Skip to content

حضرت عیسیٰ مسیح کو شیطان آزماتا ہے

  • by

سورة الاٴنفَال (سورة 8 – غنیمت) میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ شیطان کیسے لوگوں کو آزماتا ہے۔

اور جب شیطانوں نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کر کے دکھائے اور کہا کہ آج کے دن لوگوں میں کوئی تم پر غالب نہ ہوگا اور میں تمہارا رفیق ہوں (لیکن) جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہوئیں تو پسپا ہو کر چل دیا اور کہنے لگا کہ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں تو ایسی چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔ مجھے تو خدا سے ڈر لگتا ہے۔ اور خدا سخت عذاب کرنے والا ہے
سورة الاٴنفَال 8: 48

سورة طٰه ( سورة 20 – طٰه) میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ابلیس نے کس طرح حضرت آدم کو گناہ میں گرنے میں کیا گیا۔ اس طرح ارشاد کیا گیا ہے۔

تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ (اور) کہا کہ آدم بھلا میں تم کو (ایسا) درخت بتاؤں (جو) ہمیشہ کی زندگی کا (ثمرہ دے) اور (ایسی) بادشاہت کہ کبھی زائل نہ ہو
سورة طٰه 20: 120

 شیطان حضرت عیسیٰ المسیح پر بھی یہی حربہ آزمایا۔ انجیل پاک میں اس واقعہ کا بیان حضرت یحییٰ کے فوراً بعد کیا ہے۔  دیکھا کہ حضرت یحیٰ نے لوگوں کو المسیح کی آمد کے لیے تیار کیا۔ اُنہوں نے بڑے سادہ اور آسان الفاظ میں توبہ کاخطبہ دیا کہ لوگوں کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انجیل مقدس حضرت عیسیٰ مسیح کے بارے بتاتی ہے کہ اُنہوں نے حضرت یحیٰ سے بپتسمہ لیا۔ یہ حضرت عیسیٰ مسیح کی عوامی خدمت کا اعلان تھا۔ لیکن اس سے پہلے حضرت عیسیٰ مسیح اپنی خدمت کا آغاز کرتے۔ اُنہوں نے اپنا کچھ وقت بیابان میں اللہ تعالیٰ کے حضور گذارا۔ اُسی دوران شیطان نے اُن کو آزمایا۔

انجیلِ مقدس ہمیں بتاتی ہے۔ کہ شیطان نے اُن کو تین مختلف آزمائشیوں سے آزمایا۔ آئیں ہم ان تینوں آزمائشیوں کے بارے میں مل کر جانتے ہیں۔ (ان آزمائشیوں کی معلومات کے دوران ہم دیکھیں گے کہ شیطان کچھ مشکل خطاب سے حضرت عیسیٰ مسیح سے مخاطب ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر "خدا تعالیٰ کا بیٹا” اس کے بارے میں جاننے کے لیے آپ میرے اس مضمون کا مطالعہ کرسکتے ہیں) 

شیطان روٹی سے آزماتا ہے۔

‘اُس وقت رُوح یِسُو ع (عیسیٰ مسیح) کو جنگل میں لے گیا تاکہ اِبلِیس سے آزمایا جائے۔ اور چالِیس دِن اور چالِیس رات فاقہ کر کے آخِر کواُسے بُھوک لگی۔ اور آزمانے والے نے پاس آ کر اُس سے کہا اگر تُو خُداکا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتّھر روٹِیاں بن جائیں۔ اُس نے جواب میں کہا لِکھا ہے کہ آدمی صِرف روٹی ہی سے جِیتا نہ رہے گابلکہ ہر بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نِکلتی ہے۔ ‘

 تب روح یسوع کو جنگل میں شیطان سے آزمانے کیلئے لے گئی۔ یسوع نے چالیس دن اور چالیس رات کچھ نہ کھایا تب اسے بہت بھوک لگی۔ تب اسکا امتحان لینے کیلئے شیطان نے آکر کہا، “اگر تو خداکا بیٹا ہی ہے تو ان پتھروں کو حکم کر کہ وہ روٹیاں بن جائیں۔”

یسوع نے اس کو جواب دیا یہ “صحیفہ میں لکھا ہے:

کہ انسان صرف روٹی ہی سے نہیں جیتا ،
    بلکہ خدا کے ہر ایک کلام سے جو اس نے کہیں۔

متی 4: 1-4

یہاں ہم ایک متوازی صورت حال دیکھتے ہیں جب شیطان نے جنت میں آدم اور حوا کی آزمائش کی. آپ کو یاد ہوگا کہ یہ آزمائش پھل کے ذریعے آئی "۔ ۔ ۔کھانے کے لیے اچھا ۔ ۔ ۔” اور اُس کی آزمائش کی یہی ایک وجہ تھی۔ اسی صورت حال میں حضرت عیسیٰ جب ایک لمبے روزے(اس روزے میں کوئی سحری اور افطار شامل نہیں تھا) کی حالت میں تھے ۔ تو روٹی کے بارے میں خیال ایک آزمائش تھی۔ لیکن اس بار آزمائش کا نتیجہ حضرت آدم ؑ سے مختلف نکلا۔ حضرت عیسیٰ مسیح نے آزمائش پر قابو پالیا جبکہ حضرت آدم ؑ آزمائش پر قابو نہ پاسکے۔

لیکن ان 40 دنوں کے دوران کھانے کی اجازت کیوں نہیں تھی؟انجیل مقدس ہم کو اس کے بارے میں نہیں بتاتی لیکن زبور شریف نے اس کے بارے میں پیش گوئی کردی تھی۔ کہ آںے والا خادم اسرائیل قوم کی نمائندگی کرے گا۔ اسرائیلی قوم 40 سال تک بیابان میں حضرت موسیٰ کی قیادت میں رہی۔ وہاں اُنہوں نے وہی کھانا (مینہ سلوہ) کھایا جو آسمان سے مہیا ہوتا تھا۔ 40 دن کا روزہ اور اللہ تعالیٰ کے کلام پر گیان دھان حضرت عیسیٰ کے لیے روحانی کھانا تھا۔ جس سے مراد تھی کی یہ وہی خادم ہے۔ جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا تھا۔

خدا کے وعدے پر آزمائش

دوسری آزمائش بھی اپنی نوعیت کی وجہ سے مشکل تھی اور انجیل مقدس اس کے بارے میں ہمیں یوں بتاتی ہے۔

‘تب اِبلِیس اُسے مُقدّس شہر میں لے گیا اور ہَیکل کے کنگُرے پر کھڑا کر کے اُس سے کہا کہ۔ اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئِیں نِیچے گِرا دے کیونکہ لِکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حُکم دے گا اور وہ تُجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے اَیسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتّھرسے ٹھیس لگے۔ یِسُو ع نے اُس سے کہا یہ بھی لِکھا ہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کی آزمایش نہ کر۔

متی 4: 5-7

یہاں شیطان نے حضرت عیسیٰ مسیح کو آزمانے کے لیے زبور شریف میں سے حوالہ دیا۔ اس بات کا اندازہ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کی مخالفت کی اور اس لیے اُس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا مطالعہ کیا تاکہ وہ اُس کی مخلوق کو گمراہ کرسکے۔ اس لیے وہ الکتاب کو اچھی طرح جانتا تھا اور وہ لوگوں کو گمراہ کرنے میں ماہر تھا۔

میں نےیہاں آپ کی خدمت میں وہ زبور شریف کا حصہ پیش کیا ہے۔ جس کو شیطان نے حضرت عیسیٰ مسیح کو گمراہ کرنے کی کوشش کے لیے استعمال کیا۔ (میں اُس لائن کو انڈرلائن کیا ہے)

‘تُجھ پر کوئی آفت نہیں آئے گی اور کوئی وبا تیرے خَیمہ کے نزدِیک نہ پُہنچے گی۔ کیونکہ وہ تیری بابت اپنے فرِشتوں کو حُکم دے گا کہ تیری سب راہوں میں تیری حِفاظت کریں ۔ وہ تُجھے اپنے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے تاکہ اَیسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھّر سے ٹھیس لگے ۔ تُو شیرِ بَبر اور افعی کو رَوندے گا۔ تُو جوان شیر اور اژدہا کو پامال کرے گا۔ چُونکہ اُس نے مُجھ سے دِل لگایا ہے اِس لِئے مَیں اُسے چُھڑاؤُں گا۔ مَیں اُسے سرفراز کرُوں گا کیونکہ اُس نے میرا نام پہچاناہے۔ ‘

                زبور 91: 10-14

آپ زبور شریف کے اس حوالہ میں لفظ "وہ” دیکھ سکتے ہیں۔ جس کے بارے میں شیطان یہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ "المیسح” کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لیکن یہ حوالہ "المسیح” کے بارے برائے راست اشارہ نہیں کرتا۔ تو پھر شیطان کیسے اس بات کو جانتا ہے؟

آپ اس بات کی طرف توجہ کریں کہ لکھا ہے کہ وہ عظیم شیر اور اژدہا کو روندے گا۔ (13 ویں آیت میں اِس کو سرخ سے لکھا ہے) یہاں پر شیر کی طرف اشارہ دراصل یہوداہ کے قبیلہ کی طرف ہے۔ جس کے بارے میں حضرت یقعوب نے تورات شریف میں پیش گوئی کی تھی۔

اَے یہُوداہ! تیرے بھائی تیری مدح کریں گے تیرا ہاتھ تیرے دُشمنوں کی گردن پر ہو گا ۔ تیرے باپ کی اَولاد تیرے آگے سرنِگُوں ہو گی۔ یہُوداہ شیرِ بَبر کا بچّہ ہے۔ اَے میرے بیٹے! تُو شِکار مار کر چل دِیا ہے۔ وہ شیرِ بَبر بلکہ شیرنی کی طرح دَبک کر بَیٹھ گیا ۔ کَون اُسے چھیڑے؟ یہُوداہ سے سلطنت نہیں چھُوٹے گی اور نہ اُس کی نسل سے حُکومت کا عصا موقُوف ہو گا۔ جب تک شِیلو ہ نہ آئے اورقَومیں اُس کی مُطِیع ہوں گی۔

“اے یہوداہ تیرے بھا ئی تیری تعریف کریں گے۔
    تو اپنے دُشمنوں کو شکست دیگا۔
    اور تیرے بھا ئی تیرے لئے جھک جا ئیں گے۔
یہوداہ ایک شیر کی طرح ہے۔
    اے میرے بیٹے تو ا س شیر کی طرح ہے کہ جس نے ایک جانور کو مار دیا۔ اے میرے بیٹے تو ایک شیر کی طرح شکار کے لئے گھات میں بیٹھا ہوا ہے۔
یہوداہ شیر کی مانند ہے۔ وہ سو کر آرام کر تا ہے
    اور اُسے چھیڑ نے کی کسی میں ہمت نہیں۔
10 وہ شاہی قوت کو اپنے ہاتھ میں رکھے گا
جب تک کہ وہ آ نہیں جاتا
    جو اس کا جانشیں ہو گا۔
دوسری قوموں کے لو گ ان کی فرمانبردار ی کرینگے۔

پیدائش 49: 8-10

حضرت یعقوبؑ نے تورات شریف میں طویل عرصہ پہلے یہ کہا تھا۔ کہ یہوداہ کا قبیلہ شیر کی مانند ہے۔ جس میں سے "وہ” یعنی شیلوہ آئے گا اور وہ ہی حکومت کرے گا۔ زبور شریف اس پیش گوئی کو جاری رکھتا ہے۔ اس کی جگہ کہ وہ "شیرکو روندے گا” کے الفاظ استعمال کرتا ہے ۔ زبور شریف نے فرمایا ہے کہ "وہ” یہوداہ پر حکمرانی کرے گا۔

شیطان نے زبور شریف کا جو حوالہ استعمال کیا تھا۔ اُس کے مطابق "وہ” سانپ کو روندے گا۔ ہ برائے راست اُس پہلے وعدے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کہ "وہ” عورت کی نسل میں سے ہوگا۔ اور سانپ کو کچلے گا۔ جس کا ذکر ہم نے اپنے مضمون "آدم کے نشان" میں عورت کی نسل میں سے آنے والے کا ذکر کیا تھا۔ یہاں پر ایک بار پھر تصویر میں واضح کیا ہے۔ کہ اُس کا کرداراور اعمال کیسا ہوگا۔

لہذا اللہ تعالیٰ نے سانپ سے کہا …

‘اور مَیں تیرے اور عَورت کے درمیان اور تیری نسل اور عَورت کی نسل کے درمِیان عداوت ڈالُوں گا ۔ وہ تیرے سر کو کُچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا۔ ‘

پَیدایش 3: 15

یہ وعدہ آدم کی نشانی میں سب سے پہلے دیا گیا تھا، لیکن اس میں تفصیلات  واضح نہیں تھیں. اب ہم جانتے ہیں کہ یہ ‘عورت’ حضرت مریم ہے کیونکہ وہ واحد دنیا میں شخصیت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے بغیراولاد سے نوازا تھا- اور وہ کنواری تھیں۔ جس طرح ایک نسل کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جس کا اشارہ "وہ” تھا۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ المسیح ہیں۔ اس لیے میں نے اُوپر دی گئی تصویر میں ان کے نام شامل کردیں ہیں۔ ماضی میں کیا گیا وعدہ کیا تھا۔ کہ "وہ” یعنی حضرت عیسیٰ المسیح سانپ کو کچلے گا۔ زبور شریف میں سے جس حوالے کو شیطان نے استعمال کیا تھا۔ اُس میں یوں لکھا ہے۔

شیطان نے زبور شریف میں سے جس بات کا حوالہ دیا تھا۔ اُس کے بارے میں ماضی میں دو پیش گوئیاں تورات شریف میں سے جوڑی ہوئی ہیں۔ کہ "وہ” آنے وال خادم شیطان کو روندے گا۔ چنانچہ شیطان جس حوالے کو پیش کر رہا تھا۔ اُس کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا۔ کہ یہ آنے والے مسیح کے بارے میں ہے۔ شیطان کی کوشش تھی۔ کہ آزمائش کے ذریعے وہ اس پیش گوئی کو جھوٹا ثابت کردے۔ زبور شریف اور تورات شریف میں پیشن گوئیوں کو پورا ہونا ضرور تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا۔ کہ عیسیٰ مسیح اچانک ہیکل میں آئے اور سب باتوں کو ثابت کردیں۔ لیکن وہ سب کچھ پلان کے ساتھ پورا کرنa چاہتے تھے۔ تاکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تورات اور زبور شریف میں نازل کیا تھا اُس کو اُسی طرح پورا کریں۔

عبادت کی آزمائش

پھر شیطان نے حضرت عیسیٰ مسیح کی آزمائش اپنی ساری شان وشوکت جو اُس کے پاس دنیا پر تھی اُس کو دکھائی ۔ اس کا ذکر انجیلِ مقدس میں اس طرح ہے۔

‘پِھراِبلِیس اُسے ایک بُہت اُونچے پہاڑ پر لے گیا اور دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُن کی شان و شوکت اُسے دِکھائی۔ اور اُس سے کہا اگر تُو جُھک کر مُجھے سِجدہ کرے تویہ سب کُچھ تُجھے دے دُوں گا۔ یِسُو ع نے اُس سے کہا اَے شَیطان دُور ہو کیونکہ لِکھاہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کو سِجدہ کر اور صِرف اُسی کی عبادت کر۔ تب اِبلِیس اُس کے پاس سے چلا گیا اور دیکھو فرشتے آ کر اُس کی خِدمت کرنے لگے۔ ‘

    متی 4: 8-11

مسیح” کا مطلب ہے "وہ جو حکومت کرنے کے لیے مسح” کیا گیا۔” شیطان نے حضرت عیسیٰ کی آزمائس کی جس طرح وہ کرسکتا تھا۔ لیکن اُس نے حضرت عیسیٰ مسیح کی آزمائش اس طرح کی کہ وہ اپنی حکومت کو شارٹ کٹ طریقے سے حاصل کرلے۔ جو صرف شیطان کو سجدہ (عبادت) کرنے سے حاصل ہوسکتی تھی۔ جو کہ شرک تھا۔

حضرت عیسیٰ المسیح نے شیطان کی آزمائش کا مقابلہ کیا۔ (ایک بار پھر سے) تورات شریف میں سے حوالہ دیکھیں۔

حضرت عیسیٰ المسیح نے تورات شریف کوبہت ہی اہم سمجھا اور اسی لیے وہ اس کو بڑی اچھی طرح سے جانتے تھے اور اس پر بھروسہ بھی رکھتے تھے۔

حضرت عیسیٰ المسیح: ہماری صورت حال کو سمجھتے ہیں

حضرت عیسیٰ المسیح کی آزمائش ہمارے لیے بڑی ایمیت رکھتی ہے۔ انجیل شریف میں حضرت عیسیٰ مسیح کے بارے لکھا ہے۔

‘کیونکہ جِس صُورت میں اُس نے خُود ہی آزمایش کی حالت میں دُکھ اُٹھایا تو وہ اُن کی بھی مدد کر سکتا ہے جِن کی آزمایش ہوتی ہے۔

                                                                عبرانیوں 2: 18

اور

‘کیونکہ ہمارا اَیسا سردار کاہِن نہیں جو ہماری کمزورِیوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تَو بھی بے گُناہ رہا۔ پس آؤ ہم فضل کے تخت کے پاس دِلیری سے چلیں تاکہ ہم پر رَحم ہو اور وہ فضل حاصِل کریں جو ضرُورت کے وقت ہماری مدد کرے۔

عبرانیوں 4: 15-16

 یاد رکھیں حضرت ہارون سردار کاہین ہونے کی وجہ سے قربانی پیش کرتا تھا۔ تاکہ اسرائیلیوں کے گناہ معاف ہوجائیں۔اب حضرت عیسیٰ المسیح کو سردار کاہن ہیں۔ جو ہماری صورتِ حال کو سمجھتے اور ہمارے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ ہماری آزمائش میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود آزمایا گیا لیکن پھر بھی گناہ نہ کیا۔ اور اسی لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونی کی دلیری حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ المسیح نے مشکل ترین آزمائشوں کا سامنا کیا لیکن وہ گناہ میں نہ گرے۔ حضرت عیسیٰ المسیح ہی ہیں جو ہماری آزمائشوں اور صورت حال کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی ہماری طرح کی آزمائشوں میں پڑا لیکن اُنہوں نے گناہ نہ کیا۔

 سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے: کیا ہم ایسے مدد گاراور ہمددر کو چھوڑ دیں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے