیقت شریعت میں بار بار کہا ہے کہ واحد نیک کام ہمارے گناہ کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی اور وہ موت ہے۔ ہم نے حضرت نوح کے زمانے میں اور حتیٰ کہ حضرت لوط کی بیوی کے ساتھ بھی دیکھا تھا کہ گناہ کا نتیجہ موت ہے۔

انجیل شریف اس سچائی کا خلاصہ ذیل میں بیان کرتی ہے۔

کیونکہ گناہ کا اجر موت ہے ۔ ۔ ۔  رومیوں 6: 23

موت کے لفظی معنی ہیں "علیحدگی”۔ جب ہماری روح ہمارے جسم سے الگ ہوجاتی ہے تو ہم جسمانی طور پر مر جاتے ہیں۔ اسی طرح ہم اب بھی روحانی طور پر خدا سے جدا ہوگئے ہیں اور اس کی نظر میں مردہ اور ناپاک ہیں۔

اس سے گناہ سے مغفرت حاصل کرنے میں مسلئہ پیدا ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سخت کوششیں ، قابلیت ، اچھے ارادے اور نیک اعمال ، اگرچہ غلط نہیں ہیں ، لیکن ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے ناکافی ہیں کیوںکہ ہمارے گناہوں کی ادائیگی ("اجرت”) کی ضرورت ‘موت’ ہے۔ اس لیے صرف موت ہی اس گناہ کی دیوار کو گرا سکتی ہے۔  کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ عادل منصف ہے اور اُس کا انصاف اس سے مطمئن ہوتا ہے۔ نیکیوں کوحاصل کرنے کے لئے ہماری کوششیں ایسی ہیں جیسے ہم حلال کھانا کھا کر کینسر سے علاج حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہوں۔ حلال کھانا بُرا نہیں ہے بلکہ اچھا ہے۔ اور ہر کسی کو حلال کھانا کھانا چاہئے۔ لیکن اس سے کینسر کا علاج نہیں ہوتا۔ بلکہ کینسر کا علاج بالکل مختلف ہے۔ اس علاج میں کینسر والے خلیوں کو موت دی جاتی ہے۔ تاکہ انسان کو بچا لیا جائے۔

لہذا ہماری مذہبی نیک کوششوں اور نیک ارادوں میں بھی ہم اپنے خالق کی نظر میں ایک لاش کی طرح دراصل مردہ اور ناپاک ہیں۔

ہمارے گناہ کا اجر موت ہے۔ ہم اللہ کے حضور ناپاک لاشوں کی مانند ہیں

حضرت ابراہیم : سیدھا راستہ دیکھا رہے ہیں

حضرت ابراہیم کے ساتھ کچھ مختلف ہوا۔ اُن کو نیک کاموں یا راست بازی کے کاموں کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پر ایمان لائے اس لیے اُن کو راست باز گنا گیا۔ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا نہ کہ اپنے نیک کاموں پر۔ ہم نے اس عظیم قربانی کے واقع میں دیکھا کہ موت (گناہ کی ادائیگی) ادا کی گئی۔ لیکن حضرت ابراہیم کے بیٹے کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بکرہ عطا کیاگیا۔

ابراہیم کو سیدھا راستہ دکھایا گیا تھا – اس نے سیدھے خدا کے وعدے پر بھروسہ کیا اور خدا نے گناہ کے لئے موت کی ادائیگی کی

قرآن شریف کی سورة الصَّافات اس طرح بیان کیا گیا ہے

اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ﴿۱۰۷﴾  اور پیچھے آنے والوں میں ابراہیم کا (ذکر خیر باقی) چھوڑ دیا ﴿۱۰۸﴾  کہ ابراہیم پر سلام ہو ﴿۱۰۹  

            سورة الصَّافات ۳۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹                                                                                                    

                                                                                                                                                          اللہ تعالیٰ نے ‘فدیہ’ دیا (قیمت ادا کی) اور ابراہیم کو برکت ، رحمت اور مغفرت ملی ، جس میں ’’ امن ‘‘ شامل تھا۔

خوشخبری: حضرت عیسیٰ المسیح نے ہمارے ایک عظیم کام کیا

نبی کی مثال بالکل ایسی ہے جس طرح سورة فاتحہ میں دوخواست کی گئی کہ ہمیں سیدھا راستہ دیکھا۔ (سورة الفاتحہ

سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے ﴿۱﴾  بڑا مہربان نہایت رحم والا ﴿۲﴾  انصاف کے دن کا حاکم ﴿۳﴾  (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ﴿۴﴾

سورة الفاتحہ ۱: ۱ تا ۴

انجیل شریف میں اس بات کی وضاحت کی ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ اللہ کس طرح ہمارے گناہ کی قیمت ادا کرے گا اور سادہ اور حیرت انگیز طریقے سے موت اور ناپاکی کا علاج مہیا کرے گا۔

کیونکہ گناہ کا اجر موت ہے جبکہ اللہ ہمارے خداوند مسیح عیسیٰ کے وسیلے سے ہمیں ابدی زندگی کی مفت نعمت عطا کرتا ہے۔

رومیوں 6:23

اب تک ہم’بری خبرکی بات کر رہے تھے ۔ لیکن جب انجیل شریف کے معنی کو لیتے ہیں تو ‘انجیل’ کے لغوی معنی ہیں ’خوشخبری‘ اور انجیل یہ اعلان کرتی ہے۔ کہ حضرت عیسیٰ کی موت کی قربانی ہمارے اور خدا کے مابین اس گناہ کی دیوار یا رکاوٹ کو چھیدنے کے لئے کافی ہے ہم دیکھ سکتے ہیں کیوں کہ یہ خوشخبری ہے جیسا کہ نیچے دکھایا گیا ہے۔

حضرت عیسیٰ المسیح کی قربانی – خدا کا بکرہ – ہمارے گناہوں کے واسطے موت کی ادائیگی اُسی طرح ادا کی۔ جیسے ابراہیم کے بکرے کو قربان کیا تھا۔

حضرت عیسیٰ المسیح  قربان ہوئے اور پھر پہلے پھلوں کے طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھے تو وہ اب ہمیں نئی زندگی (ہیمشہ کی زندگی) کی پیش کش کرتے ہیں۔ اب ہمیں گناہ کی وجہ سے موت کے قید میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حضرت عیسیٰ المسیح کی مُردوں میں سے قیامت ‘پہلا پھل’ تھا۔ ہم موت سے آزاد ہوسکتے ہیں اور حضرت عیسیٰ المسیح کی طرح قیامت جس کا مطلب جی اُٹھنے والی زندگی حاصل کرسکتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ المسیح (کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا) قیامت پہلا پھل’ تھے۔ ہم موت سے آزاد ہوسکتے ہیں اور قیامت میں ہیمشہ کی زندگی حاصل کرسکتے ہیں۔

اس کی قربانی اور (مُردوں میں سے جی اُٹھ کر) قیامت میں حضرت عیسیٰ المسیح گناہ کی راہ میں رکاوٹ کا دروازہ بن گیا جو ہمیں اللہ تعالیٰ سے جدا کرتا ہے۔ اسی لئے پیغمبر نے فرمایا

‘مَیں ہی دروازہ ہوں۔ جو بھی میرے ذریعے اندر آئے اُسے نجات ملے گی۔ وہ آتا جاتا اور ہری چراگاہیں پاتا رہے گا۔ چور تو صرف چوری کرنے، ذبح کرنے اور تباہ کرنے آتا ہے۔ لیکن مَیں اِس لئے آیا ہوں کہ وہ زندگی پائیں، بلکہ کثرت کی زندگی پائیں۔      یوحنا 10: 9-10

حضرت عیسیٰ المسیح ایسا دروازہ ہے جو گناہ اور موت کی راہ میں رکاوٹ ہے

اس دروازے (حضرت عیسیٰ المسیح) کی وجہ سے ، اب ہم اپنے خالق کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ اس سے پہلے  ہمارا گناہ ایک رکاوٹ تھا ۔ اس دروازے کے وسیلے ہمیں رحمت اور اپنے گناہوں کی معافی کی یقین دلایا جاسکتا ہے۔

کھلے دروازے کے ساتھ اب ہم اپنے خالق کے ساتھ تعلقات میں بحال ہوگئے ہیں

جس طرح انجیل پاک میں لکھا ہے۔

کیونکہ ایک ہی خدا ہے اور اللہ اور انسان کے بیچ میں ایک ہی درمیانی ہے یعنی مسیح عیسیٰ، وہ انسان جس نے اپنے آپ کو فدیہ کے طور پر سب کے لئے دے دیا تاکہ وہ مخلصی پائیں۔ یوں اُس نے مقررہ وقت پر گواہی دی

پہلا تیمتھیس 2: 5-6

حضرت عیسیٰ المسیح  نے ‘خود کو’ تمام لوگوں کے لئے ‘دیا۔ لہذا اس میں آپ  کو اپنے آپ کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ اپنی موت اور قیامت کے ذریعے اہمارا ایک ’ثالث‘ ہونے کی قیمت ادا کردی ہے اور ہمیں ہمیشہ زندگی کی پیش کش کی ہے۔ یہ زندگی ہمیں کیسے دی جاتی ہے؟

‘کیونکہ گناہ کا اجر موت ہے جبکہ اللہ ہمارے خداوند مسیح عیسیٰ کے وسیلے سے ہمیں ابدی زندگی کی مفت نعمت عطا کرتا ہے۔’

رومیوں 6: 23

غور کریں کہ یہ زندگی ہمیں کس طرح دیا گیا ہے۔ یہ بطور…  ’ہم کو تحفہ‘ کے پیش کی جاتا ہے۔ زرا آپ تحفوں کے بارے میں سوچیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تحفہ کیسا ہے ، اگر واقع یہ ایک تحفہ ہے تو یہ ایسی چیز ہے جس کے لیے آپ کام نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی  اس کے لیے کوئی قیمت یا نیک کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ نے اسے کمایا تو یہ تحفہ اب کوئی تحفہ نہیں ہوگا – یہ آپ کے کام کی اجرت ہوگی! اسی طرح آپ عیسیٰ المسیح کی قربانی کا تقاضا نہیں لگا سکتے اور نہ ہی اپنے نیک کاموں سے کما سکتے ہیں۔ یہ بطور تحفہ جو آپ کو دیا گیا ہے۔ یہ اتنا آسان اور سادہ ہے۔

اور تحفہ کیا ہے؟ یہ ‘ہمیشہ زندگی’ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس گناہ سے موت آپ اور مجھے پر آئی وہ اب اس کی ادائگی  چکا ہے۔ کیونکہ خدا تم سے اور مجھ سے محبت رکھتا ہے۔  اور اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے۔

اب آپ اور میں ہیمشہ کی زندگی کیسے حاصل کرسکتے؟ ایک بار پھر ، تحائف کے بارے میں سوچیں. اگر کوئی آپ کو کوئی تحفہ دینا چاہتا ہے تو آپ کو اسے ضرور ‘وصول’ کرنا ہوگا۔ جب بھی تحفہ پیش کیا جاتا ہے تو صرف دو ہی متبادل ہوتے ہیں۔ یا تو تحفہ سے انکار کردیا جاتا ہے ("نہیں آپ کا شکریہ”) یا قبول کرلیا جات ہے ("آپ کے تحفے کا شکریہ۔ میں اسے لے کر جاؤں گا”)۔ تو بھی یہ تحفہ موصول ہونا ضروری ہے. اس تحفے کو صرف آپ کو قبول ہی کرنا بلکہ اس پر ذہنی طور پر یقین کرنا ، پڑھا یا سمجھنا چاہئے۔ اچھی بات ہے جب آپ کو تحفہ پیش کیا جائے تو اس کو قبول کرنا چاہئے۔

‘توبھی کچھ اُسے قبول کر کے اُس کے نام پر ایمان لائے۔ اُنہیں اُس نے اللہ کے فرزند بننے کا حق بخش دیا، ایسے فرزند جو نہ فطری طور پر، نہ کسی انسان کے منصوبے کے تحت پیدا ہوئے بلکہ اللہ سے۔ ‘

یوحنا 1: 12-13

در حقیقت ، انجیل خدا کے بارے میں بتاتی ہے۔

‘یہ اچھا اور ہمارے نجات دہندہ اللہ کو پسندیدہ ہے۔ ہاں، وہ چاہتا ہے کہ تمام انسان نجات پا کر سچائی کو جان لیں۔ ‘

۱۔تیمتھیس 2: 3-4

حضرت عیسیٰ المسیح نجات دہندہ ہیں اور آپ کی خواہش ہے کہ ‘تمام لوگ’ اس کا تحفہ قبول کریں اور گناہ اور موت سے بچ جائیں۔ اگر آپ حضرت عیسیٰ المسیح کی مرضی قبول کرنا چاہتے ہیں۔ تو اس  تحفے کو قبول کرنا محض آپ کی مرضی کے تابع ہونا ہوگا – جس طرح لفظ ‘مسلم’ کے معنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے فرمانبردار کردینا ہے۔ اس طرح ہم کو اللہ تعالیٰ کے اس تحفے کو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں قبول کرلینا چاہئے۔

تو ہم یہ تحفہ کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ انجیل شریف میں درج ہے۔

‘اِس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو یا غیریہودی۔ کیونکہ سب کا ایک ہی خداوند ہے، جو فیاضی سے ہر ایک کو دیتا ہے جو اُسے پکارتا ہے۔ ‘

رومیوں 10: 12

غور کرنے کی بات ہے کہ یہ وعدہ ‘سب کے لئے’ ہے۔ چونکہ آپ مردوں میں سے جی اُٹھے ہیں۔ حضرت عیسیٰ المسیح اب بھی زندہ ہیں۔ لہذا اگر آپ ان کو پکاریں گے تو وہ سن لے گے اور آپ کو اپنا تحفہ عطا کریں گے۔

آپ ان کو پکاریں اوران سے کہیں۔ شاید آپ نے ایسا کبھی نہیں کیا ہوگا۔ ذیل میں ایک گائیڈ ہے جو آپ کی مدد کرسکتی ہے۔ یہ کوئی جادومنتر نہیں ہے۔ اور نہ یی یہ مخصوص الفاظ نہیں جو  قوت دیتے ہیں۔ یہ بھروسہ ہے جیسا ابراہیم کا تھا کہ ہم حضرت عیسیٰ المسیح میں پر اپنا یقین لائیں تاکہ وہ یہ تحفہ ہمیں دیں۔ جب ہم ان پر بھروسہ کرتے ہیں تو وہ ہماری سن لے گے اور جواب دے گے۔ انجیل پاک میں قوت ہے ، اور پھر بھی بہت سادہ ہے۔ اگر آپ کو یہ مددگار ثابت ہوتا ہے تو اس رہنمائی پر عمل کرنے کے لئے آزادی محسوس کریں۔

پیارے حضرت عیسیٰ المسیح۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے گناہوں کی وجہ ہی سے میں اپنے خالق اللہ تعالیٰ سے جدا ہوں۔ اگرچہ میں پوری کوشش کرسکتا ہوں ، لیکن میری کوششیں اس رکاوٹ کو جو میرے گناہ کی وجہ سے دیوار کی ماندد ہیں گرا نہیں سکتیں۔  لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی موت میرے تمام گناہوں کو دھو ڈالنے اور مجھے پاک کرنے کے لئے آپ قربان ہوئے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ اپنی قربانی کے بعد مردوں میں سے جی اُٹھے ہیں لہذا مجھے یقین ہے کہ آپ کی قربانی کافی ہے اور اسی لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ براہ کرم مجھے میرے گناہوں سے پاک کردیں اور اپنے خالق کے ساتھ صلح کروائیں تاکہ میں ابدی زندگی پاسکوں۔ آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، حضرت عیسیٰ المسیح ، آپ نے میرے لئے یہ سب کیا۔  اور آپ اب بھی میری زندگی میں میری رہنمائی کرتے رہیں  تاکہ میں آپ کو اپنے خداوند کی حیثیت سے پیروی کرتا رہوں۔

اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان ہے

   

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے