Skip to content

حضرت عیسیٰ المسیح کا فطرت پر اختیار

  • by

ہم نے پچھلے دو مضامین میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ المسیح اختیار سے تعلیم اور شفاء دیتے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا کہ وہ فطرت پر بھی اقتدار رکھتے تھے. انجیل مقدس میں درج ہے۔ کہ کس طرح اُنہوں نے اپنے حواریوں کے ساتھ جھیل کو پار کیا اور اس دوران حواری "تعجب اور خوف” سے بھر گے۔ یہ واقع اس طرح لکھا ہے۔

22 ایک دن یسوع اور انکے شاگرد کشتی پر سوار ہوئے یسوع نے کہا ، “آؤ جھیل کے اس پار چلیں” اس طرح وہ اس پار کے لئے نکلے۔ 23 جب وہ جھیل میں کشتی پر جا رہے تھے تو یسوع کو نیند آ نے لگی اس طرف جھیل میں تیز ہوا کا جھونکا چلنے لگا اور کشتی میں پانی بھر نے لگا اور تمام کشتی سواروں کو خطرہ کا سامنا ہوا۔ 24 تب شاگرد یسوع کے پاس گئے انکو جگا کر کہا، “صاحب صاحب!ہم سب ڈوب رہے ہیں”

فوراً یسوع اٹھ بیٹھے اور انہوں نے ہوا کی لہروں کو حکم دیا تب آندھی رک گئی اور جھیل میں سکوت چھا گئی۔ 25 یسوع نے اپنے شاگردوں سے پوچھا، “تمہارا ایمان کہاں گیا؟”

شاگرد خوف زدہ ہو تے ہوئے حیرانی سے ایک دوسرے سے کہنے لگے” یہ کون ہو سکتا ہے؟ یہ ہوا کو اور پانی کو حکم دیتا ہے اور وہ اسکی اطاعت کر تے ہیں

(Luke8:22-25)

https://www.youtube.com/watch?v=HyAECszGJb8&list=PLHvce-kc-eatp2ob50RyDl6j43qlhI5C7&index=20

حضرت عیسیٰ المسیح نے طوفان اور موجوں کو حکم دیا۔ اس بات کا کوئی تعجب نہیں کہ حواری اس واقعہ کو دیکھ کرحیران رہ گے۔ حضرت عیسیٰ المسیح کا طوفان اور تباہ کردینے والی موجوں پر اس قدر اختیار۔ وہ آپس میں سوال کرنے لگے کہ آپ کون ہیں۔ ایک بار حضرت عیسیٰ المسیح اور اُن کے حواری ہزاروں لوگوں کے ساتھ تھے۔ آپ کے اختیار کو دیکھ کر لوگ آپس میں یہ کہنے لگے۔ آپ کون ہیں۔ اس وقت آپ نے طوفان اور موجوں کو حکم نہیں دیا تھا۔ بلکہ اُن لوگوں کو کھانا کھلایا تھا۔ یہاں پر وہ واقعہ درج ہے۔

سکے بعد یسوع گلیل کی جھیل کے اس پار پہونچے۔ کئی لوگ یسوع کے ساتھ ہو لئے اور انہوں نے یسوع کے معجزوں کو دیکھا اور بیماروں کو شفاء بخشتے دیکھا۔ یسوع اوپر پہاڑی پر گئے وہ وہاں اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ یہودیوں کی فسح کی تقریب کا دن قریب تھا۔

یسوع نے دیکھا کہ کئی لوگ ان کی جانب آ رہے ہیں۔ یسوع نے فلپ سے کہا، “ہم اتنے لوگوں کے لئے کہاں سے روٹی خرید سکتے ہیں تا کہ سب کھا سکیں؟” یسوع نے فلپ سے یہ بات اسکو آزمانے کے لئے کہی یسوع کو پہلے ہی معلوم تھا کہ وہ کیا ترکیب سوچ رکھے ہیں۔

فلپ نے جواب دیا ، “ہم سب کو ایک مہینہ تک کچھ کام کرنا چاہئے تا کہ ہر ایک کو کھا نے کے لئے روٹی حاصل ہو سکے اور انہیں کم سے کم کچھ غذا میسّر ہو۔”

دوسرا ساتھی اندر یاس تھا جو شمعون پطرس کا بھا ئی تھا اندریاس نے کہا۔ ، “یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس بارلی کی روٹی کے پانچ ٹکڑے اور دو مچھلیاں ہیں لیکن یہ ا ن سب کے لئے کا فی نہیں ہوگا۔”

10 یسوع نے کہا ، “لوگوں سے کہو کہ بیٹھ جائیں۔” وہاں اس مقام پر کافی گھاس تھی وہاں ۵۰۰۰ آدمی تھے اور وہ سب بیٹھ گئے۔ 11 تب یسوع نے روٹی کے ٹکڑے لئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور جو لوگ بیٹھے ہو ئے تھے ان کو دیا اسی طرح مچھلی بھی دی اس نے انکو جتنا چاہئے تھا اتنا دیا۔

12 سب لوگ سیر ہو کر کھا چکے جب وہ لوگ کھا چکے تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ، “بچے ہو ئے ٹکڑوں کو جمع کرو اور کچھ بھی ضائع نہ کرو۔” 13 اسطرح شاگردوں نے تمام ٹکڑوں کو جمع کیا اور ان لوگوں نے بارلی کی روٹی کے پانچ ٹکڑوں سے ہی کھانا شروع کیا اور انکے ساتھیوں نے تقریباً بارہ ٹوکریوں میں ٹکڑے جمع کئے۔

14 لوگوں نے یہ معجزہ دیکھا جو یسوع نے انہیں بتا یا لوگوں نے کہا ، “یہی نبی ہے جو عنقریب دنیا میں آنے والے ہیں۔”

15 پس یسوع یہ بات معلوم کرکے کہ لوگ اسے آکر بادشاہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے وہ دوبارہ تنہا پہاڑی کی طرف چلے گئے۔

(یوحنا 6:1-15)

https://www.youtube.com/watch?v=8RPgo5VgtGQ&list=PLHvce-kc-eatp2ob50RyDl6j43qlhI5C7&index=22

جب لوگوں نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ المسیح پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے پانچ ہزار لوگوں کو کھانا کھلاسکتے ہیں اور پھر اُس کھانے سے بچ بھی جاتا ہے۔ تو اُنہوں نے جان لیا کہ آپ لاثانی پیغمبر ہیں۔ تو لوگ سوچنا شروع ہوگے کہ کہ آپ وہ نبی ہیں۔ جس کے بارے میں حضرت موسیٰ ؑ نے تورات شریف میں کی تھی۔ حقیقت میں حضرت عیسیٰ المسیح ہی وہی نبی تھے۔ جس کے بارے میں تورات شریف نے بتایا تھا۔

18 میں تمہا ری طرح ایک نبی اُن کے لئے بھیج دوں گا وہ نبی انہی لوگوں میں سے کو ئی ایک ہو گا۔ میں اسے وہ سب بتا ؤں گا جو اسے کہنا ہو گا اور وہ لوگوں سے وہی کہے گا جو میرا حکم ہو گا۔ 19 یہ نبی میرے نام پر بولے گا اور جب وہ کچھ کہے گا تب اگر کو ئی شخص میرے احکام کو سننے سے انکار کرے گا تو میں اس شخص کو سزا دو ں گا۔‘

(استثناء18:18-19)

 اس نبی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ نشان بخشا کہ وہ اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالے گا۔ کیا چیز انسان کو اللہ تعالیٰ کے کلام سے جدا کرتی ہے۔ اس کی بہترین وضاحت ہمیں سورۃ یس میں ملتی ہے۔

وه جب کبھی کسی چیز کا اراده کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، وه اسی وقت ہو جاتی ہے

(Ya-sin36:82)

ہم نے پچھلے مضمون میں پڑھا کہ حضرت عیسیٰ المسیح بیماروں کو شفاء اور بدروح گرفتا لوگوں کو "کلام” کرنے سے رہائی فرما دیتے تھے۔ یہاں ہم نے دیکھا کہ آپ نے صرف بولا اور طوفان اور موجوں نے آپ کا حکم مانا۔ اس کے بعد آپ نے بولا اورتو پانچ ہزار لوگوں کے لیے کھانا مہیا ہوگیا۔ یہ تمام نشانات جو تورات شریف میں آنے والے نبی کے بارے میں دیئے گے تھے۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام اُس کے منہ میں رکھے گا۔ یہ سب حضرت عیسیٰ المسیح میں پوری ہوئیں۔ کیونکہ جب حضرت عیسیٰ المسیح بولتے تھے۔ تو چیزیں وجود میں آتی تھی!

لیکن یہ دلچسپی کی بار تھی۔ کہ آپ کے حواریوں کے لیے بھی یہ سب سمجھنا مشکل تھا۔ وہ روٹیوں کے معجزہ کو سمجھ نہ پائے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں انجیل مقدس میں 5000 ہزار لوگوں کو کھانا کھلانے کے واقع کے فوراً بعد اس طرح درج ہے۔

45 تب یسوع نے اپنے شاگر دوں کو کشتی میں سوار ہو نے کے لئے کہا۔ یسوع نے ہدا یت کی کہ وہ جھیل کے اس پار بیت صیدا جائیں اور کہا کہ تھوڑی دیر بعد وہ آئیگا۔ یسوع وہاں رک گئے تا کہ لو گوں کو گھر جا نے کے لئے سمجھایا جائے۔ 46 یسوع لو گوں کو رخصت کر نے کے بعد پہاڑ پر گئے تا کہ عبادت کی جا ئے۔

47 اس رات کشتی جھیل کے بیچ میں تھی یسوع اکیلے ہی زمین پر تھے۔ 48 یسوع نے کشتی کو دیکھا جو جھیل میں بہت دور تھی اور وہ شاگرد ان کو کنا رے پر پہونچا نے کے لئے سخت جد و جہد کر رہے تھے۔ ہوا انکے مخا لف سمت میں چل رہی تھی صبح کے تین سے چھ بجے کے درمیا ن یسوع نے پا نی پر چلتے ہوئے کشتی کے قریب آکر ان سے آگے نکل جا نا چا ہا۔ 49 لیکن پا نی پر چلتے ہوئے جب ان کے شا گر دوں نے اسے دیکھا تو اسے بھوت سمجھا اورخوف کے مارے چلّا نے لگے۔ 50 تمام شاگردوں نے جب یسوع کو دیکھا تو بہت گھبرائے۔ لیکن یسوع نے ان سے باتیں کیں اور کہا ، “فکر مت کرو! یہ میں ہی ہوں! گھبراؤ مت۔” 51 پھر یسوع اس کشتی میں ان کے ساتھ سوار ہوئے تب ہوا رک گئی شاگر دوں کو حیرت ہوئی۔ 52 پانچ روٹیوں سے پانچ ہزار لوگوں کے کھا نے کا واقعہ کو دیکھ چکے تھے لیکن اب تک اس کے معنی سمجھ نہ سکے۔ ان کے ذہن بند ہو گئے تھے۔

یسوع کا کئی لوگوں کو شفا ء بخشنا

53 یسوع کے شاگر د جھیل پار کر کے گنیّسرت گاؤں کو آئے اور کشتی جھیل کے کنا رے باندھ دی۔ 54 وہ جب کشتی سے باہر آئے تو لوگوں نے یسوع کو پہچان لیا۔ 55 یسوع کی آمد کی اطلاع دی۔ اس علاقے میں رہنے والے سبھی لوگ دوڑنے لگے جہاں بھی لوگوں نے سنا کہ یسوع آئے تو لوگ بیماروں کو بستروں سمیت لا رہے تھے۔ 56 یسوع اس علا قے کے شہر وں گاؤں اور باغات کو گئے وہ جس طرف جا تے تھے لوگ بازاروں میں بیماروں کو بلا لا تے تھے اور وہ یسوع سے گزارش کرتے تھے کہ ان کو اپنے چغہ کے دا من کو چھو نے کا موقع دے۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے اس کے چغے کو چھوا تھا وہ تندرست ہو گئے۔

(مرقس6:45-56)

https://youtu.be/XBolVfbt4C4

 دوبارہ حضرت عیسیٰ المسیح نے کہا ہو جا اور جو کہا وہ ہو گیا ۔ لیکن حواری اس بات کو سمجھ نہ پائے۔ وجہ یہ نہیں کہ وہ ذہین/سمجھدار نہیں تھے۔ یہ نہیں کہ وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ نہ وجہ یہ کہ وہ بُرے شاگرد تھے۔ نہ ہی یہ کہ وہ غیر ایماندار تھے۔ بلکہ یہ لکھا ہے۔ کہ اُن کے”دل سخت” ہوچکے تھے۔ یاد رکھیں! حضرت یرمیاہ نبی نے کیا پیش گوئی کی تھی۔ کہ ایک نیا عہد آنے والا ہے۔ جو ہمارے دلوں پر لکھا جائے گا۔ جب تک وہ شخص تبدیل نہیں ہوگا۔ اُس کا دل سخت ہی رہے گا۔ یہ دل آپ کے قریبی پیروکاروں بھی تھے! اور ہمارے سخت دلی ہمیں انبیاء اکرام کے پیغمات کو جو اُن پر نازل ہوا تھا۔ سمجھنے سے روکتا ہے۔

اس لیے حضرت یحییٰ کا تیاری کا کام نہایت ہی اہم ہے۔ ہم نے دیکھا کہ حضرت یحییٰ نےگناہوں نے توبہ کی منادی کی تاکہ وہ اپنے گناہوں کو نہ چھپائیں۔ اگر حضرت عیسیٰ المسیح کے حواریوں کے دل سخت تھے۔ تو اُن کو بھی گناہوں سے توبہ کی ضرورت تھی۔ آپ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں۔ کہ ہم کو اس کی کس قدر ضرورت ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ہم خاموشی کے ساتھ میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ( وہ ہمارے سادہ سے خیالات کو جانتا ہے۔ تو ہم سادہ سے دعا اپنی سوچوں میں ہی کریں گے) جس طرح حضرت داود ؑ نے اپنے اقرار کیا تھا۔

ے خدا! اپنی شفقت کے مطا بق مجھ پر رحم کر۔
    اپنی عظیم رحمدلی کی وجہ سے، میرے تما م گنا ہوں کو مٹا دے۔
اے میرے خدا ! میرے گناہوں کو صاف کر۔
    میرے گناہ دھو ڈال ، اور پھر سے تو مجھ کوپاک بنا دے۔
میں جانتا ہوں، جو خطا میں نے کی ہے۔
    میں اپنے گنا ہوں کو ہمیشہ اپنے سامنے دیکھتا ہوں۔
اے خدا! میں نے تیرے خلاف گنا ہ کیا، صرف تیرے خلاف!
    تو نے جن چیزو ں کوغلط کہا وہ میں نے کیا۔
میں اعتراف کر تا ہوں اِن باتوں کا تا کہ لوگ جان جا ئیں کہ

میں غلطی پر تھا اورتُو حق پر ہے اور تیری عدا لت راست ہے۔

اور تیرے فیصلے مکمل ہو تے ہیں۔

10 اے خدا ! میرے اندر ایک پاک قلب پیدا کر!۔
    دو با رہ میری رُوح کوطا قتور بنا۔
11 اپنی مقدّس رُوح کو مجھ سے نکال۔
    مجھے اپنی بارگاہ سے خا رج نہ کر۔
12 اپنی نجات کی شادمانی مجھے پھر عنایت کر ،
    تیری خدمت کے لئے مجھے خواہشمند رُوح دے۔

(زبُور51:1-4,10-12)

 یہ دعا میں کی ہے۔ اور میں کی حوصلہ افزائی کروں گا۔ کہ آپ بھی دعا کریں۔ تاکہ ہم انبیاء اکرام کے پیغامات کو نرم اور پاک دلوں سے سمجھ سکیں۔ جس طرح ہم انجیل شریف کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے