Skip to content

حضرت عیسیٰ المسیح رحمت فرماتے ہیں۔

اس سورہ لقمان (سورہ 31 لقمان ) ہم کو یاد دلاتا ہے

2. یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیںo

3. جو نیکوکاروں کے لئے ہدایت اور رحمت ہےo

سورہ لقمان 31 :2 -3

سورہ لقمان اعلان کرتا ہے کہ ‘نیک کام کر نے والوں’ کے لئے’رحم’ کی  امید کی جا سکتی ہے – اوراسلئے سورہ ال حجر( سورہ 15 – پتھریلی علاقہ )ایک اہم سوال پوچھتا ہے –    

ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: اپنے رب کی رحمت سے گمراہوں کے سوا اور کون مایوس ہو سکتا ہےo

الْحِجْر، 15 : 56

انکا کیا ہوگا جو بھٹک چکے ہیں ؟ حضرت عیسی ال مسیح کی خدمت گزاری ان کے لئے تھی جو بھٹک چکے تھے اور رحم کا توقع نہیں رکھتے تھے –نبی عیسی کے لئے موقع تھا کہ وہ کسی ایسے شخص پر اپنے رحم کا اظہار کرے جسکی ندامت فاش ہو چکی تھی –     

کیا آپ نے کبھی شریعت کی نافرمانی کی ہے؟ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کرنا چاہتا، لیکن سچائی یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی حقیقت کو چھپاتے ہیں۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ دوسراہمارے گناہ کے بارے میں نہیں جانتا ہوگا۔ ورنہ اگر کسی کو معلوم ہوگیا تو اس سے بےعزتی ہوگی۔ لیکن اگر آپ کی ناکامی/گناہ دوسروں کو معلوم ہوجائے تو آپ پھر کیا اُمید کرتے ہیں؟

حضرت عیسیٰ المسیح کی تعلیم کے دوران ایسا ایک خاتون کے ساتھ ہوا۔ انجیل مقدس میں اس واقع کو اس طرح درج کیا گیا ہے۔

‘صُبح سویرے ہی وہ پِھر ہَیکل میں آیا اور سب لوگ اُس کے پاس آئے اور وہ بَیٹھ کر اُنہیں تعلِیم دینے لگا۔ اور فقِیہہ اور فرِیسی ایک عَورت کو لائے جو زِنا میں پکڑی گئی تھی اور اُسے بِیچ میں کھڑا کر کے یِسُو ع سے کہا۔ اَے اُستاد! یہ عَورت زِنا میں عَین فِعل کے وقت پکڑی گئی ہے۔ تَورَیت میں مُوسیٰ نے ہم کو حُکم دِیا ہے کہ اَیسی عَورتوں کو سنگسار کریں ۔ پس تُو اِس عَورت کی نِسبت کیا کہتا ہے؟۔ اُنہوں نے اُسے آزمانے کے لِئے یہ کہا تاکہ اُس پر اِلزام لگانے کا کوئی سبب نِکالیں مگر یِسُو ع جُھک کر اُنگلی سے زمِین پر لِکھنے لگا۔ جب وہ اُس سے سوال کرتے ہی رہے تو اُس نے سِیدھے ہو کر اُن سے کہا کہ جو تُم میں بے گُناہ ہو وُہی پہلے اُس کے پتّھر مارے۔ اور پِھر جُھک کر زمِین پر اُنگلی سے لِکھنے لگا۔ وہ یہ سُن کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے نِکل گئے اور یِسُو ع اکیلا رہ گیا اور عَورت وہِیں بِیچ میں رہ گئی۔ یِسُو ع نے سِیدھے ہو کر اُس سے کہا اَے عَورت یہ لوگ کہاں گئے؟ کیا کِسی نے تُجھ پر حُکم نہیں لگایا؟۔ اُس نے کہا اَے خُداوند کِسی نے نہیں ۔ یِسُو ع نے کہا مَیں بھی تُجھ پر حُکم نہیں لگاتا ۔ جا ۔ پِھر گُناہ نہ کرنا ۔ ‘ یُوحنّا 8: 2-11

یہ عورت زنا کے عین فعل پر پکڑی گئی۔ حضرت موسیٰ کی شریعت کے ماہر یہودی اُستاد اُس کو سنگسار کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے اُس کو حضرت عیسیٰ المسیح کے پاس لانا پسند کیا۔ کیونکہ وہ آپ کو آزمانا چاہتے تھے۔ کہ آپ اس معاملے کے بارے میں کیا فتویٰ دیتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا آپ شریعت کو برقرار رہیں گے یا نہیں؟ (دراصل شریعی طور پر مرد اور عورت دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم تھا۔ لیکن اُنہوں نے صرف عورت کو وہاں سزا دینے کے لیے لایا)

اللہ کا انصاف اور بنی نوع انسان کا گناہ

حضرت عیسیٰ المسیح نے شریعت کی مخالفت نہ کی۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق کامل انصاف فرمایا۔ لیکن آپ نے یہ فرمایا کہ پہلا پتھر وہ مارے گا جس نے کبھی بھی گناہ نہیں کیا۔ جب شریعت کے ماہر اُستادوں نے اس پر غور کیا تو زبور شریف سے اس مندرجہ ذیل آیت کی حقیقت اُن کے ذہینوں میں روشن ہوگی۔

‘خُداوند نے آسمان پر سے بنی آدم پرنِگاہ کی تاکہ دیکھے کہ کوئی دانِش مند کوئی خُدا کا طالِب ہے یا نہیں۔ وہ سب کے سب گُمراہ ہُوئے ۔ وہ باہم نجِس ہو گئے ۔ کوئی نیکوکار نہیں ۔ ایک بھی نہیں۔ ‘ زبُو 14:2-3

اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف کافر اور مشرکین ہی گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے بلکہ ایماندار جو اللہ اوراُس کے انبیاءاکرام پر ایمان لاتے ہیں وہ بھی گناہ کرتے ہیں۔ دراصل ان آیت کے مطابق جب بھی اللہ تعالیٰ آسمان پر سے زمیں پر بنی آدم پر نگاہ کرتا ہے۔ تو وہ کسی کو بھی نیک نہیں جانتا۔

حضرت موسیٰ کی شریعت میں بنی نوع انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا انصاف کا کامل انتظام تھا۔ اور جو اس پر عمل کریں گے وہ راستباز ٹھہریں گے۔ لیکن معیار کامل تھا۔ اور اس معیار میں ایک گناہ کی بھی گنجائش نہ تھی۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت

لیکن جب "سب بدعنوان بن گے”، تو پھر ایک اور انتظام کی ضرورت پیش آئی۔ یہ انتظام انصاف کے معیار پر مبنی نہیں ہوگا۔ کیونکہ لوگ شریعت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے تھے۔ لہذا یہ اللہ تعالیٰ کے ایک دوسرے کردار یعنی رحم پر مبنی ہوگا۔ وہ اس انتظام کی بدولت اپنے لوگوں پر رحم کرے گا۔ اس کی تصویر حضرت موسیٰ کی شریعت میں پیش کی گئی تھی۔ کہ جب فسح پربکرے کے خون کو اپنے گھر کے دروازے پر لگالے گا تو اُس پر رحم کیا جائے گا اور اُس کی زندگی بخش دی جائے گی۔ اور حضرت ہارون کی گائے کا ذکر (سورۃ البقرہ) میں بھی آیا ہے۔ اس کا ذکر حضرت آدم اور حضرت حوا کو جب لباس کی ضرورت تھی۔ تو ان پر رحم کیا گیا اور قربانی کے ذریعے لباس مہیا کیا گیا۔ حضرت ہابیل کی قربانی، اور حضرت نوح پر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت برسی۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے زبور شریف میں کیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کی میں اس دنیا کا گناہ ایک دن میں ختم کردوں گا۔

. . .

ربُّ الافواج فرماتا ہے اور مَیں اِس مُلک کی بدکرداری کو ایک ہی دِن میں دُور کرُوں گا۔ ‘ زکریاہ 3: 9

اب حضرت عیسیٰ المسیح اس کو اُس شخص (عورت) پر واضح کررہے تھے۔ جس کے پاس صرف رحم کی اُمید کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ یہ دلچسپی کی بات ہے۔ کہ اس عورت کے بارے مذہب میں کوئی اہمیت نہیں نظر نہیں آتی۔ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ المسیح نے پہاڑ پر ایک وعظ فرمایا تھا۔

‘مُبارک ہیں وہ جو رحمدِل ہیں کیونکہ اُن پر رحم کِیاجائے گا۔ ‘ متّی 5:7

اور

‘عَیب جوئی نہ کرو کہ تُمہاری بھی عَیب جوئی نہ کی جائے۔ کیونکہ جِس طرح تُم عَیب جوئی کرتے ہو اُسی طرح تُمہاری بھی عَیب جوئی کی جائے گی اور جِس پَیمانہ سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تُمہارے واسطے ناپا جائے گا۔ ‘ متّی 7:1-2

رحم پانے کے لیے رحم کرو

آپ کو اور مجھ کو قیامت کے دن رحم حاصل کرنے کے لیے دوسروں کے ساتھ رحم سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے اُس شخصیت پر رحم کیا جس نے مکمل طور پر شریعت کی نافرمانی کی اور وہ عورت رحم کی مستحق نہ تھی۔ لیکن کیا اس کی ضرورت ہے۔ کہ ہم اپنے اردگرد لوگوں پر رحم کریں۔ حضرت عیسیٰ المسیح کے مطابق رحم کرنے کا معیار یہ ہے۔ کہ ہم پر اتنا ہی رحم کیا جائے گا جتنا ہم دوسرے لوگوں پر رحم کریں گے۔ ہم دوسروں کے گناہ کی عدالت کرنا بہت جلدی پسند کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارے اردگرد خود بہت سارے مسلئے موجود ہیں۔ جبکہ ہمارے لیے عقلمندی یہ ہوگی کہ ہم اُن پر رحم کریں جنہوں نے ہمیں دکھ دیا ہو۔ آئیں ہم مل کر یہ دعا کریں ہم حضرت عیسیٰ المسیح جیسے بن جائیں جو اُن لوگوں پر رحم کرتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ ہم بھی اس طرح کے لوگ ہیں۔ جو رحم کے مستحق نہیں تھے لیکن ہم پر بھی اُس کا رحم ہوا۔ اس لیے ہم بھی رحم ہو سکے جب ہم کو اس کی ضرورت ہو۔ پھر ہی ہم انجیل مقدس میں رحم کے بارے میں خوشخبری کو بہتر طور پر جان سکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے